1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

Chai pilao az qalam zia ullah Munson چائے پلاؤ از قلم ضیاء المحسن

'مزاحیات' میں موضوعات آغاز کردہ از علی مجتبیٰ, ‏اگست 14, 2017۔

  1. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    چائے پلاؤ
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    رائٹر کا نام :ضیاء اللہ محسن
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    چائے اور پُلائو ہمیں پچپن سے ہی پسند ہیں مگر ’چائے پِلائو‘ جیسا مطالبہ ہمیں کبھی پسند نہیں آیا۔ خاص طورپر جب اپنی جیب سے پلانا پڑے یا خود بنا کر… اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہمیں چائے بنانا نہیں آتی، بلکہ منہ اور بے وقوف کے بعد چائے ہی ہے جو ہمیں بنانا آتی ہے، ورنہ اس سے قبل تو ہم انڈا ابالنے، حتیٰ کہ پانی ابالنے کو بھی بڑا کام سمجھتے رہے تھے۔
    چائے بناناتو حقیقت یہ ہے کہ باقاعدہ ایک فن ہے۔ چائے… بالخصوص جو ہمارے ہاتھ سے بنی ہو، اس کی ایک چسکی کوئی صاحبِ ذوق لے کر تو دیکھے، سرور سے آنکھیں بند اور دل و دماغ کھل نہ جائیں تو کہیے گا۔ خیر! آج ہم چاہتے ہیں کہ چائے کے حوالے سے اپنی دانش سے آپ کو بھی مستفید فرمائیں۔ تو پڑھیے چائے کی تین خوبیاں:
    ٭ چائے اچھی ہوتی ہے
    ٭چائے بہت اچھی ہوتی ہے
    ٭ چائے واقعی بہت اچھی ہوتی ہے
    ارے واہ! چائے کے ذکر سے ہمیں اچانک ایک پرانا قصہ یاد آ گیا… کیا خیال ہے سنیں گے… چلیے سنیے نہیں تو پڑھ لیجیے۔
    ہوا یہ کہ میٹرک کے امتحانات کے بعد ہمارا عیاشی پیریڈ چل رہا تھا۔اماں کو حکمت کی یہ بات پتا تھی کہ فارغ دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے، سو اماں جان نے حکم صادر کردیا:
    ’’شاباش بیٹا! بستر اٹھاؤ… اور دل ودماغ کی بیٹری چارج کرنے کے لیے اللہ کے راستے میں نکل جائو۔‘‘
    بہتیری آئیں بائیں شائیں کی، ایک نہ چلی… چناں چہ مابدولت کو ابو جان کا سلیپنگ بیگ اٹھانا ہی پڑا۔ ساتھ میں ہم نے اپنے خوش طبع، زندہ دل اور شرارتی دوست وسیم کو بھی تیار کرلیا۔ وسیم ہمارا یارِ غار اور میٹرک میں ہیٹٹرک جیسے عظیم کارنامے کا حامل بہترین دوست تھا۔
    مرکز گئے۔ جماعت بنی اور ایک بڑی مسجد میں ہماری تشکیل ہوگئی۔
    پہلے ہی دن امیر صاحب نے خدمت کے لیے ہم دونوں کو ذمہ داری سونپ دی۔ خدمت سے خدا ملتا ہے، سو بخوشی یہ ذمہ داری قبول کی۔
    دو رکنی خدمت کمیٹی نے مشورہ کیا کہ نمازِ جمعہ سے قبل سب دوستوں کو اچھی سی چائے پلائی جائے، پھر نماز پڑھتے ہی گرما گرم پلائو پیش کیا جائے۔ چناں چہ تجویز پر عمل ہوا ۔مسجد کے ایک طرف بنے بڑے کمرے میں گیس کے دو چولہے ہمارے منتظر تھے۔ ہم نے جھٹ سے دو بڑے پتیلے پانی سے بھر کر چولہے پر چڑھادیے۔
    ہم جلدی سے برتن اور دیگر چیزیں تیار کرنے لگے ، جب کہ وسیم بھاگ کر مصالحے، چاول، گوشت، گھی، پیاز اور دہی وغیرہ لینے چلا گیا۔
    ’’اللہ کے راستے میں نکلو، ابھی نکل نہیں سکتے تو ارادہ ہی کرلو۔‘‘
    وسیم اندر داخل ہوتے ہوئے یہ جملہ بار بار دہرا رہا تھا۔
    ’’ارے کیا ہوا۔خیریت تو ہے وسیم…!‘‘ ہم نے مسکرا کر پوچھا۔
    ’’بس وہ مارکیٹ جانے سے قبل امیر صاحب نے نصیحت کی تھی کہ کسی سے سلام دعا کرتے اور ملتے وقت یہ مختصر سا جملہ اس کی سماعتوں کی نذر کردیا کرو… سو ابھی یہی عمل کرکے آیا ہوں۔‘‘
    ’’بہت خوب… ماشاء اللہ!‘‘
    ہم نے مسکرا کر اسے داد دی پھر اسے دوبارہ مخاطب کیا۔
    ’’وسیم! یار پلاؤ بنانے کی ترکیب تو آتی ہوگی نا تمہیں؟‘‘
    ’’نہیں تو… میرا خیال تھا تمہیں معلوم ہوگی!‘‘ وہ حیرانی سے بولا۔
    ’’ابے جانے دے یار!… پانی اور انڈا ابالنا تو گئے بھاڑ میں… ہمیں تو کڑوی چائے ٹیڑھی کھیر، باسی کڑھی اور خیالی پلائو پکانے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں ہے۔‘‘
    ’’گویا تمہاری کچن کتھا واقعی داد وتحسین کی مستحق نہیں ہے۔‘‘ وہ بے اختیار ہنس دیا۔
    جواباً ہمیں ترنم کا سہارا لینا پڑا ؎
    وسیم اٹھ کے جلدی سے چولہا جلائو
    پکاتے ہیں آج ہم خیالی پلائو
    عادت سے مجبور ہم نے شعر کا سہارا لیا تو وہ سٹپٹا گیا۔
    ’’چلو میاں… کچھ دال دلیا کرتے ہیں… بے فکر رہو… بس اتنا یاد رکھو کہ اللہ کے راستے میں نکلو۔ ابھی نکل نہیں سکتے تو ارادہ ہی کرلو…‘‘
    اس نے کہا تو ہم نے جیب سے اللہ بخشے اپنا 3310 موبائل (مرحوم) نکال کر اماں جی کو کال ملادی۔ اگلے ہی لمحے ’میں صدقے واری ‘کی صدائوں میں لپٹی پلاؤ کی ترکیب ہماری سماعتوں پر دستک دے رہی تھی۔
    ترکیب معلوم ہوتے ہی ہم نے چاول بھگوئے ، ٹماٹر اور پیاز کاٹے اور مصالحہ تیار کرنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد گوشت کا مصالحہ تیار ہو ا تو ہم نے اماں کی بتائی ہوئی ترکیب سے اب پتیلی میں چاول ڈالنے شروع کر دیے۔ دوسرے چولہے پر چائے کے لیے پانی بھی چڑھا ہوا تھا۔ابھی اس میں چائے کی پتی ڈالنی تھی۔
    ہم نے متعلقہ سامان قریب کرلیا۔ اچانک خیال آیا کہ وسیم کافی دیر سے غائب ہے۔ اسی وقت اچانک بیت الخلا کی جانب سے ہمیں چلانے کی آواز سنائی دی۔
    ’’یااللہ خیر!…‘‘
    ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا اور بوکھلاہٹ میں چائے کا پورا ڈبہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ کر چاول کے پتیلے میں جاگرا…مگر ہمیں اس سے زیادہ وسیم کی فکر تھی، سو ہم وسیم کی جانب بھاگ نکلے۔ واش روم کے پاس پہنچ کر جو منظر دیکھا اسے دیکھ کر ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ وسیم باہر رونی صورت لیے کھڑا تھا۔ اندر کافی دیر سے کوئی موجود تھا اور بے چارا وسیم بے چینی سے دروازہ پیٹ رہا تھا۔
    ’’ارے کتنی دیر سے باہر کھڑا ہوں… جلدی باہر نکلو… اف! یار ابھی نہیں نکلنا تو نکلنے کا ارادہ ہی کرلو…‘‘ وسیم غصے سے بولا تو ایک بار پھر ہماری ہنسی چھوٹ گئی۔
    مگر اچانک چاولوں اور چائے کا خیال آتے ہی ہم الٹے قدموں کچن کی جانب بھاگے، دونوں پتیلوں سے ڈھکن اتار کر دیکھا تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے۔ ایک پتیلے میں خالی پانی ہمارا منہ چڑا رہا تھا،جب کہ چاولوں والے پتیلے میں سارا پلاؤ سیاہ ہوچکا تھا۔ ہم سر پیٹ کر رہ گئے کہ آخر غلطی بھی ہماری ہی تھی۔
    وسیم جمعے کی تیاری کرکے کچن میں آیا تو اسے ساری صورت حال بتائی، مگر سوائے بتیسی نکالنے کے اس کے پاس بھی کوئی حل نہ تھا۔ اللہ اللہ کرکے ہم نے چائے تو سب دوستوں کے سامنے پیش کردی۔ مگر جمعے کی نماز کے بعد جب کھانے کے لیے دستر خوان لگایا تو ہماری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ایک تو چاولوں کا رنگ کالا سیاہ… دوسرے یہ کہ دَم ٹھیک سے نہ آنے اور وسیم کے بار بار چمچ ہلانے سے وہ حلوہ سا بن گیا تھا۔ ہماری جماعت میں امیر صاحب کے علاوہ باقی سب نئے اور نوجوان طالب علم ساتھی تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہماری یہ ’بلیک ڈش‘ کسی کے حلق سے نہ اترے گی۔
    چناں چہ ہم نے چپکے سے امیر صاحب کو کان میں ساری تفصیل بتادی۔ بھلا ہو امیر صاحب کا… انہوں نے فوراً کھانے کے آداب بتانا شروع کردیے کہ کھانا دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے۔ چمچ کی بجائے ہاتھ سے کھانا چاہیے۔ کھانے میں نقص نہیں نکالنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
    لیجیے جناب! دستر خوان پر سب بھوکے شیر جب جمع ہوئے تو ہم نے پلیٹوں میں ڈال کر کالا سیاہ پلاؤ سب کے سامنے پیش کردیا۔ ایک بار تو سب بھونچکارہ گئے، مگر امیر صاحب کے بتائے گئے کھانے کے آداب ابھی ابھی سنے تھے، سو بھاپ اڑاتا نرم گرم یہ سیاہ حلوہ سب ساتھیوں کو حلق سے اتارنا ہی پڑا۔
    ’’بھائی! ویسے یہ ہے کیا چیز؟‘‘ ایک ساتھی نے استفسار کیا۔
    ’’چائے پلائو… یہ چائے پلاؤ ہے… بڑے مزے کا ہے۔‘‘
    ہم نے جھٹ سے جواب دیا تو امیر صاحب مسکرادیے۔
    بس پھر کیا تھا جو ساتھی ’چائے پلائو‘ میں ہاتھ ڈالتا، آگے سے وہ حلوہ کاٹ کھانے کو دوڑتا بلکہ انگلیوں سے چمٹ جاتا تو اترنے کا نام ہی نہ لیتا… گرم زیادہ ہونے کی وجہ سے کئی دوستوں کو ہاتھ جھٹک کر انگلیوں کی جان بخشی کرانا پڑتی۔
    ایسے میں ہماری دبی دبی سی ہنسی کی آواز سن کر ایک دو لڑکوں نے ہمیں گھورا تو ہم آنکھ میں انگلی لگنے کا بہانہ کرکے کچن میں چلے آئے۔ وسیم بھی ہمارے پیچھے ہی تھا۔ بس پھر اللہ معاف کرے ، وہاں آکر جو ہمارے ہنسی کے فوارے پھوٹے، وہ منظر آج گیارہ سال کے بعد بھی نہیں بھولتا۔
     
  2. چوھدری کاشف سلیمی

    چوھدری کاشف سلیمی یونہی ہمسفر

    اھھھھاھاھاھاھا
     
    علی مجتبیٰ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں