1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

ہومیو پیتھی کے بارے میںسب سے بڑی غلط فہمی

'طب و صحت' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد یاسرکمال, ‏اپریل 27, 2016۔

  1. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    میرے خیال میں ہومیو پیتھی کے بارے میں جو سب سے بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہومیو پیتھک ادویہ بہت سستی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔اور شائد یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اُن بیماریوں کی وجہ سےمسلسل تکلیف اُٹھاتے چلے جاتے ہیں جن کا علاج ہومیو پیتھی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے،مگروہ کسی بھی حالت میں ہومیو پیتھی کی طرف نہیں آتے کیوں کہ اُن کے خیال میں یہ طریقہ علاج سست ہے اور اس کا فائدہ کوئی نہیں۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہومیو پیتھی بہت تیز طریقہ علاج ہے۔

    تو چلیں ایک مثال لیتے ہیں تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔

    جب ہمارا گلہ خراب ہوجاتا ہے اور ساتھ میں بخار بھی ہو تو کیا ہوتا ہے۔ہم فٹا فٹ افاقے کے لیے ایلوپیتھی کو ترجیح دیتے ہیں تا کہ جلد از جلد مسئلہ حل ہو۔ اس حالت میں اگر ہم ایلو پیتھک علاج کریں تو فرق پڑنے میں ایک آدھ دن لگ ہی جاتا ہے۔یاد رہے کہ یہاںمیں صرف فرق پڑنے کی بات کر رہا ہوں، مکمل افاقے کی نہیں، اور گلہ مکمل ٹھیک ہوتے ہوتے بھی کم از کم چار پانچ دن تو لگا ہی دیتا ہے۔بشرطیکہ آپ پرہیز کریں اور ساتھ میں غرارے بھی کریں۔ مطلب یہ کہ ایلوپیتھک ادویہ بے شک بہت تیزی سے کام کرتی ہیں لیکن پھر بھی یہ ادویہ تھوڑا بہت وقت تو لگاتی ہی ہیں۔

    جب کہ دوسری طرف اگر ہم ہومیو پیتھی کی طرف آئیں تو یہاں پر پہلی دو تین خوراکوں سے ہی بہتری کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔(بلکہ اکثر تو پہلی خوراک سے ہی بہتری محسوس ہو جاتی ہے) ہومیو پیتھی میں بیماری کے شروع میں پہلی دو تین خوراکیں شروع کے ایک دو گھنٹے میں ہی کھلا دی جاتی ہیں۔ ایک آدھ دن کے اندر اندر گلے کی خرابی اور بخار کی حالت ختم ہوجاتی ہے۔تو اب آپ خود سوچیں کونسی پیتھی علاج کے معاملے میں تیز ہے۔
    یہ موازنہ جو میں کر رہا ہوں تو یہ میں خود آزما چکا ہوں اور کم از کم میرے کیس میں حرف بحرف ایسا ہی ہوا تھا۔بار بار ایسا ہی رزلٹ ملا۔
    اب تو حال یہ ہے کہ چار پانچ سال سے نہ تو مجھے کوئی انجیکشن لگاہے اور نہ کوئی اینٹی بایئوٹک ادویہ کھانے کا اتفاق ہوا کیوں کہ ساری توجہ ہومیو پیتھی پر ہے۔(اسی وجہ سے وہ ایلوپیتھک ڈاکٹرز جن کے پاس بہت آنا جانا لگا رہتا تھا،وہ تھوڑا بہت گلہ شکوہ بھی کر جاتے ہیں کہ آپ آتے نہیں ہو۔کبھی کبھار پوچھتے ہیں کہ کہیں کسی اور ڈاکٹر(ایلوپیتھک ڈاکٹر) کے پاس تو نہیں جارہے)

    نوٹ : میں ایلوپیتھی کا مخالف نہیں،ایلوپیتھی کا اپنا ایک مقام ہے خاص طور پر ایمرجنسی اور سرجری کے میدان میں۔
    مقصد میرا صرف ہومیو پیتھی کا تعارف کروانا ہے جو 200سال سے اپنا وجود رکھتی چلی آرہی ہے اور ایک بہترین طریقہ علاج ہے مگر اس کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
     
    زبیر اور تجمل حسین .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    جو بیماریاں سالہا سال سے چلتی آرہی ہوں تو اُن کےمکمل علاج میں ہومیو پیتھی کو بے شک تین چار ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔لیکن چھوٹے موٹے عوارض میں ہومیو پیتھی اتنی تیزی سے عمل کرتی ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. بہت شکریہ یاسر بھائی اتنی تفصیل سے لکھنے کے لیے۔
    ایک سوال میری طرف سے بھی۔۔ :)

    کہا جاتا ہے کہ ہومیو پیتھک ادویات اصل میں ادویات ہوتی ہی نہیں بلکہ صرف مریض کے اعتماد و یقین کو مضبوط کیا جاتا ہے جس سے مریض کی حالت سنبھلنا شروع ہوجاتی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
    میں نے کہیں یہ بھی پڑھا تھا کہ اگر مختلف ہومیوپیتھک ادویات کو ان کی بوتلوں سے نکال کر باہر رکھ دیا جائے اور انہیں مکس کرکے کسی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا جائے تو یہ بتانا مشکل ہوجائے گا کونسی دوا کس بوتل سے نکالی تھی۔ یعنی بات وہی کہ ان میں کوئی خاص دوائی موجود نہیں ہوتی۔ اس بارے آپ کی کیا رائے ہے؟

    ایک سوال کا کہہ کر دو سوال کر گیا ہوں اس کے لیے معذرت :)
    ابھی تیسرا سوال بھی ذہن میں مچل رہا ہے وہ بعد میں :)
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زبیر

    زبیر منتظم Staff Member

    بہت خوب @محمد یاسرکمال بھائی۔
    آپ نے شروعات کر ہی دیں ماشا ء اللہ۔
    میں نے ایک ڈاکٹر صاحب کو جانتا ہوں جو کہ خود معذور ہیں لیکن ہومیو پیتھک کے ذریعے لوگوں کا علاج بھی کرتے ہیں ٹانگوں سے معذور اور مالی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود بلاناغہ شام کو آکر اپنے کلینک پر بیٹھتے ہیں اور لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ بہت اچھے اخلاق کےمالک ہیں ان کے پاس لوگوں کے آنے جانے سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے اب دوائی اثر کرتی ہے یا ڈاکٹر صاحب کا اخلاق اور ان کا برتاؤ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
    حکمت کے متعلق تو بہت سارے تجربات اور شواہد موجود ہیں کہ اصل حکماء اب بھی بہت ساری بیماریوں کا اپنی دواؤں کے ذریعے اچھا علاج کر لیتے ہیں ہومیو پیتھی سے متعلق مزید آپ ہی بتائیں گے۔
     
    تجمل حسین اور محمد یاسرکمال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    میری نظر میں صرف اعتماد اور یقین سے بیماری کو شکست دینا ہر حالت میں ممکن نہیں ہوگا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان قوتوں سے شفایابی کا عمل جلد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مگرمحض اعتماد اور یقین سے شائد بیماری کا علاج ممکن نہ ہو۔اعتماد اور یقین سے ہی کام چلانا ہو تو پھر کسی بھی ذریعے سے ان قوتوں کو بڑھا کر ان کو بطور علاج استعمال کیا جاسکتا ہے۔شائد ایسا ممکن بھی ہو مگر فی الحال ایسی کسی پیتھی کا ذکر نہین سُنا۔ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہوجائے۔زندگی میں پہلی دفعہ جب میں ہومیو پیتھک دوا استعمال کر رہا تھا تو تب حالات کچھ ایسے تھے کہ مجھے یقین نہ تھا کہ مجھے اس دوا کے ذریعے شفا ملے گی۔مگر اللہ کا کرم کہ میری منفی سوچ کے باوجود ہومیو پیتھی نےکام کیا اور مجھے شفا سے ہمکنار کیا۔یعنی اگر آپ کو دوا پر یقین نہیں بھی تو تب بھی دوا اپنا کام کرتی ہے۔مطلب یہ کہ یقین ہو یا نہ ہو،اس سے فرق نہیں پڑتا۔

    ہرجسم میں روح ہوتی ہے،اسی طرح ہومیو پیتھی کے مطابق جسم میں ایک اور قوت بھی موجود ہے جسے وائٹل فورس ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔جب تک یہ قوت بھرپور جوبن پر ہوتی ہے تب تک انسان کا جسم صحیح کام کرتا ہےاور اس حالت کو حالت شفا کا نام دیا جاتا ہے۔
    مگر انسان کی لا پروائیاور قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی سے قوت حیات کمزور پڑ جاتی ہیے اور جسم بیمار ہوجاتا ہے۔
    قوت حیات روح جیسی ہی ایک قوت کہلائی جاسکتی ہےاور ہومیو دوا اس قوت پر ہی عمل کرتی ہےاور اس کو بیماری کاسامنا کرنے کے قابل بناتی ہے۔
    چونکہ قوت حیات کوئی مادی چیز نہیں ہے،اس لیے ہومیو پیتھی میں ادویہ کو اس قدر ڈائلیوٹ کر دیا جاتا ہے کہ وہ مادی حالت کھو دیتی ہیں اور ایک طرح سےتوا انائی کی شکل میں آجاتی ہیں۔ہومیو ادویہ کی ہائی پوٹینسیز میں حد سے زیادہ توانائی ہوتی ہے اور اس کا استعمال صرف ایک مستند معالج ہی کرے تو بہتر ہے۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں دوا تو موجود نہین ہوتی مگر اس کے اثرات بھرپور توانائی کی شکل میں ضرور موجود ہوتے ہیں۔
     
    تجمل حسین اور زبیر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    تیسرے سوال کا منتظر
     
    تجمل حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    اگر کسی ڈاکٹر کے اخلاق اچھے نہیں مگر اس کو ہومیو پیتھک ادویہ کے بارے میں مکمل علم حاصل ہے اور وہ تجربہ بھی رکھتا ہے تو شفا لازمی ہے۔اخلاق اور برتاؤ کی اپنی اہمیت مسلم،مگر صرف اخلاق اور اچھے برتاو کی مدد سے بیماریوں کا علاج شاید ممکن نہ ہو۔اگر ایسا ممکن ہو جائے تو پھر کسی حکیم، ایلوپیتھ اور ہومیو پیتھ کی تو ضرورت ہی نہ رہے۔ہر بندہ اچھے اخلاق کی مدد سے علاج کر دیا کرے گا۔میرا خیال ہے کہ ہومیو پیتھک دوا ہی کام کر رہی ہے اور
    ڈاکٹر صاحب کے اچھے اخلاق مریضوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ بار بار ڈاکٹر صاحب کے پاس ہی علاج کے لیے آئیں اور کہیں اور نہ جائیں۔
     
    تجمل حسین اور زبیر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. یاسر بھائی بہت بہت شکریہ اس قدر تفصیلی جواب کے لیے۔
    تیسرا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی بیماری کے لیے ہومیو پیتھک ادویات استعمال کی جائیں اور ان سے افاقہ نہ ہو تو پھر ایلوپیتھک ادویات بھی کام نہیں کرتیں ۔ اس بارے کچھ وضاحت ہوجائے۔ :)
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زبیر

    زبیر منتظم Staff Member

    آپ نے کافی مفصل اور معلوماتی تبصرہ کیا ہے ۔ درج بالا اقتباس کی مزید وضاحت کی جائے۔ وائٹل فورس پر چاہیں تو یہاں تبصرے میں تفصیل سے لکھیں چاہیں تو الگ سے لڑی بنا کر اس سے متعلق تفصیل سے بات کریں۔ نواز ش ہو گی۔:)
     
    تجمل حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. کیا اس سے درج ذیل بات کی تائید ہوتی ہے؟
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    تجمل بھائی،آپ نے اچھا سوال کیا ہے۔ اور آپ صحیح کہ رہے ہیں۔اگر کوئی مرض ہومیو پیتھی سے ٹھیک نہ ہو سکا تو پھر اس بات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں کہ وہ کسی اور پیتھی سے ٹھیک ہو جائے گا۔
    اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ مریض ایلوپیتھی سے مایوس ہو کر ہومیو پیتھی کی طرف آتا ہے اور شفا یاب ہوجاتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ اکثر امراض ایسے ہیں کہ جہاں ایلوپیتھی بے بس ہوجاتی ہے،اور ہومیو پیتھی میں اُن کا اچھا خاصا علاج موجود ہوتا ہے،تو مریض کو ہومیو پیتھی سے شفا مل جاتی ہے۔اور ایسے واقعات تو بہت عام ہیں۔
     
    تجمل حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. شکریہ یاسر بھائی۔
    اس کا مطلب ہوا کہ ہومیوپیتھی پہلی ہی سٹیج پر استعمال نہیں کرنی چاہیے بلکہ پہلے ایلوپیتھی یا حکمت کا استعمال کرلینا بہتر ہے؟
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    تجمل بھائی،میری رائے میں توسب سے پہلے ہومیو پیتھی کو آزمانا چاہئے۔اگر مرض کے آغاز میں ہی ہومیو پیتھی کو موقعہ دے دیا جائے تو فوری شفا یابی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔اگر آخری مدارج میں ہومیو پیتھی سے رجوع کیا جائےتو بعض اوقات ہومیو پیتھی بھی بے بس ہوجاتی ہے کیوں کہ ہر چیز کی کچھ محدودات تو بہر حال ہوتی ہی ہیں۔
     
    تجمل حسین اور زبیر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. کیا اس صورت میں بھی جبکہ بعد میں ایلوپیتھی کام ہی نہیں کرتی؟
     
  15. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    ایسا کوئی کیس کبھی سنا نہیں کہ جو ہومیو پیتھی کی وجہ سے ایلوپیتھی کے ہاتھ سے نکل گیا ہو۔ہومیو پیتھی میں ایسا کچھ بھی نہیں کہ بعد میں اگر کوئی ایلوپیتھی کی طرف جانا چاہے تو ایلوپیتھک میڈیسنز کام نہ کریں۔
     
    تجمل حسین اور زبیر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. زبیر

    زبیر منتظم Staff Member

    دیر کر دینا ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ بعد میں ایلو پیتھی کے ذریعے علاج ممکن نہ رہے۔ اس کی عام مثال کینسر کی تشخیص اور علاج اگر وقت پر شروع نہ ہو تو جان لیوا۔۔
     
    تجمل حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. جیسا کہ زبیر بھائی نے کہ دیر ہونے کی وجہ سے پھر ایلوپیتھی سے علاج ممکن نہیں رہتا۔ تو ایسی صورت میں پھر یہی ہوسکتا ہے کہ جن بیماریوں کا علاج ایلوپیتھی سے ممکن نہ ہو صرف ان کے لیے ہومیو پیتھی سے رجوع کیا جائے۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    ہر بیماری کے لیےہومیو پیتھی سے رجوع کیا جانا چاہیے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں