1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

قصیدہ معراجیہ

'گلستانِ عقیدت' میں موضوعات آغاز کردہ از بینا, ‏مئی 10, 2016۔

  1. بینا

    بینا مدیر Staff Member

    بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
    جو قرب انہیں کی روش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
    پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا ادھر کا​
    تنزلوں میں ترقی افزا دنا تدلیٰ کے سلسلے تھے​

    ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تموج بحر ہو میں ابھرا​
    دنا کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھادیئے تھے​

    کسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا​
    بھرا جو مثل نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے​

    اٹھے جو قصر دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے​
    وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ ہی نہ تھے ارے تھے​

    وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا​
    گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے​

    محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل​
    کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے​

    حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے​
    عجب گھڑی تھی کہ وصل فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے​

    زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں​
    بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے​

    وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر​
    اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے​

    کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اول آخر کے پھیر میں ہو​
    محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے​

    ادھر سے تھیں نذر شہ نمازیں ادھر سے انعام خسروی میں​
    سلام ورحمت کے ہار گندہ کر گلوئے پر نور میں پڑے تھے​

    زبان کو انتظار گفتن تو گوش کو حسرت شنیدن​
    یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے​

    وہ برج بطحا کا ماہ پارا بہشت کی سیر کو سدھارا​
    چمک پہ تھا خلد کا ستارا کہ اس قمر کے قدم گئے تھے​

    سرور مقدم کے روشنی تھی کہ تابشوں سے مہ عرب کی​
    جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے​

    طرب کی نازش کہ ہاں لچکئے ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکئے​
    یہ جوش ضدین تھا کہ پودے کشاکش ارہ کے تلے تھے​

    خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے​
    ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلئے تھے​

    نبئ رحمت شفیع امت رضا پہ للہ ہو عنایت​
    اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے​

    ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سرکار ہے تمنا​
    نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ردی تھی کیا کیسے قافیئے تھے ​
    از امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں