1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

پچاس ٹاسک، پچاس دن۔۔۔ بلیو وھیل گیم کا موت کا چکر

'میری تحریریں' میں موضوعات آغاز کردہ از ابن نیاز, ‏ستمبر 21, 2017۔

  1. ابن نیاز

    ابن نیاز یونہی ہمسفر

    پچاس ٹاسک، پچاس دن۔۔۔ بلیو وھیل گیم کا موت کا چکر
    (ابن نیاز)
    گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان میں بلیو وھیل گیم کا چکر پڑھنے، سننے میں آرہا ہے۔جس کو کلر گیم یعنی قاتل گیم بھی کہا جاتا ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک میں اس وقت تک کی خبروں کے مطابق 2013 سے اب تک ایک سو چالیس سے زیادہ لوگ اس گیم کا شکار ہو چکے ہیں۔ گیم سے مراد ویڈیو گیم کی طرز کی یہ گیم ہی ہے۔ اب تک کی جو صورت حال سامنے آئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس گیم کے پیچھے کوئی راز ہے۔ اس کو کھیلنے کے طور طریقوں سے اور اختتام سے اس کو ایک کھیل تو قطعاً نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ کھیل یعنی گیم تو بنیادی طور پر انٹرٹینمنٹ یعنی تفریح طبع کے لیے ہوتی ہے یا وقت گزاری کے لیے کوئی گیم کھیلی جاتی ہے۔ لیکن اس بلیو وھیل گیم کو گیم کہنا کسی بھی کھیل کی توہین ہے۔ چونکہ موبائل کو دور دورہ ہے اور موبائل بھی ٹچ سسٹم کے تحت کام کرنے والے ہیں۔ اورجس قسم کا سافٹ ویئر ان موبائلز میں استعمال ہوتا ہے اس کے لیے دنیا کے بہت سے سافٹ ویئر انجنیئرز دن رات محنت کرکے ان موبائلز کے لیے سافٹ ویئرز بناتے رہتے ہیں۔

    جب سے اس بلیو وھیل قاتل گیم کا چکر شروع ہوا ہے تب سے کافی لوگوں نے کوشش کی ہے کہ اس کو گوگل پلے سٹور سے تلاش کرکے ڈاﺅن لوڈ کیا جائے۔ لیکن اب تک کی جو سب سے اچھی بات ہے وہ یہ کہ یہ گوگل پلے سٹور پر دستیاب نہیں ہے۔ ورنہ یہ جو ایک سو چالیس کی تعداد جتنے عرصے میں حساب کی گئی ہے ، اتنے عرصے میں شاید یہ سو سے ضرب ہوئی ہوتی۔ پلے سٹور پر نہ بھی ہونے کی وجہ سے وٹس ایپ گروپس میں سے کوئی نہ کوئی لنک مل جاتا ہے یا کسی ویب سائیٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ لکھنے کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ آپ یا آپ کے گھر میں سے کوئی اس کو کھیلنے کو ضرور کوشش کرے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ گیم خاص طور پر ٹین ایجرز میں مقبول ہو رہی ہے اور تیرہ سے سولہ سال کے بچے اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ در اصل یہ گیم بچوں کی خاص طور پر اور بڑوں کی عام طور پر نفسیات کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے۔

    اس قاتل گیم کا بانی تیئس سالہ فلپ بڈیکین جس کا تعلق روس سے ہے، اب گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس نے 2013 میں یہ گیم بنائی تھی۔ جس کا مقصد لوگوں کی ہمت اور حوصلہ کو آزماناتھا۔ اس میں پچاس مختلف قسم کے مراحل میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ مراحل آسان تر سے ہوتے ہوئے مشکل ترین تک پہنچتے ہیں۔ یہ مراحل سکرین پر ہی دوسری گیمز کی طرح کے نہیں ہوتے کہ ایک مرحلہ مکمل ہوا تو دوسرے سٹیج یا مرحلے میں داخل ہو گئے۔ نہیں بلکہ اس میں آپ کو حقیقتاً اپنی زندگی کے ساتھ کھیلنا ہوتا ہے۔ اپنے دل و دماغ کو اور پورے جسم کو اس گیم میں شامل کرنا ہوتا ہے۔ جن چند مرحلوں کو ابھی تک دنیا جان چکی ہے ان میں سے آدھی رات کو اٹھ کر کوئی ہارر یعنی خطرناک ، خوفناک ڈراﺅنی فلم تنہائی میں دیکھنا اور اس کا ثبوت تصویری صورت میں بلیو وھیل گیم کو مہیا کرنا۔ کسی بھی بلند عمارت کے کسی کونے پر یا کسی بلند دیوار پر گلی یا سڑک کی سمت ٹانگیں لٹکا کر بیٹھنا، اپنے جسم کے مختلف حصوں پر بلیڈ سے زخم لگانا یا سوئیاں چبھونا۔ ہر مرحلے سے گزرنے کے بعد کھیلنے والے کو اپنے بازوں پر ایک زخم مخصوص انداز میں لگانا ہوتا ہے۔ جب کوئی پچاس ٹاسک (اگر پچاسواں مکمل کرکے بچ جائے تو) مکمل کر لیتا ہے تو اس کے بازوں پر ان سارے زخموںکے نشانات کو ملا کر ایک عدد وھیل کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔

    مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بلیو وھیل گیم آپ سے مختلف قسم کے سوالات بھی پوچھتی ہے جو کہ آپ کی ذاتی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں۔ کچھ سوالات اور انکے جوابات ایسے ہوتے ہیںجو شاید آپ کی زندگی کا راز ہوتے ہیں یعنی جو آپ نے اپنی ذات کے علاوہ کسی کے ساتھ بھی شیئر نہیں کیے ہوتے۔روانی میں یا نفسیات طور پر یہ گیم کھیلتے ہوئے آپ اس دماغی کیفیت پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہ راز اس پر عیاں کر دیتے ہیں۔ بلیو وھیل گیم کھیلنے کے دوران آپ کو ان باکس میں میسجز آتے رہتے ہیں کہ اب یہ ٹاسک انجام دینا ہے اور اب یہ۔ ان ٹاسک میں سے کوئی بھی کام کا نہیں ہوتا، سب کے سب گھٹیا اور اوٹ پٹانگ قسم کے ٹاسک ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ آپ کو ہر ٹاسک مکمل کرتے ہوئے ایڈمن کو اس کا ثبوت تصویری صورت میں دینا ہوتا ہے۔ جس کے بعد آپ کو اگلا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ ہر ٹاسک آپ کو چوبیس گھنٹوں میں مکمل کرنا ہوتا ہے۔یعنی پچاس ٹاسک، پچاس دن۔

    پچاس دن جب کوئی مسلسل یہ گیم کھیلتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ نفسیاتی اور ذہنی طور پر اس گیم میں مکمل طور پر محصور ہو جاتا ہے۔ ایک مرحلہ جب وہ باآسانی گزار لیتا ہے تو اس کو یہ حوصلہ ہو جاتا ہے کہ وہ اگلا مرحلہ بھی عبور کر لے گا۔ یوں وہ اپنے روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہو جاتا ہے۔ٹاسک بتدریج مشکل ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ پچاسواں ٹاسک گیم کھیلنے والے کو خودکشی کا دیاجاتا ہے ۔ اسے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ہمت اور حوصلہ رکھتا ہے تو کسی بھی اونچی بلڈنگ سے چھلانگ لگائے یا اس وقت سڑک عبور کرے جب گاڑیوں کا بہت زیادہ رش ہو اور دوڑ کر عبور کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ جب پانچ دس منزل سے بنا دیکھے نیچے کودے گا تو اس کے بچنے کے مواقع کتنے فیصد ہوں گے۔جب وہ سڑک اس طرح عبور کرے گا تو کیا بچ پائے گا۔ کوئی نہ کوئی گاڑی اس کو ضرور زور سے ٹکر مارے گی جس کی بنا پر یا تو وہ زور سے اڑتا ہوا کہیں دور جا گرے گا یا وہیں گر کر دیگر گاڑیوں کے نیچے کچلا جائے گا۔ اس کے بچنے کے چانسز کتنے فیصد ہوں گے۔ شاید صفر فیصد۔ درحقیقت یہ خودکشی کا مرحلہ پچاسواں اس کو اسی وقت دیا جاتا ہے جب وہ اپنے سارے راز بلیو وھیل کے ایڈمن کے حوالے کر چکا ہوتا ہے۔ ان رازوں کو بدولت ایڈمن اس کو بلیک میل کرتا ہے کہ اگر اس نے یہ پچاسواں ٹاسک انجام نہ دیا تو اس کے راز کہیں بھی کسی بھی سوشل فورم پر اس کے نام و پتہ اور تصاویر کے ساتھ عام کر دیے جائیں گے۔ جس کے بعد کھیلنے والے کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا سوائے اس کے کہ وہ خودکشی کر لے۔

    اب تک کے ایک جائزے کے مطابق جو بچے یا نوجوان اس گیم کو کھیلتے ہیں وہ اکثر یہ گیم تنہائی میں بیٹھ کر کھیلتے ہیں۔ کیونکہ تقریبا ً سب ٹاسک ہی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اگر کسی کے سامنے بھی مکمل کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کو ہر گز مکمل کرنے کی کوشش نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس لیے اپنے بچوں پر خاص طور پر اس وقت نظر رکھیں جب وہ تنہا ئی میں کچھ اس قسم کے کام کررہا ہو جس میں کام انجام دینے سے پہلے وہ دس دفعہ ادھر ادھر دیکھتا ہو کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ سب سے پہلے تو یہی اچھی بات ہو گی کہ جب تک آپ کی اولاد کم از کم شناختی کارڈ بنانے کی عمر تک نہیں پہنچ جاتی تب تک موبائل کو ہی اس کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔ اگر اس کو کسی وجہ سے موبائل استعمال کرنا ضروری بھی ہو تو اپنا موبائل دیا جائے اور اس کو اپنے سامنے استعمال کرنے دیا جائے۔ ظاہر ہے سوائے کلاس فیلوز سے یا دوستوں سے بات چیت کرنے کے اور کیا کام ہو سکتا ہے، تو یہ باتیں کیا والدین کے سامنے بچے نہیں کر سکتے۔ اس کو لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر بھی استعمال کرنے کی اجازت ضرور دی جائے لیکن اس پر نظر رکھی جائے کہ وہ ان کو کس مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔بچوں کی ایکٹیویٹیز پر نظر رکھنا گناہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کی تربیت کا حصہ ہے۔ ہمارا دین ہمیں بچوں کی بہترین تربیت کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ اسی وقت ہی ممکن ہے جب ان کی جائز باتوں کو ایک حد کے اندر مانا جائے اور ناجائز باتوں کو انہیں ان کی نقصانات بتا کر ان سے انکار کیا جائے۔ بچوں پر نظر رکھیں اور خود بھی اس قسم کے غلط کھیلوں سے دور رہیں جس میں نہ دنیا کا فائدہ ہے نہ دین کا۔سراسر نقصان ہے۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    زبردست تحریر ہے
    آپ نے اس تحریر میں بلو ویل کہ متعلق کافی معلومات فراہم کی
    واقعی یہ گیم بہت ہی خطرناک ہے
    اس ماہ پشاور میں ایک بچی اس گیم کا شکار بنی تھی۔
     
    ابن نیاز اور زبیر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. Pakistani

    Pakistani یونہی ہمسفر

    زبردست تحریر ہے
     
    ابن نیاز اور زبیر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. محمد یاسرکمال

    محمد یاسرکمال یونہی ہمسفر

    پشاور کے ایک ہاسپیٹل میں اس گیم کو کھیلنے والے کچھ نوجوان موجود ہیں جو خودکشی کی طرف بڑھ رہے تھے،اور خوش قسمتی سے ان کو بچا لیا گیا۔اب پتا نہیں کہ یہ لوگ کس سٹیج پر تھے لیکن بہر حال ایک بات کنفرم ہو جاتی ہے کہ ایسے نوجوانوں کو خودکشی سے بچایا جا سکتا ہے۔ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کر کے۔
    ہومیو پیتھی میں بھی ایسی ادویات موجود ہیں جو خود کشی کے خیالات کو ذہن میں آنے سے روک دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور کافی موثر ہیں۔
     
    ابن نیاز، Pakistani اور زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ابن نیاز

    ابن نیاز یونہی ہمسفر

    آج کے روزنامہ امت میں بھی دو طالبات کے حوالے سے خبر تھی کہ ان کے بازوؤں پر مختلف زخموں کے نشانات پائے گئے. ایک اٹھارویں اور دوسری بائیویں سٹیج پر پہنچ چکی تھی. ان کو کالج سے نکال دیا گیا ہے..
    والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دیکھیں کہ بچوں کی روزمرہ روٹین میں کوئی اچانک سے تبدیلی تو واقع نہیں ہوئی..
     
    علی مجتبیٰ نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    اس خبر کو یونہی فورم پر شیئر کرنے کا شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں