1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

پیسے کمانے کا آسان طریقہ

'میرا انتخاب' میں موضوعات آغاز کردہ از تجمل حسین, ‏جون 23, 2018۔

  1. پیسہ کمانے کا آسان طریقہ

    تحریر: مولانا موسی خان


    بعض تاجروں کے واقعات بہت موٹیویشنل اور سبق آموز ہوتے ہیں۔
    ایک دوست نے فون کیا کہ آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔میں نے عصر کی نماز میں قریبی ایک مسجد آنے کا کہا۔نماز کے بعد اس نے اپنی معاشی تنگی کا ذکر کیا اور کہاکہ تنخواہ پر گذارہ نہیں ہوتا۔
    میں نے پوچھا کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟
    جواب دیا کہ پچیس ہزار۔
    گھر میں خاندان کے کتنے افراد ہیں؟
    جواب دیا کہ تین افراد ہیں۔
    مکان ذاتی ہے یا کرایہ کا؟
    جواب دیا کہ ذاتی ہے۔
    مجھے حیرت ہوئی کہ پھر تو پچیس ہزار میں آسانی سے گذر بسر ہوجانی چاہیئے۔
    پوچھا ۔۔۔۔کیا آپ کے گھر میں کوئی سیریس بیمار ہے جس پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں؟
    جواب دیا کہ نہیں الحمدللہ سب ٹھیک ہیں۔آگے خود ہی گویا ہوا کہ دراصل میں نے کئی جگہوں پر بیسیاں ڈالی ہوئی ہیں۔جس میں مجھے تنخواہ کا زیادہ تر حصہ دینا پڑتا ہے۔آپ کوئی طریقہ بتائیں تاکہ میری آمدن بڑھ سکے۔
    میں نے پوچھا کہ ڈیوٹی ٹائمنگ کیا ہے آپ کی؟
    جواب دیا کہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک۔
    دوسرے دن پر میٹنگ رکھی اسے بتایا کہ دیکھو میں آپ کو پیسے کمانے کا طریقہ اگر سمجھا بھی دوں لیکن اللہ تعالٰی نے آپ کو پیسے نہ دینے ہوں تو میرا طریقہ بتانا فضول ہے۔
    پوچھا کیا مطلب؟
    میں نے کہا کہ ۔۔۔میرے بھائی۔۔۔ اللہ تعالٰی تاجر کے پاس کبھی تو کسٹمرز ہی نہیں بھیجتے۔کبھی کسٹمرز بھیج کر اور پیسے دے کر بھی اگر برکت اٹھا لیں تو بھی محنت کا اصلی پھل نہیں ملتا۔آپ مجھ سے وعدہ کریں چند باتوں کا۔تو میں گارنٹی دے سکتا ہوں کہ آپ کی کمائی بھی بڑھے گی اور اس میں برکت بھی ہوگی۔

    نمبر ایک۔۔۔۔کبھی جھوٹ نہ بولیں ۔۔۔بھلے نقصان واضح نظر آرہا ہو۔
    نمبر دو۔۔۔نماز کو وقت پر باجماعت پڑھیں بھلے کسٹمرز خوب زیادہ کھڑے ہوں۔
    نمبر تین۔۔۔۔لڑائی جھگڑا اور بحث و مباحثہ نہ کریں بھلے آپ کا مد مقابل غلطی پر ہو۔
    بلکہ اسے سمجھائیں ۔۔۔اگر نہ سمجھے تو یوں ہی چھوڑ دیں۔
    نمبر چار۔۔۔۔صدقہ اور خیرات کا اہتمام کریں جبکہ زکوٰۃ کو تو فرض سمجھیں۔ بھلے کم ہی ہو۔۔

    کہنے لگا کہ حضرت میں تو آپ سے کمائی کا طریقہ پوچھنے آیا تھا جبکہ آپ نے تو اصلاحی بیان سنا دیا۔
    میں نے کہا کہ میرے بھائی یہ باتیں کاروباری اصول ہیں۔اگر ان پر عمل کرسکتے ہو تو کاروبار آپ کیلئے ٹھیک ہے۔ اگر ان پر عمل نہیں کرسکتے۔۔تو میں نے آپ کو طریقہ نہیں بتانا۔۔۔۔۔تو ابھی سے بتادو کہ وعدہ کرتے ہو ان باتوں کا؟
    تھوڑی بہت قیل و قال کے بعد آخر کار وہ ان وعدوں کی پاسداری پر راضی ہوگیا۔ لیکن مجھے اس سے ان وعدوں کے ایفاء کی امید نہ تھی۔
    میں نے اسے کہا کہ آپ کو چھولے بنانے آتے ہیں؟
    کہنے لگا کہ۔۔۔۔۔ ہاں۔چھولے بنانا کونسا مشکل کام ہے۔گھر والی تو بہت بہترین چھولے بناتی ہے۔
    کہا کہ چلو میرے ساتھ۔۔
    تھوڑے سےچھولے بازار سے خرید کر اسے دئیے اور ساتھ میں مصالحہ جات بھی۔
    اس سے کہا کہ اللہ کا نام لیکر ان چھولوں کو بناؤ اور گھر والوں سے کہو کہ کل میں جیسے ہی گھر پہنچوں تو یہ چھولے بالکل تیار ہونے چاہئیں۔
    کیوں کہ کل شام کو میں انہیں بازار میں فروخت کرونگا۔

    کل کا دن گذرا۔ شام تک اس دوست سے گفتگو نہ رابطہ ہوسکا۔اچانک رات نو بجے خیال آیا کہ اس دوست کے پاس جاکر چھولوں کی خبر لوں۔فون کیا تو پتہ چلا گھر کے پاس گلی کی نکڑ میں کھڑا چھولے بیچ رہا ہے۔میں اس کے پاس پہنچا تو پریشان کھڑا تھا۔
    پوچھا کیا ہوا؟۔۔ پریشان کیوں ہو؟
    جواب دیا چھولے کافی سارے بچ گئے ہیں۔
    حالانکہ میں عصر کی نماز کے فورا بعد آگیا تھا۔
    اورابھی ساڑھے نو بج رہے ہیں۔

    میں بھی غمگین ہوا اور اس سے کہا کہ لاؤ وہ سارے پیسے جو آج تمہاری سیل ہوئی ہے۔اس نے سیل والے سارے پیسے الگ رکھے تھے۔گننا شروع کیا تو چھولوں اور دیگر سامان کی رقم بھی پوری ہوگئی اور چھ سو روپے بچت بھی ہوگئی تھی۔اسے بھی حیرت ھوئی کہ میں تو اتنی رقم سے بے خبر تھا۔
    میں نے اس سے سوال کیا کہ نمازوں کو وقت پر پڑھنے کا اہتمام کیا تھا؟
    کہنے لگا کہ ۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔آپ نے پکا وعدہ جو لیا تھا نمازوں کا۔
    میں نے جھوٹ بولنے سے بھی تو منع کیا تھا۔
    کہنے لگا کہ ہاں ۔۔۔۔لیکن بہت تکلیف ہورہی تھی کیوں کہ جھوٹ کی عادت ہے۔
    میں نے کہا ۔۔۔۔کچھ دن سچ کی پریکٹس کرو بعد میں سچ بول کر سکون ملے گا اور جھوٹ سے تکلیف ہوگی۔
    کہنے لگا کہ اب ان چھولوں کا کیا کروں۔
    میں نے کہا کرنا کیا ہے۔جو بک گئے وہ تو بک گئے۔باقی کا ایسا کرو کہ کچھ خود کھا لو ۔۔۔گھر والوں کو کھلاؤ۔۔۔اور کچھ صدقہ کردو۔
    کہنے لگا واہ مولانا صاحب۔۔۔
    میں تو بلا وجہ پریشان تھا حالانکہ آج تو بِکری بھی خوب ہوئی بچت بھی خوب اور صدقہ بھی ہوگیا۔۔

    دن گذرتے گئے۔کچھ دنوں تک مصروفیت کی وجہ سے اس کے پاس نہ جاسکا۔ایک دن اچانک خیال آیا کہ اس دوست کا پتہ کروں کیا حال ہے۔اس کے ٹھکانہ پر پہنچا تو وہ نظر نہ آئے۔حیران ہوا کہ یااللہ کہاں چلا گیا یہ بندہ۔ یہ تو کمائی کا وقت ہے۔

    قریب سے آواز آئی۔۔۔۔مولانا صاحب۔
    دیکھا تو ایک بہترین ریڑی کھڑی ہے۔۔۔جس میں بڑے سلیقے سے چھولے اور دیگر سامان کھٹائی اور مصالحہ جات وغیرہ الگ الگ خوبصورت برتنوں میں رکھے ہوئے ہیں۔بڑی حیرت ہوئی کہ یہ بندہ تو پروفیشنل چھولے والا بن گیا ہے۔
    مولانا صاحب آپ ہی کا انتظار تھا۔مجھے یقین تھا کہ آج آپ نے آنا ہے۔
    میں نے کہا کہ آپ کو کیسے یقین ہوگیا تھا؟
    کہنے لگا کہ دراصل انسان کو نیکی کرنے کا اتنا مزا نہیں آتا جتنا اس کا پھل دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔مجھے یقین تھا کہ آج آپ اپنے بوئے بیج کا پھل دیکھنے آئیں گے۔اب آپ یہ مارکر لیں اور اپنے ہاتھ سے اس پر ''ماشاءاللہ چھولے چاٹ ''لکھ لیں ۔۔سنا ہے آپ کا خط بہت خوبصورت ہے۔
    میں نے مارکر لیا اور ریڑھی ہی پر لٹکے ہوئے پینا فلیکس پر ڈبل لکھائی سے نام لکھ کر دیا۔کافی لوگ جمع ہوگئے تھے۔ جو لکھائی دیکھنے آگئے تھے۔

    ریڑھی کا واقعہ اس نے سنایا کہ مجھے اس کی شروع دن سے تلاش تھی لیکن میں چاہتا تھا کہ اسی بچت سے ریڑھی خریدوں۔دو دن قبل ہی ریڑھی خریدی ہے۔ماشاءاللہ خوب سیل ہورہی ہے۔
    لیکن قیمت کیا رکھی ہے آپ نے۔ اس نے کہا کہ خود ہی دیکھ لیں۔
    اتنے میں میں نے نوٹ کیا کہ جو جو لوگ آرہے ہیں ان سے چھولوں کا پندرہ اور دس روپے لیتا ہے۔
    پوچھا کہ اتنے سستے کیوں؟
    کہنے لگا مولانا صاحب یہ غریب لوگ ہیں۔پہلے دس روپے اور پندرہ روپے والے جو گاہک بھی آتے تھے تو میں انہیں واپس کردیتا تھا۔بعد میں نوٹ کیا کہ ایسے لوگ ہی زیادہ آتے ہیں جو دس اور پندرہ روپے کے چھولے خریدنا چاہتے ہیں۔
    چھولے والا کہتا ہے کہ۔میں نے چھولوں حساب لگایا۔۔۔۔۔کہ دس روپے میں چھولے دے کر بھی مجھے بچت ہوہی جاتی ہے۔ویسے بھی تو آخر میں چھولے بچ ہی جاتے ہیں۔ سوچا صدقہ بھی ہوجائے گا اور ان کو چھولے بھی سستے مل جائیں گے۔یہ لوگ چھولے دس روپے کے لیجاکر گھر میں روٹی کے ساتھ کھا لیتے ہیں۔
    کچھ دن بعد وہ ساتھی فون کرتا ہے کہ مولانا صاحب واقعی آپ کے اصول کارگر ہوئے۔
    پوچھا کیسے؟
    کہنے لگا کہ میں جس دکان کے سامنے ریڑھی کھڑی کرتا تھا وہ ایک بیکری والا تھا۔اس نے میری عادات کو نوٹ کیا اور کچھ دن بعد مجھے آفر کی کہ آؤ میں تمہیں بیکری کسی پوش علاقے میں کھول کردوں۔میں کافی عرصہ سے ان خصوصیات کے حامل شخص کی تلاش میں تھا۔ جو آپ میں ہیں۔چھولے واے نے کہا کہ۔پہلے تو میں نے اس آفر کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ لیکن اس بیکری والے کی مالی صحت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اسے مجھ سے دلچسپی نہیں بلکہ اسے واقعی انہیں اوصاف کی تلاش ہے اپنی تجارت کیلئے۔
    ایسا آدمی مجھے فائدہ ہی دے گا۔کیوں کہ یہ خود بھی انہیں اوصاف کا حامل ہے۔۔میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور حامی بھر لی۔
    آج مجھے میری نمازوں اور سچ کا بدلہ اس دنیا میں ہی ملا ہے۔

    لیکن مجھے اس سے زیادہ آخرت میں اس صلے کی ضرورت ہے۔

    آج وہ چھولے والا ساتھی گلی کی نکڑ میں تو نہیں ہوتا لیکن اس کی یادیں وہیں پر ہیں۔جب بھی وہاں سے گذرتا ہوں تو اس کی ایمانداری مجھے آواز دے رہی ہوتی ہے کہ مولانا صاحب۔۔مجھ سے ملتے رہا کریں۔
    اس چھولے والے نے اس کے بعد اپنی جاب چھوڑ دی۔اپنی تجارت شروع کرلی ہے۔آج وہ اپنی طرح کئی لوگوں کو جاب دے رہا ہے۔ اور ایک کامیاب تاجر کی زندگی گذاررہا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں