1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

لادینیت کا فروغ اور ہماری ذمہ داریاں۔ (عبدالباسط ذوالفقار)

'اردو کالم' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالباسطذوالفقار, ‏اکتوبر 4, 2017۔

  1. عبدالباسطذوالفقار

    عبدالباسطذوالفقار یونہی ہمسفر

    "لادینیت کا فروغ اور ہماری زمہ داریاں"

    (عبدالباسط ذوالفقار)

    ''حرمت رسول پر جان بھی قربان ہے. گستاخ رسول کو پھانسی دو...''
    یہ ایسے نعرے ہیں جو ہم اور آپ سنتے آرہے ہیں۔ مگر کسی کو پھانسی تو نہ ملی۔ البتہ توہین رسالت ایکٹ و ختم نبوت آرڈیننس کے خلاف محاذ آرائیاں ضرور شروع ہوگئی۔ اور اعلانات ہونے لگے کہ ہم کسی کو بھی مذہب کی آڑ میں توہین رسالت قانون کا غلط استعمال کرنے نہیں دینگے۔ ساتھ ہی مختلف لابیاں اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئیں۔

    مسلمانانِ عالم کا اپنے پیغمبر کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ محض ایک قابلِ قدر شخصیت، بڑے انسان، پیشوا و امام کے ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، ایسا جزباتی لگاؤ، تعلق و ربط ہے کہ ماں باپ سے بھی زیادہ عزیزِ جاں رکھتے ہیں۔ آپکی ناموس پہ مر مٹنا قابل فخر سمجھتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں جتنا زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں اتنا ہی دشمنان اسلام کے حملوں میں اضافہ ہوا۔ مختلف حیلوں بہانوں، طور طریقوں سے ناموسِ رسالت و شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

    یہ سلسلہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ عہد رسالت میں ایسے لوگ موجود تھے جو آپ پر کیچڑ اچھالتے، پیٹھ پیچھے برائیاں کرتے تو سامنے طعنہ زنی کرتے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت، صداقت، امانت، دیانت پر دنیا کا ذرہ ذرہ گواہ ہے۔ آپکی بات کو رد کرنے کا کوئی راستہ ان پست ذہن لوگوں کے پاس نہیں تھا، نہ کوئی دلیل تھی۔ سو یہ اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آئے۔ جب انسان دلیل کے میدان میں مات کھا جائے تو ہٹ دھرم بن جاتا ہے۔ "کھسیانی بلی کھمبا نوچے" کہنے کو کوئی بات نہیں ملتی تو سب و شتم پہ اتر آتے ہیں۔

    آج بھی جدیدیت کا پرچار کرنے والے، جدید تہذیب و ثقافت کے علمبردار، اور ڈھنڈورا پیٹنے والے جو خود کو انسانوں کے حقوق کا علمبردار کہتے ہیں۔ آج جب چار سو عالم اسلام کا طوطی بول رہا ہے اور حقانیت اسلام دنیا کے کونے کونے میں اپنا لوہا منوا رہی ہے اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا۔ لوگ جوک در جوک اسلام کی آغوش میں آرہے ہیں۔ تو ان لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں بچتا آخر وہ چاند پر تھوکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انکا وطیرہ ہے۔

    شریعتِ محمدی چونکہ لادینی نظام کی دشمن ہے۔ "الاللہ دین الخالص" یہودی لابی یہ چاہتی ہے کہ مسلمان نظام مصطفیٰ کو نہ اپنائیں بلکہ انگریز آقا کی فرمانبرداری میں نے جت جائیں۔ اسکی لادینیت کے تابع رہیں۔ زن، زر، زمین کے لالچ میں بہت سے سادہ لوح مسلمان ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ معاذ اللہ آئے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہیں۔ کارٹون بنائے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کارٹونسٹ کارٹونوں کا مقابلہ کرواتے ہیں۔ توہینِ رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر شکست خوردگی کا اعتراف کرتے ہیں۔

    مسلمانوں میں لادینیت کو پھیلانے کیلئے، جدیدیت کے بہانے، سیکولرازم کو پروان چڑھانے، نصاب تعلیم میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ تاریخ اسلام کے روشن واقعات کو نکال کر مسلمانوں کو انکے روشن ماضی سے دور کیا جاتا ہے۔ اوراعلان ہوتا ہے۔ "پاکستان اور بھارت کا نصاب یکساں ہونا چاہئے"۔ امریکہ نصاب تعلیم میں تبدیلی چاہتا ہے۔ تا کہ جدیدیت کو داخل نصاب کر کے پتھر کے زمانے کی باتوں کو نکالا جائے۔ اعلان کے ساتھ ہی خفیہ و اعلانیہ، صبح شام، کی محنت سے پروجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔

    امریکی ادارے کے چیف ایگزیکٹیو 28 جون 2003 کو اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان کے نظام تعلیم کی تبدیلی کیلئے امریکا پاکستان کو 60ملین ڈالر دیگا۔ جو پاکستانی 3ارب 90کروڑ روپے بنتے ہیں۔ 19اپریل 2004 کو اس وقت کے وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس بیان داغتے ہیں کہ "امریکا کے خلاف پاکستان میں بڑھتی ہوئی منافرت کا علاج وہاں کی ونڈر فل لیڈی کر رہی ہیں۔ یعنی شانت رہیئے آپکی خوشنودی کیلئے نصاب تعلیم میں ہماری من پسند تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔

    12جون 2004 برطانوی وزیر خارجہ دوٹوک کہتے ہیں: "پرویز مشرف پاکستان کے نصاب تعلیم میں جو تبدیلیاں کر کے اصلاحات کا رہے ہیں ہم انکا خیر مقدم کرتے ہیں"۔ امریکی صدر بش ببانگِ دہل کہتے ہیں:"میرے کہنے پر نصاب تعلیم میں تبدیلی کی گئی"۔ پاکستانی "محبِ وطن و دین" ہاتھ پاؤں مارتے رہے مگر تبدیلیاں ہو کے رہیں۔

    نصاب تعلیم کے بعد 1979 کے حدود آرڈیننس کے خاتمے کیلئے پچیس پچیس کروڑ روپے خرچ کر کے اس میں تبدیلی کی گئی۔ تاکہ اسلامی معاشرے کو مادر پدر آزاد میں معاشرے میں تبدیل کیا جاسکے۔ بہن بیوی کا فرق ختم ہوجائے۔ سو ویسا ہی ہوا۔ فحاشی و عریانی کو فروغ دیا گیا۔ زنا آسان تو نکاح مشکل ہوگیا۔ حدود اللہ پہ اعتراض اٹھائے گئے، اس میں من پسند تبدیلی کی گئی۔ مغرب کو آزادی چاہئے۔ آزادی اظہار کا نعرہ لگا کر حدود اللہ کو چیلنج کیا گیا۔

    ایک جانب مغرب تنوع کی بات کرتا ہے دوسری جانب اسکول میں خاص قسم کا لباس پہنا کر تنوع ختم کردیا جاتا ہے۔ اللہ کے گھر میں عبادت کے لیے آنے والوں کے لیے لباس کی کوئی خاص شکل یارنگ مخصوص نہیں کیا گیا مگر اسکول میں خاص لباس کے بغیر داخلہ ممنوع ہے اسے آزادی کہتے ہیں۔ یعنی حصول آزادی کے لیے پابندی کا سخت ترین نظام۔ بہت سے ملکوں میں تعلیم لازمی ہے اس کے بغیر آزادی نہیں مل سکتی۔ دوسرے معنوں میں لوگوں کو آزادی، سرمایہ داری، لبرل ازم، سیکولر ازم کاجبر نظر نہیں آتا اسلام کا جبر سب کو نظر آجاتا ہے۔ آزادی کا ہر جبر جائز قانونی اور حقیقی ہے مذہب کا تھوڑا سا جبر بھی ناجائز اور غیر قانونی ہے۔

    حدود آرڈیننس بھی تبدیل ہوا اور نام نہاد حقوق نسواں بل پاس ہوا۔ فقط ایک سال میں انگریز آقا کی خواہش پوری کی۔ 2005 میں اس پر کام شروع ہوا 2006 میں حدود آرڈیننس کا خاتمہ ہوا۔ اسکا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ہر طرف فحاشی عریانی کا دور دورہ ہے۔ اب بھی باقاعدگی سے کمک جاری ہے۔ سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے طفیل گھر بیٹھی لڑکیوں کی ذہن سازی کر کے آزاد مادر پدر معاشرے کی بنیادوں کو مضبوط کیا جارہا ہے۔

    کبھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کر کے، فسادات کروائے جاتے ہیں تا کہ اس دھنگےکی آڑ میں توہینِ رسالت قانون کو ختم کیا جا سکے جو دعاؤں سے بچ گیا۔ مگر غیر ملکی آقا نے ڈگڈگی بجا دی، بندر کا ناچ شروع ہونے کو ہے۔ آرڈر مل چکے ہیں، پروجیکٹ پر کام شروع ہو چکا ہے۔لادین قوتیں متحرک ہیں مسلکی اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے۔ دین کا لبادہ اوڑھ کر دشمن ناموس رسالت پر جھپٹ پڑے ہیں۔ کہ کب پروجیکٹ پورا ہو اور اسلامی ملک کے دارالحکومت میں بیٹھ کر بتا دیا جائے کہ آقا! آپریشن اوور...

    انٹرنیٹ کے ذریعے کوئی بھی جھوٹی پوسٹ کسی کے نام سے شئیر کر کے خود تماشا دیکھتے رہتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی گھر اجڑ جاتے ہیں۔ ہماری بھیڑ چال سے کئی بے گناہ افراد مذہب پسندی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ایسے فسادات کو آڑ بنا کر "توہین رسالت قانون" کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ چونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس پر بھی احتجاج ہوگا سو درباری وزراء کی زبانی زخم پر پھاہا رکھوایا جاتا ہے۔ انہیں معلوم پڑ گیا کہ یہ لوگ فقط احتجاج کر کے اونچے اور کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں۔ اچھل اچھل کر عاشق رسول ہونے کے دعوے کرتے ہیں۔ ماہ ربیع الاول میں میلاد منا کر خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔

    یہ مسلمانوں کیلئے چیلنج ہے کہ ہمارے اوچھے ہتھکنڈوں کے جواب میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ ہمیں اس چیلنج کو قبول کرنا چاہیے۔ ہمیں گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ کفر و الحاد کا یہ گٹھ بندھن دیدہ دہنی سے ناموس رسالت پر حملہ آور ہو کر توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہمارا انکے ساتھ کیا رویہ ہے؟ کیا وہ اور انکے رفقاء اب بھی اس قابل ہیں کہ ہم ان سے مراسم رکھیں؟ انکو معاشی فائدہ پہنچائیں؟

    ہمیں ہر اسٹیج پر انکا مقابلہ کرنا چاہئے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے حملہ ہو تو ہم اسکا استعمال ترک کر دیں۔ جان نہیں لگے گی مال نہیں لگے گا۔ اُلٹا مال بچے گا۔ کیا ہم پھر بھی تیار نہیں؟ سوشل میڈیا کی جس سائٹ پر ایسا مواد ہو اسکا استعمال ترک کر دیں۔ انکو معاشی نقصان پہنچائیں۔ کیونکہ یہ لوگ پیسے کے پجاری ہیں۔ وہی انکا خدا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: "یہ طعنہ دینے والے اور غیبت کرنے والے جو لوگ ہیں۔ یہ مال جمع کر کے گن گن کے رکھتے ہیں".

    ان جدیدیت پسندوں کا بھی یہی حال ہے۔ انہیں پیسے کی مار دیں۔ ایک سائٹ کھولیں تو انکو ڈیڑھ ڈالر کا فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ گستاخیاں کرتے ہیں ہم انکی سائٹ پہ جا کے دو گالیاں دے کے شاباش کی تھپکی کے ساتھ ڈیڑھ ڈالر بھی دے آتے ہیں۔ انکو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ مسلمان کی خوش قسمتی ہوگی کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، عزت و رفعت، عظمت و تقدس کی خاطر ایسے اقدامات کرے جس سے انکو نقصان پہنچے۔ ہم جزباتیئت میں اپنا اور اپنے ہی ملک کا اپنے ہی ہم وطن کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ لادین قوتیں اسی انتظار میں رہتی ہیں سو وہ اسکا فائدہ اٹھاتی ہیں۔

    ایک بار بھی دنیا کے مسلمان انکو پیسے کی مار دینے کیلئے عملاً آگے آئیں۔ تو یہ لوگ فٹ پاتھ پر آجائیں گے۔ انکی سمجھ میں بھی آجائے گا کہ گستاخی کا انجام کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مخلص ہو کر قانون ناموس رسالت و ختم نبوت آرڈیننس، کی حفاظت کر کے دشمنانِ اسلام کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیں۔
    ***
     
    سیدعلی رضوی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

  3. عبدالباسطذوالفقار

    عبدالباسطذوالفقار یونہی ہمسفر

    شکریہ
     
    علی مجتبیٰ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں