1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

سلطان حسین چھوٹی سی بات سلطان حسین

'میری تحریریں' میں موضوعات آغاز کردہ از سلطان حسین, ‏نومبر 26, 2017۔

  1. سلطان حسین

    سلطان حسین یونہی ہمسفر

    چھوٹی سی بات
    سلطان حسین

    مال غنیمت اور خوشخبری

    وہ بادشادہ تھا مصرو شام پر اس کی حکومت تھی ملک کے پورے خزانے پر اس کا اختیار تھا لیکن اس کے باوجود خزانے سے وہ ایک پیسہ نہیں لے رہا تھا اس کے گھر کی گزر اوقات مال غنیمت پر ہوتی یا اپنے کسی کام کی اجرت پر ہوتی ایک بادشاہ ہوتے ہوئے ان کے گھر میں تنگی ترشی رہتی جس کی وجہ سے ان کی بیوی کو ہر وقت تنگی کی شکایت رہتی ایک دن اس نے اپنے شوہر سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ''مصر اور شام کا علاقہ آپ کے زیرنگین ہے اور گھر کا یہ عالم ہے کہ اس میں آسودگی کا نام و نشان تک نہیں''بادشادہ نے تحمل سے بات سننے کے بعدجواب دیا ''بیگم خزانہ رعایاکا ہے اور مجھے اس کی چوکیداری پر متعین کیا گیا ہے میں اس خزانے کا مالک نہیں اس کا نگراںاور محافظ ہوںکیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہاری خوشی اور گھر کی آسودگی کے لیے خیانت اور بدیانتی کرکے اپنے لیے جہنم میں ٹھکانہ بنالوں؟''بادشادہ کی بیوی کو اپنے شوہر کے اس جواب سے بڑی شرمندگی ہوئی اور وہ دیر تک ندامت سے آنسو بہاتی رہی ۔اس بادشادہ کی یہ بات اور ان کے اس کردار کو تاریخ نے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلیا آج بھی جب دنیا تاریخ دیکھتی ہے تو ان کے اس کردار کو خراج تحسین پیش کرتی ہے یہ بادشاہ کون تھا آپ اگر تھوڑا ذہن پر زور دیں تو آپ کوان کا نام یاد آجائے گا یہ بادشادہ نورالدین زنگی تھانورالدین زنگی کی مصر اور شام پر حکمرانی تھی اس قدر وسیع سلطنت کے خزانے میںزر وجوہرات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے اتنے بڑے ملک پر ایک بادشاہ حکمران ہو تو اس کااپنا ایک جاو جلال ہوتاہے ایسے ملک کے باشادہ سے کوئی یہ پوچھنے کی بھی جرات نہیںکرسکتا ہے کہ وہ خزانے کواپنے مصرف میں کیوں لا رہا ہے ۔وہ خیانت اور بدیانتی سے ڈرتا تھا اور بادشادہ ہونے کے باوجود ان کی قناحت کا یہ عالم تھا کہ وہ خود کام کرتا تھا اور اس پر ان کی گزر اوقات ہوتی تھی وہ خزانے سے کوئی وظیفہ بھی نہیں لیتا تھا حالانکہ اسے یہ حق حاصل تھا اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ان مثالوں کو جب ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنا دامن تہی دست نظر آتا ہے جو کردار ہمارے اسلاف نے ہمارے لیے چھوڑا ہے اور ان کا جو کردار رہا ہے ہم میں اس کا ذرا بھر بھی نظر نہیں آرہا ہمارے اسلاف کے چھوڑے ہوئے کردار اور ان کی مثالوں پر ہم نہیں بلکہ اس پر آج کے زمانے میں مغرب عمل کر رہا ہے ہم اگر اسلامی دنیا کی بجائے صرف اپنے ملک پر ہی ایک نظر ڈالیں تو1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ان ستر سالوں میں کسی ایک بھی حکمران کی مثال ہم نہیں دے سکتے نہ ہی کسی حکمران کے کردار کو مثالی قرار دے سکتے ہیں سواء قائداعظم کے ۔مسلمانوںکے لیے اسلام کے نام پر قائم اس ملک میں ہمارے حکمرانوں نے اسلام کے کسی ایک بھی اصول پر عمل نہیں کیا جو بھی آیا اس نے جائز و ناجائز ہر طریقے سے صرف اپنے اقتدار کو دوام دیا' اپنے اثاثے بنائے اور اپنے مفادات کا خیال کیا کسی نے اسلام کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا کسی نے قوم پرستی کا پروپیگنڈا کرکے اپنا الو سیدھا کیا کوئی سوشلزم کی آڑ لے کے آگے بڑھا کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا فریب دے کر اپنا مطلب نکالاغرض جو بھی آیا کسی نے جاگیر میں اضافہ کیا کسی نے کارخانوں کی چین بناڈالی کوئی بیرون ملک فلیٹ خریدنے میں لگارہا کسی نے سرئے محل اپنے نام کرلیے 'کسی نے آف شور کمپنیاں بنا ڈالیں اور کوئی پانامہ لیکس کا شکار ہوگیاکوئی ملائیشیا میں ہوٹل بنا رہا ہے کسی نے دبئی میں ٹاور بنا لیے کوئی بنگلہ دیش میں فیکٹریاں بنا رہا ہے 'کسی نے بھارت میں کارخانے کھول لیے جو باقی رہ گئے انہوں نے سوئس بینکوں کو بھرنا شروع کر دیادعوے سب ملک و قوم کی خدمت کے کرتے ہیں لیکن وہ صرف اپنی ہی خدمت کرتے ہیںوہ ہم پر اقتدار کے لیے پیدا ہوئے ہیں ہم ان کی غلامی کے لیے (اور شاہد وولٹیئر نے ہماری جیسی قوم کے لیے ہی یہ کہا ہے کہ ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہے جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں )ہم انہی بے وقوفوں میں شامل ہیںاسی لیے ان کے جلسوں اور دھرنوں کی رونق بڑھانے کے لیے اور زندہ باداور مردوہ باد میں لگے ہوئے ہیںہر پانچ سال بعد ہم عہد کرتے ہیں کہ کرپٹ حکمرانوں سے اس بار نجات حاصل کریں گے لیکن پھر انہی کرپٹ حکمرانوں کا ساتھ بھی دیتے ہیں انہیں کامیاب کرکے اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور جب وہ ہم پر مسلط ہوتے ہیں پھر فریاد بھی کرنے لگتے ہیںدنیا چاند پھر پہنچ گئی اور اب مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں لوگ مریخ پر جانے کے لیے ابھی سے ''بکنگ '' کررہے ہیں جبکہ ہم آج بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور ہمارے حکمران ہمیں2018 تک ان اندھیروں سے نکالنے کی ''خوشخبری'' سنا رہے ہیں جس کو ہمارے حکمران خوشخبری قرار دے رہے ہیں اس پر ہمیں ماتم کرنا چاہیے تھا لیکن ہم پھر بھی خوش ہوررہے ہیں بغلیں بجا رہے ہیں اندھیروں سے نکلنے کی امید پر آس لگائے بیٹھے ہیں ۔کام کرنے والوں نے پوری دنیا کو ایک چھوٹی سی گھڑی میں بند کر دیا لیکن ہم آج بھی صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں 'بیمار ہوجائیں تو علاج کے لیے ترستے ہیں 'ہسپتال جاتے ہیں تو سہولیات کے لیے ترستے ہیں'ہم آج بھی کٹارہ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جہاں رہتے ہیں وہاں گندگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں 'شعور نام کی شے نہیں ہم میں ۔ حکمران تعلیم عام کرنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عملاََ وہ اس کے برعکس اقدامات اٹھاتے ہیں تاکہ لوگوں میں شعور بیدار نہ ہو کیونکہ اگر لوگوں میں شعور بیدار ہوا تو پھر ان کی چودھراہٹ کہاں رہے گی 'ان کے در پر حاضری کون دے گا 'وہ لوگوں کو حقیرسمجھ کر غرور و تکبر کس طرح کریں گے آج ہم جمہوریت کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے اعمال سارے بادشاہوں والے ہیں سارے رشتہ دار وزارتوں اور اہم حکومتی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیںانہی کے لیے سارے حکومتی وسائل مختص ہوتے ہیں ۔آج اس ملک کی یہ حالت ہے کہ حکمرانوں کی وجہ سے ہمارے سارے سیاستدان کرپٹ اور اس کا ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہے آج اس ملک میں نام نہاد مولوی لڑائیاںکررہے ہیں اور فرقے بنا رہے ہیں ۔جائل دین سکھا رہے ہیں غیر ملکی جاسوس مسجدوں پر قبصہ کر چکے ہیں اور ہم بڑی معصومیت سے انہیں اپنا رہبر سمجھ رہے ہیں ماڈلز اسمگلنگ کررہی ہیں اور اسمگلرعمرے کررہے ہیں فوج ملک چلا رہی ہے اور حکمران اور سیاستدان کاروبار چلا رہے ہیں اور عوام بے چارے حسرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں ہمارے اسلاف اپنے کردار کی تاریخ چھوڑ رہے تھے اور ہمارے حکمران سیاستدان اور رہنمائی کا دعوی کرنے والوں کے علاوہ نام نہاد مذہبی پیشوا خود تاریخ بنا رہے ہیںاور وہ جو تاریخ بنا رہے ہیں شاہد ہی آئندہ نسلیں انہیں خراج تحسین پیش کریں۔
     
    عمراعظم نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    زبردست تحریر ہے
     
  3. عمراعظم

    عمراعظم یونہی ایڈیٹر Staff Member

    واہ @سلطان حسین بھائی۔۔۔موجودہ صورت حال کی اس سے بہتر عکاسی ممکن نہیں ۔۔۔ آپ کی تمام باتوں سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہر باشعور پاکستانی ایسا ہی سوچ رہا ہے۔
    گویا آپ نے اُن باتوں کو زبان دی ہے جو میرے دل میں تھیں۔اللہ آپ کو خوش رکھے اور ہم پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے۔آمین
     
    علی مجتبیٰ نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عمراعظم

    عمراعظم یونہی ایڈیٹر Staff Member

    @سلطان حسین صاحب ، بہت عرصے بعد تشریف آوری ہوئی ہے۔ خیریت تو تھی؟
     
    علی مجتبیٰ نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. سلطان حسین

    سلطان حسین یونہی ہمسفر

    مجتنی بھائی اور عمر اعظم بھائی امید ہے آپ خریت سے ہوں گے ملک میں جو حالات چل رہے ہیں اور عالمی سطح پر اس ملک کے خلاف جو سازشیں ہورہی ہیں اس کے باوجود حکمران ہوش کے ناخن نہیں لے رہے ہیں ہر ایک صرف اقتدار کے حصول کے لیے ہی تک و دو کر رہا ہے ہر ایک اپنے ذاتی مفادات کے لیے خود کو عوام کا نجات دہندہ اور دوسروں کو اس ملک کا غدار ثابت کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے حالانکہ کوئی ایک بھی لیڈر (حالانکہ میں ان کو لیڈر مانتا ہی نہیں )ملک سے مخلص نہیں سب صرف اپنے جال بکھیر کر لوگوں کو پھنسانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ عام آدمی بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کررہا ہے یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے لکھنے لکھانے سے دل بھر گیا ۔جی چاہتا ہے نہیں کہ کچھ لکھا جائے فائدہ کیا ہے ؟؟؟؟اسی لیے ہر جگہ سے غیر حاضر ہوں جس میں آپ کی محفل بھی شامل ہے اب آپ ہی بتائیے کہ کیا ان حالات میں گوشہ نشینی ہی بہتر نہیں ؟؟؟؟اللہ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے
     
    عمراعظم اور علی مجتبیٰ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. عمراعظم

    عمراعظم یونہی ایڈیٹر Staff Member

    @سلطان حسین بھائی آپ بلکل صحیح فرما رہے ہیں۔ صورتِ حال ایسی ہی ہے کہ گوشہ نشینی اختیار کرنے کو جی چاہتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں حقیقی علم اور معاشرت سے دور رکھا جاتا رہا ہے۔حتیٰ کہ ہم نہ اپنے دین کی روح کو سمجھ پائے ہیں اور نہ اپنی تہذیب و تمدن کو۔ البتہ مایوسی کو کفر کا درجہ دیا گیا ہے۔ آپ جیسے لوگ ایسے ہی وقت میں حقائق کو آشکار کرنے کے فرض سے پہلو تہی نہیں کر سکتے۔اندھیرا چاہے جتنا بھی ہو ایک ٹمٹماتے دیے سے بھی شکست کھا جا تا ہے۔اکتاہٹ اور بیزاری آپ جیسےلوگوں کا خاصہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اللہ آپ کو کشادہ دلی اور سکونِ قلبی سے نوازے ۔آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں