1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

پروفیسر جعفر سلیم مرحوم سابقہ پرنسپل گورنمنٹ کامرس کالج وہاڑی

'دیگر' میں موضوعات آغاز کردہ از nwaaz92, ‏فروری 12, 2017۔

  1. nwaaz92

    nwaaz92 یونہی ہمسفر

    استادِ ذی حشم پروفیسر محمدجعفر سلیم(مرحوم)

    -----شاعر,ادیب,معلّم,صوفی,درویش ,دانشور-----

    تحریر و انتخاب کلام : محمّد نواز اَحمد

    "اِخلاص" اگر درجۂ کمال تک عمل میں ہو یا خیالات میں ہو, افکار میں ہو یا کردار میں ہو غرضکہ جس رنگ میں بھی آپ کی شخصیت کا حصہ ہو تو خواہ آپ کسی بھی پیشے سے منسلک ہوں آپ کی ہستی بنی نوع انسان کے لیے مقناطیست و جاذبیت کا عنصر لیے ہوئے ہو گی"

    یہ غالباً 1999ء کی بات ہے. میرے بہت ہی پیارے دوست اور خوبصورت تخیل کے حامل شاعر راجہ خالد نواز جنجوعہ نے ایک دن مجھ سے وہاڑی کے ایک شاعر جعفر سلیم صاحب کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ میں نے انہیں بذریعہ خط کچھ اشعار اصلاح کے لیے بھیجے تھے اور درخواست تلمذ بھی ارسال کی تھی. انہوں نے نہ صرف اجازت مرحمت فرمائی ہے بلکہ نہایت حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے دعوت ملاقات بھی دی ہے لہذا ہم دونوں نے اتوار کو وہاڑی جانا ہے. فدوی تو ہمہ یاراں دوزخ ,ہمہ یاراں جنت کی عملی تصویر ہے لہذا چل پڑے ......

    ایسی پُر خلوص ,با اخلاق , ملنسار ,حلیم الطبع شخصیت کہ پہلی ملاقات میں ہی اپنا گرویدہ کرلیا....پھر محبت کی ایسی تار جڑی کہ جب تک استادِ محترم حیات رہے ، ہم دونوں بھی ان سے وابستہ داماں رہے , ان کی محبت کے اسیر بلکہ نخچیر ہی رہے اور ہر گزرتے دن اس مہر و مودت میں اضافہ ھی ہوتا گیا......

    مہمان نواز اسقدر تھے کہ اپنی تنخواہ کا غالب حصہ اسی کارِ خیر میں صَرف کر دیتے تھے...مصائب کے کوہِ گراں کا مقابلہ جس خندہ پیشانی سے کرتے رہے وہ قابل توصیف ہے.... ہم نے انہیں اخلاق و کردار کی عملی تصویر پایا....

    ملک عدم کے مقیم پروفیسر جعفر سلیم مرحوم بظاہر ہم میں نہیں ہیں مگر ان کی جدائی کا قلق ذرہ برابر بھی نہیں کیونکہ وہ بظاہر جدا ہو کے بھی دلوں میں زندہ ہیں , کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ ہم سے دور ہیں....
    جب ہماری ملاقات ہوئی اس وقت جعفر صاحب کا ایک مجموعہ کلام "سارے منظر خرید لانا" شائع ہو چکا تھا. اور تقریباً مزید دو کتب کا مواد ان کے پاس ہونے کے باوجود ان کی عدم دلچسپی کا شکار رہا کیونکہ وہ راہِ سلوک و عرفاں کے مسافر ہو چکے تھے اگرچہ یہ بات شاعری کے میدان میں مانع نہیں مگر مغفور درویشانہ زندگی بسر کر رہے تھے, مصروفیات بھی بڑھ گئی تھیں , وہ اپنے پیر و مرشد "خواجہ نوید حسین کرامت" موجودہ گدی نشیں دربارِ عالیہ "دربار اللہ ھو" گجرانوالا سے منسلک تھے ان کے شب و روز دین کی خدمت میں گزرنے لگے.
    ان کی وفات سے چند روز قبل ان کی نثری کتاب بسلسلۂ تصوف " نویدِ کرامت مُنیر" کی اشاعت پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی جس کا ٹائیٹل (سرِ ورق) ڈیزائن کرنے کی سعادت الحمد لِلہ مجھے حاصل ہوئی .......

    ✴ان کے کلام کے کچھ نمونے صاحبانِ ذوق کی نذر✴

    ▶حمد◀
    میں نے آفاق سے پیچھے جسے دیکھا تُو تھا
    میں نے افلاک سے آگے جسے پایا ,تُو تھا
    کیسے جھک جاتا مِرا سر کسی انساں کے حضور
    مِرا مالک,مِرا خالق,مِرا داتا تُو ہے
    کیوں مجھے لوگ نہ آنکھوں میں بسائے رکھتے
    میری عزت,مِری دولت ,مِرا چرچا تُو تھا
    میری گفتار کو ملتی نہ پذیرائی کیوں کر
    میرے الفاظ کی شوکت,مِرا لہجہ تُو تھا
    سب سے آخر میں جو'جو ہو گا' وہ تنہا تُو ہے
    سب سے پہلے بھی تو موجود 'اکیلا' تُو تھا
    ہر قدم پر میری رفتار بڑھا دی تُو نے
    ہر کڑی دھوپ میں سر پر مرے سایہ تُو تھا
    ***********************************************
    ▶نعت◀

    فلک پر جھومتی پھرتی گھٹائیں نعت کہتی ہیں
    گُلوں سے کھیلتی ٹھنڈی ہوئیں نعت کہتی ہیں
    فلک سے چاند تارے دیکھتے ہیں گنبدِ خضرٰی
    وہاں جب کہکشائیں گنگنائیں نعت کہتی ہیں
    زمیں کے سارے منظر مصطفیٰ کو یاد کرتے ہیں
    زمیں پر سبزہ و گُل کی ردائیں نعت کہتی ہیں
    چمن میں پھول بکھراتے ہیں خوشبوئیں درُودوں کی
    حسیں غنچے چٹکنے کی ادائیں نعت کہتی ہیں
    سمندر ہر گھڑی صلّ علیٰ کا وِرد کرتا ہے
    جہاں موجوں سے اُٹھتی سب صدائیں نعت کہتی ہیں
    خدائے مصطفیٰ کی حمد کرتی ہیں سبھی حوریں
    مگر آپس میں جب بھی مسکرائیں نعت کہتی ہیں
    کبوتر گنبدِ خضریٰ اُن کا نام جپتے ہیں
    بہر سُو اُڑتی پھرتی فاختائیں نعت کہتی ہیں
    ************************************************
    ▶غزلیں◀
    میں جس سفر پر رواں دواں ہوں کَڑا سفر ہے
    کہ اپنے دل سے کسی کے دل تک بڑا سفر ہے
    یہ کیسے کہہ دوں کہ ساتھ میرے نہیں ہے کوئی
    میں دیکھتا ہوں جدھر بھی آگے کھڑا سفر ہے
    وہی ہے منزل, وہی ہیں رستے, جہاں لُٹے تھے
    وہی ہے منظر,اسی طرف پھر پڑا سفر ہے
    میں کیسے دل سے خیال دشتِ وفا نکالوں
    کہ میرے دل کی انگشتری میں جَڑا سفر ہے
    سلیم عشق و وفا کے رستے بڑے کٹھن ہیں
    چناب لہروں میں ایک کچا گھڑا سفر ہے

    ************************************************
    صرف دامن ہی نہیں پیار کی خیرات بھی دے
    جسم بخشا ہے جو مجھ کو تو مِری ذات بھی دے
    عشق پختہ ہے مِرا یہ تو یقیں ہے مجھ کو
    اس میں در پیش جو آتے ہیں وہ خطرات بھی دے
    تم سے جو کچھ بھی ملے میرا اثاثہ ہے وہی
    تو مِری جان مجھے ہجر کے صدمات بھی دے
    مجھ کو بھیگے ہوئے منظر ہی بھلے لگتے ہیں
    مجھ کو آنکھیں جو عطا کی ہیں تو برسات بھی دے
    میری آنکھوں کو بڑے شوق سے کر اشک عطا
    میرے ہونٹوں کو مگر پیار کے نغمات بھی دے
    ************************************************

    *اپنی شریک حیات کے وفات پر انہوں نے پُر سوز نظم کہی تھی جو ان کے جذبات احساسات کی عکاسی کرتی ہے...
    ▶نظم◀

    کل رات کے ساڑھے آٹھ بجے
    اک ساتھی ہم سے روٹھ گیا
    وہ چاند تھا میرے آنگن کا
    جو تارا بن کر ٹوٹ گیا
    یہ آنکھیں بھی پتھرا سی گئیں
    کچھ دل کی دھڑکن تیز ہوئی
    میں سوچ رہا ہوں
    کیا ہے یہ؟
    کیوں جگ میں ایسا ہوتا ہے؟
    کیوں لوگ جدا ہو جاتے ہیں؟
    کیوں لوگ فنا ہو جاتے ہیں؟
    کیوں آنکھیں پتھر ہوتی ہیں؟

    ************************************************
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں