1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

فہم مضامین قرآن (رمضان المبارک)

'مذاہب' میں موضوعات آغاز کردہ از تجمل حسین, ‏جون 11, 2016۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. دس رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ بارہ سورۃ ہود رکوع 5تا 10
    پارہ بارہ سورۃ یوسف رکوع 1تا 7
    پارہ تیرہ سورۃ یوسف رکوع 7تا 12
    پارہ تیرہ سورۃ رعد رکوع 1تا 2
    ===============================================================
    (11) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ ہود (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 5تا 10
    ===============================================================

    رکوع 5۔۔۔۔ حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اے قوم اپنے رب سے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگتے رہو۔ ہر مشکل میں صرف اسی کی طرف توجہ کرو اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ قوم سرکشی سے باز نہ آئی تو اللہ نے ان پر آندھی کا عذاب مسلط کردیا اور وہ اللہ کے رحمت سے دور ہوئے۔

    رکوع 6۔۔۔۔ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف بھیجے گئے۔ قوم ثمود نے حق کی آواز کو جھٹلایا اور اللہ نے زلزلوں کے عذاب سے ان کو نیست و نابود کردیا۔

    رکوع 7۔۔۔۔ قوم لوط علیہ السلام کی بدکرداریوں کا ذکر اور پھر پتھر جو کنکروں سے بنے تھے، برساکر انہیں تباہ و برباد کردیا۔

    رکوع 8۔۔۔۔ مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ انہوں نے قوم کو اللہ کا پیغام دیا لیکن قوم نے اسے نہ مانا آخر اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا کہ ان نافرمانوں کو کڑک نے آپکڑا پھر یہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

    رکوع 9۔۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قوم فرعون کا تذکرہ فرمایا کہ کس طرح انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بتائی ہوئی راہِ توحید کی نفی کی اور فرعون کو خدا مان کر اس تابعداری کرنے پر اصرار کرتے رہے چنانچہ ان کو دنیا میں بھی غرق کیا گیا اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کا عذاب تیار ہے۔ فرمایاکہ ان اقوام کی تباہی اللہ کا ظلم نہیں بلکہ ان کی نافرمانیوں کے باعث ہے۔

    رکوع 10۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبروں کے پیغام پر بھی قومیں اختلاف کرتی رہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کی پیروی کریں، حدود اللہ سے تجاوز نہ کریں اور نافرمانوں کے ساتھ تعلقات نہ بڑھائیں۔ نماز کو اپنے اوقات میں ادا کریں۔ اللہ نیکیوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ لوگو! تم سے پہلے جو قومیں تباہ ہوئی ہیں وہ اپنے کفر، شرک،ظلم وغیرہ کے باعث ہوئیں۔ ارض و سماء کی تمام مخفی باتیں صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں اور سب معاملات کے فیصلے بھی صرف وہی کرتا ہے۔ پس ہردم اسی کی بندگی کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو وہ تمہارے اعمال سے ہرگز غافل نہیں۔

    ===============================================================
    (12) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ یوسف ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 12
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ عربی زبان میں تمہارے لیے غور و فکر کرنے کے لیے ایک بہترین تاریخی واقعہ بیان کیا جارہا ہے جو اس سے پہلے نہ کہیں تم نے پڑھا اور نہ سنا۔ قصہ یوں ہے کہ بچپن میں ایک بچے نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند مجھے سجدہ کرتے ہیں۔ اس نے خواب اپنے والد کو سنایا تو والد نے کہا کہ اسے اپنے بھائیوں کو نہ سنانا اور تیرا رب تجھے برگزیدہ کرے گا۔

    رکوع 2۔۔۔۔ بھائی یوسف علیہ السلام سے حد کرتے تھے کیونکہ وہ والد کا پیارا تھا۔ آخر ان میں مشورہ ہونے لگا کہ یا یوسف علیہ السلام کو مار ڈالو یا کسی دوسرے ملک چھوڑ آؤ۔ ایک بھائی نے کہا کہ بہتر ہے کہ اسے مت مارو بلکہ کسی کنویں میں ڈال دو تاکہ کوئی مسافر اسے دیکھے اور لے جائے۔ ایک روز وہ یوسف علیہ السلام کو والد کی اجازت سے ساتھ لے گئے اور انہیں ایک کنویں میں ڈال دیا۔ واپس آکر والد کے پاس روئے کہ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا اٹھاکر لے گیا ہے۔ ادھر یوسف علیہ السلام کو ایک قافلے والوں نے دیکھا اور نکال کر لے گئے اور اپنے ملک پہنچ کر انہیں بیچ دیا۔

    رکوع 3۔۔۔۔ خریدار مصر کا تھا۔ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بیٹا بنا لیا۔ بعد میں اس کی عورت نے ان پر بری نگاہ ڈالی۔ ایک دن اس نے دروازہ بند کرلیا۔ یوسف علیہ السلام وہاں سے بھاگے۔ عورت نے پیچھے سے کرتہ پکڑا جو پھٹ گیا۔ آگے پیچھے بھاگے تو باہر دیکھا کہ اس کا خاوند عزیز کھڑا دیکھ رہا ہے۔ فوراً بولی کہ یہ مجھے برے ارادے سے پیش آیا ہے۔ آخر کار انہیں میں سے ایک شخص نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کا کرتہ دیکھو۔ اگر آگے سے پھٹا ہے تو یوسف علیہ کا منہ زلیخا کی طرف تھا اور عورت سچی ہوگی۔ اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو یوسف علیہ السلام بھاگ رہے تھے تو اس صورت میں یوسف درست کہہ رہے ہیں۔ آخر زلیخا ہی کا قصور ثابت ہوا۔

    رکوع 4۔۔۔۔ عورتوں کے مکروفریب کو دیکھ کر یوسف علیہ السلام نے ان سے بچنے کے لیے رب سے قید طلب کی تو ان کی دعا قبول ہوئی۔

    جاری۔۔۔۔
     
  2. دس رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 5۔۔۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے قیدخانہ میں حق کی تبلیغ شروع کردی اور لوگوں سے کہا کہ کیا ایک زبردست رب بہتر ہے یا جدا جدا معبود؟ لوگوں کو توحید کی تعلیم دی اور خوابوں کی تعبیر بتانے لگے۔

    رکوع 6۔۔۔۔ بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات دبلی گائیں سات موٹی گایوں کو کھاتی ہیں اور سات ہری بالیں اور سات سوکھی۔ درباریوں سے تعبیر پوچھی تو کوئی نہ بتاسکا۔ قید خانے کے ایک ساتھی نے جاکر اس خواب کی تعبیر یوسف علیہ السلام سے پوچھی اور اپنے بادشاہ کو بتائی۔

    رکوع 7۔۔۔۔ بادشاہ کو معلوم ہوا کہ تعبیر یوسف علیہ السلام نے بتائی ہے تو ان کو قید خانہ سے بلا کر شاہی مشیر مقرر کیا اور آخر میں انہیں مصر کی بادشاہت مل گئی۔

    پارہ تیرہ

    رکوع 8۔۔۔۔ مصر میں غلہ کا قحط تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے سالوں میں جو غلہ جمع کیا تھا، ضرورت مندوں میں بانٹتے تھے۔ ان کے بھائی بھی غلہ لینے حاضر ہوئے تو یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا وہ نہ پہچان سکے۔ انہیں غلہ ملا تو انہوں نے اپنے بھائی کے حصے کا غلہ مانگا جو ساتھ نہ آیا تھا۔ یوسف علیہ السلام نے اس کے حصے کا غلہ بھی دیا اور غلہ کی قیمت بھی غلہ کے ساتھ واپس رکھوادی۔ گھر جاکر سامان کھولا تو غلہ کے ساتھ پونجی دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور والد صاحب سے درخواست کی کہ آئندہ بھائی بنیامین (یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی) کوبھی ساتھ لے جانے کی اجازت دیں۔ وہ دوبارہ غلہ لینے گئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ الگ الگ دروازوں سے وہاں داخل ہونا۔

    رکوع 9۔۔۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین اپنے پاس بلا کر اس پر اپنی اصلیت ظاہر کردی اور بتادیا میں تمہارا بھائی ہوں۔ واپسی پر بنیامین کے سامان میں ایک قیمتی پیالہ رکھ دیا گیا اور ان کا قافلہ روک کر تلاشی لی گئی تو پیالہ برآمد ہوا۔ اب سزا کے طور پر بنیامین کو رکھ لیا گیا۔

    رکوع 10۔۔۔۔ واپسی پر انہوں نے والد کو ماجرہ سنایا کہ کس طرح ان کا بھائی وہاں رہ گیا ہے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے منہ سے بے اختیار نکلا: ’’آہ یوسف‘‘ اور کہا میری اپنےرب سے کوئی شکایت نہیں وہ بڑا رحیم ہے مجھ پر رحم فرمائے گا۔ باپ نے کہا جاؤ اور یوسف کو تلاش کرو۔ وہ عزیز مصر کے پاس آئے اور عرض کی کہ ہمارے گھرپر سختی پڑی ہے اور ہم ناقص پونجی لائے ہیں ہمیں صدقہ و خیرات کے طور ہی غلہ دیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا اور پوچھا بتاؤ تم نے یوسف علیہ السلام اور ا س کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ بھائی پکار اٹھے کہ تو یوسف علیہ السلام ہے۔ کہا ہاں میں یوسف علیہ السلام ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا۔ اللہ نے اپنے فضل سے ہم کو تقویٰ پر قائم رکھا اور مصیبتوں میں صبر و ہمت عطا کی۔ بھائیوں کے سر ندامت سے جھک گئے اور خطاکار ہونے کا اقرار کیا۔ یوسف علیہ السلام نے کہا میرا کرتہ لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو (ان کی بینائی بیٹے کے ہجر میں رو رو کر ختم ہوچکی تھی) ان کی بینائی لوٹ آئے گی پھر تم سب یہاں آؤ۔

    رکوع 11۔۔۔۔ بھائی واپس آئے، کرتہ رکھا، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی۔ یہ سب مصر آگئے اور اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بچپن کا خواب پورا ہوا۔

    رکوع 12۔۔۔۔ پہلی قوموں کے قصے یہاں اس لیے بیان کیے جارہے ہیں تاکہ عبرت حاصل کرو اور اپنے لیے مفید نتیجے نکالنے میں تمہیں مدد مل سکے۔

    ===============================================================
    (13) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الرعد ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 2
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ قرآن حق ہے اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کے بغیر ستون کے بنایا پھر وہ عرش پر قائم ہوا اور سورج چاند کو اپنے اپنے کام پر لگادیا۔ اللہ کا نظام مقررہ قاعدے کے مطابق چل رہا ہے۔ زمین بنائی، پہاڑ، ندیاں بنائیں، پھلوں کے جوڑے، رات دن بنائے۔ اہلِ فکر کے لیے یہ نشانیاں ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات مانگتے ہیں۔ فرمادیں کہ میرا معجزہ فصیح و بلیغ قرآن ہے جو تمہارے سامنے پیش کردیا گیا ہے جس میں تمہارے لیےہدایت ہے۔

    رکوع 2۔۔۔۔ ہر بات کا علم اللہ ہی کو ہے۔ وہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ نہ بدلیں۔ ہر طرف پھیلی نشانیوں کے باوجود کس نشانی کی ضرورت ہے۔ صرف اللہ ہی کی بندگی کرو کسی اور کی بندگی کام نہ آئے گی اور کافروں کی سبھی بندگی گمراہی ہے۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ ارض و سماء کا مالک صرف اللہ ہی ہے اس کے سوا تمہارے حمایتی تو خود اپنے بھلے برے کے بھی مالک نہیں (السجدہ)۔ اللہ ہی ہر شے کا خالق و مالک ہے اور وہی اکیلا زبردست ہے۔ جس نے اللہ کا حکم مانا نفع میں رہا اور جھٹلانے والا دوزخ کا ایندھن بنا۔

    ===============================================================
     
  3. گیارہ رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ تیرہ سورۃ الرعد رکوع 3 تا 6
    پارہ تیرہ سورۃ ابراہیم رکوع 1 تا 7
    پارہ چودہ سورۃ الحجر رکوع 1 تا 6
    پارہ چودہ سورۃ النحل رکوع 1 تا 12

    ===============================================================
    (13) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الرعد (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 3 تا 6
    ===============================================================
    رکوع 3۔۔۔۔ عقل کے اندھے اور غور و فکر کرنے والے کبھی برابر نہیں ہوسکے۔ غور و فکر کرنے والے اور جن کے دل کی آنکھیں ہیں وہ راہِ حق کو پاکر اللہ سے کیے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ اور جنہوں نے صبرکیا، نماز قائم رکھی اور اللہ سے ڈرتے رہے اور اللہ کی راہ میں ظاہراً اور پوشیدہ خرچ کیا ان کے لیے آخرت میں نعمتوں بھرے باغات ہیں مگر جو اللہ سے کیا عہد توڑتے ہیں اور فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہے۔ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور برا ٹھکانہ ہوگا اور اللہ ہی ہے جو رزق تنگ یا کشادہ کرتا ہے اور آخرت کی زندگی ہی ہمیشہ کی زندگی ہے۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ کافر معجزوں کا اصرار کرتے ہیں سو ان کی قسمت میں ہدایت نہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جو رجوع کریں انہیں ہدایت عطا کرتا ہے۔ دل اللہ کی یاد سے ہی سکون حاصل کرتے ہیں اور نیکوکاروں کا اچھا ٹھکانہ ہے۔ جو لوگ رحمٰن کے منکر ہیں انہیں کہہ دیں کہ میرا رب وہی اللہ ہے جو لاشریک ہے۔ وہی ہرکام میں میرا سہارا ہے اور وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبروں کا بھی مذاق اڑایا گیا اور دینِ حق کا انکار کیا گیا۔ اللہ نے اپنے قانون کے مطابق انہیں مہلت دی اور بالآخر انہیں صفحہ ہستی سے مٹادیاگیا۔ جو لوگ دنیا میں تقویٰ اختیار کریں گے انہیں سر سبز باغات والے گھروں بسایا جائے گا جہاں انہیں کوئی ڈر نہ ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیں کہ میں تو صرف اللہ کی بندگی کرنے اور شرک سے باز رکھنے کے لیے آیا ہوں۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ رسول سچی باتیں بتانے کے لیے آتا ہے۔ بغیر اذنِ الٰہی وہ کوئی نشانی ظاہر نہیں کرسکتا۔ سب اختیار صرف اللہ کے پاس ہیں وہ جسے چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق چلاتا ہے۔سب اس نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے اور اللہ ہر شے کا گواہ ہے۔

    ===============================================================
    (14) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ ابراہیم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 7
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ فرمایا کہ اس کتاب کے نزول کا مقصد لوگوں کو فکر و عمل کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی اور اللہ کی طرف جانے والی راہ پر ڈالنا ہے۔ ہم نے جو رسول بھیجا انہیں کی قوم سے تھا تاکہ وہ ان ہی کی زبان میں دینِ حق ان کو سمجھا دے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال دی کہ وہ اپنی قوم کو فرعون سے نجات دلانے کے باوجود انہیں گمراہی کے اندھیروں سے نہ نکال سکے۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ کیا تمہارے پاس نوح علیہ السلام کی قوم اور عاد و ثمود کی خبریں نہیں پہنچیں جنہیں ہمارے رسولوں نے حق بات بتائی لیکن انہوں نے نہ مانی۔ وہ کہتے کہ تم تو ہم جیسے انسان ہو اور چاہتے ہو کہ ہم اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑ دیں اور فکر و عمل کی ظلمتوں میں ڈوبے رہیں۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ کافروں نے رسول سے کہا یا ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ ورنہ ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے۔ ان کے حق کا مسلسل انکار کرنے پر رسول نے دعا کی کہ یا رب ان کا اور ہمارا فیصلہ کردے اور ہمیں ان پر فتح دے۔ تو اللہ عزوجل نے اپنا وعدہ پورا کیا اور سب ضدی لوگ دنیا ہی میں تباہ ہوگئے۔ فرمایا: مرنے کے بعد یہ سب دوزخ میں جائیں گے۔ بدن سے جل جل کر جو پانی جیسی پیپ بہے گی وہ انہیں پلائی جائے گی۔ منکرین کے کوئی بھی اعمال مثلاً خوش خلقی، خیرات، صدقات اور نیک کام بغیر ایمان کے انہیں دوزخ سے نہیں بچا سکیں گے جہاں انہیں سخت اور دردناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ قیامت کے دن سب فیصلے ہوجانے کے بعد شیطان کہے گا کہ اللہ کے سب وعدے سچے تھے اور میرے جھوٹے۔ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے قبول کرلی، قصور سب تمہارا تھا۔ میں تمہاری کوئی مددنہیں کرسکتا۔ تم احکامِ الٰہی پر عمل کرنے کی بجائے میری اطاعت کرکے شرک کے مرتکب ہوئے۔ فرمایا: جو لوگ ایمان لائےاورنیک عمل کیے جنت کے باغوں میں داخل کیے گئے اور اللہ پختہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ ناشکروں نے اللہ کے احسان کا بدلہ کفر سے دیا اور جہنم کو پسند کیا اور یہ سخت نادان ہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو اس کے برابر بنارکھا ہے۔ یہ کچھ دن دنیا کے مزے اڑا کر ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ ایمان والو سے کہو کہ نماز قائم رکھیں اور حاجت مندوں کو چپکے اور ظاہری طور پر اپنی حلال کمائی سے دیتے رہیں تاکہ قیامت میں ان کا پھل پاسکیں۔ پھر ارض و سماء رزق کا سامان، سمندر، ندیاں، سورج، چاند، رات دن، غلہ، پھل، ترکاریاں انسانوں کے لیے بنانے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ تمہاری ہر خواہش پوری کی اگر اللہ کے احسان گنو تو گن نہ سکو گے۔

    رکوع 6۔۔۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی کہ اے رب اس شہر کو امن والا کردے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی کی بلا سے بچائے رکھ۔ عرض کی کہ میں چکا ہوں کہ بتوں نے کتنے لوگوں کو غلط رستے پر ڈالا ہے۔ لیکن جو میرے راستے پر رہا تو وہ میرا ہے اور جو گمراہ ہوا اس کا معاملہ تیرے ساتھ ہے۔ عرض کیا کہ اے رب اس ریگستان میں تیرے گھر کے پاس میں اپنی اولاد کو چھوڑ گیا تھا تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ اللہ انہیں میوے اور نعمتیں عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بنیں۔ اے اللہ آپ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے بڑھاپے میں دو فرزند اسمٰعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام عطا کیے بے شک میرا رب دعائیں سنتا ہے۔ پھر دعا فرمائی الٰہی مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا کر اور میری دعا قبول کر اور مجھ کو میرے ماں باپ اور سب ایمان والوں کو یوم حساب بخش دے۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ اللہ کے منکر سمجھ لیں کہ اس دنیا میں انہیں مہلت دی گئی ہے۔ اس دن سے ڈرو جب ان پر عذاب آئے گا۔ تہ وہ کہیں گے ہمیں مہلت دے کہ تیرا حکم مانیں اور رسولوں کی پیروی کریں۔ پھر وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا نتیجہ مل کر رہے گا۔

    جاری۔۔۔۔
     
  4. گیارہ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    پارہ چودہ
    ===============================================================
    (15) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الحجر ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 6
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ یہ عظیم الشان کتاب اور آیات واضح احکام پر مشتمل ہیں۔ منکرین کل آرزدہ ہوں گے کہ بہتر تھا کہ ہم مسلمان ہوتے۔ چنانچہ جب مسلمانوں کو فتح ملی اور ان کو شکست تو یہ دنیا ہی میں پچھتائے اور آخرت میں بھی ان کے لیے حسرت اور پچھتاوا ہے۔ یہ ان کی عقل کا فتور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام اللہ پڑھ کر سنایا اور ڈرایا تو بولے اگر تو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو تیرے ساتھ فرشتے ہونے چاہئیں، وہ کہاں ہیں؟ فرمایا ہم فرشتے نہیں اتارے، قرآن بجائے خود ایک زبردست نشانی ہے جو ہم نے اتاری اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ پچھلی قوموں کے پاس بھی رسول آئے اور ان کی ہنسی اڑائی گئی۔ یہ لوگ دنیا ہی کی لذت میں پھنسے ہوئے ہیں اور کفر پر اڑے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بیہودہ گوئیوں سے کبیدہ خاطر نہ ہوں اور اپنے اللہ سے لو لگائے رہیں۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ ہم نے آسمان میں برج بناکر شیطان مردود سے محفوظ کیا اور دیکھنے میں خوشنما بنایا۔ زمین کی پائیداری کے لیے پہاڑ کھڑے کیے اور زمین سے زندگی کی تمام اشیائے ضرورت تمہیں بہم پہنچائی ہیں اور یہ سب حکم الٰہی سے ہوتا ہے۔ پھر ہوائیں چلائیں اور آسمان سے پانی برسایا۔ ہم ہی زندی اور موت دینے والے ہیں اور ہم ہی ایک دن سب انسانوں کوجمع کریں گے اور ہر ایک کو اعمال کی سزا عدل و انصاف کے ساتھ دیں گے۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ یہاں انسان کی پیدائش اور ابلیس کی سرکشی کا تذکرہ فرمایا۔ اللہ کے بندوں پر شیطان مردود کا کوئی زور نہ چل سکے گا لیکن بہکے ہوؤں میں سے جو شیطان کی راہ پر چلے داخلِ دوزخ ہوں گے۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ پرہیزگار بغیر کسی خوف کے سرسبز میوے دار باغات میں رہیں گے۔ لوگوں سے کہہ دیں کہ اللہ ہی بخشنے والا مہربان ہے اور اس کا عذاب بھی دردناک عذاب ہے۔ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے گھر آئے مہمانوں کا قصہ بیان فرمایا جو اصل میں فرشتے تھے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں بیٹے کی خوشخبری دینے آئے تھے۔ فرشتوں نے انہیں بتایا کہ اب ان کی اگلی منزل قومِ لوط ہے جو اپنی بدکرداری اور سرکشی کے باعث عذاب سے بے نام ہوجائیں گے سوائے لوط علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے کوئی عذاب سے نہ بچ سکے گا یہاں تک کہ ان کی بیوی بھی ہلاک ہونے والوں میں ہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق محض رشتہ و قرابت داری کی بنیاد پر کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی جاتی۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ فرشتے انسانی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پہنچے تو وہ انہیں نہ پہچان سکے۔ پوچھنے پر بتایا کہ ہم تمہاری نافرمان قوم کو نیست و نابود کرنے آئے ہیں۔ پس آپ گھر والوں کو لے کر رات رہے شہر سے چلے جاؤ اور کوئی مڑ کر نہ دیکھے۔ صبح قوم تباہ ہوجائے گی۔ قوم لوط اسی اثناء میں ان خوبصورت نوجوانوں (فرشتوں) پر بدکاری کی غرض سے ٹوٹ پڑی۔ لوط علیہ السلام نے منع کیا کہ یہ مہمان ہیں لیکن وہ حضرت لوط علیہ السلام کی کسی بات کے ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ فرشتوں نےکہا کہ یہ آپ کی کوئی بات نہیں مان رہے ہم ان کی خرمستیوں کا علاج کریں گے۔ چنانچہ پو پھٹتے ہی بادلوں کی کڑک اور بجلیوں کی چمک کا شدید طوفان آیا اور کنکروں کا مینہ برسا جس نے اشراق تک تمام تباہ کرڈالے۔ قومِ لوط کے قصے میں پہچان والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح قوم شعیب کا انجام تفصیل سے بیان ہوا۔ ان دو قوموں کی بستیوں کے کھنڈر حجاز اور شام کے راستے میں سبق آموز ہیں۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ قومِ ثمود کا حال بیان کیا جو پہاڑوں کو تراش کر گھر بنا کر رہتے تھے۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور انہیں زلزلہ اور ہیبت ناک چنگھاڑ سے تباہ کردیا۔ یہ کائنات نہ ہی کھیل ہے، نہ ہی بے مقصد تخلیق ہوئی اور نہ ہی قیامت کا وقوع غیر یقینی ہے۔ اگر تم اس کی ہولناکی سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے اندر عفوو درگزر کی خوبی پیدا کرو۔ یقین جانو ہرشے کا خالق اللہ ہے جس نے تمہیں سورۃ فاتحہ اور بڑے درجے کا قرآن دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں احکامِ الٰہی کھول کھول کر بتادیں اور ان کی پرواہ نہ کریں اور اپنے رب کے آگے سجدہ کرنے والوں میں شامل رہو اور عبادت میں مشغول رہو کہ انہیں سے اطمینانِ قلب ملتا ہے۔

    ===============================================================
    (16) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ النحل ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکو 1 تا 12
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ اللہ نے آسمان اور زمین بنائے۔ وہ ذات بلند و برتر ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا پھر وہ اپنی طاقت و قوت سے اتنا مغرور ہوگیا کہ اپنے خالق کو ہی بھول گیا۔ پھر اللہ نے انسانوں پر انعامات کا تذکرہ کیا۔ یہاں پر سیدھی راہ بھی ہے جس پر چل کر انعام ملتا ہے اور اس سے کچھ ٹیڑھی پگڈنڈیاں بھی ہیں جو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہیں۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ رازق اللہ ہی ہے جو آسمان سے مینہ برساکر زمین میں تمہارے لیے پھل، سبزیاں اور غلہ پیدا کرتا ہے۔ پھر سمندر، دریا تمہیں مچھلیاں دیتے ہیں کہ اور یہ کہ ان میں جہاز اور کشتیاں چلا کر تم تجارت کرسکو۔ غرض تمہیں اتنی نعمتیں دیں جن کا شمار نہیں۔ پھر تم جن کو اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ خود کیسے پیدا ہوئے۔ یہ تو مردہ و بے جان ہیں اور انہیں اس کا بھی شعور نہیں کہ یہ کب اٹھائے جائیں گے تو یہ کسی کو کیا دے سکتے ہیں۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ تمہارا معبود اکیلا معبود ہے اور جن کو آخرت کا شعور نہیں وہ مغرور ہیں اور اللہ تکبر کرنے والے مغروروں کو پسند نہیں کرتا۔ بعض لوگ قرآن کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، یہ اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے جس کی سزا ان کو قیامت کے دن دگنے عذاب کی صورت میں بھگتنا پڑے گی، خود گمراہ ہونے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کی۔

    جاری۔۔۔۔
     
  5. گیارہ رمضان المبارک (حصہ سوم)

    رکوع 4 ۔۔۔۔ پہلے بھی کچھ لوگ بے خوف بیٹھے تھے اور رسولوں اور کتابوں کی ہنسی اڑاتے، اللہ نے ان پر ان کی چھتیں گرا کر چشم زدن میں انہیں تباہ کر ڈالا۔ پھر وہ آخرت میں بھی رسوا ہوں گے۔ کافر عذاب دیکھ کر برے کاموں سے مکر جائیں گے لیکن اللہ فرمائے گا میں تمہاری بدکاریوں سے واقف ہوں اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اور نیک لوگوں کے لیے بھلائی ہے اور آخرت میں بڑا اجر۔ متقی ہمیشہ باغوں میں رہیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ ان کی جان قبض کرتے فرشتے ان کو جنت کی خوشخبری سنادیتے ہیں۔ کافروں کو سبق حاصل کرنا چاہیے ورنہ وہ سر پکڑ کر روئیں گے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ انہوں نے رسولوں کی نصیحتوں کا ٹھٹھہ اڑایا اور آخر اس عذاب میں گھِر گئے جس کی ہنسی اڑاتے تھے۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ ہم نے جو نظامِ دنیا کا قانون قائم کر رکھا ہے اس میں بدکاروں کو فوراً سزا نہیں دی جاتی انہیں نصیحت کے ذرائع مہیا کیے جاتے ہیں پھر اختیار اور مہلت۔ پھر بھی جو منکر ہوں گے انہیں سزا مل کر رہے گی۔ رسولوں کا کام صرف نصیحت کرنا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی کرو۔ شیطان کے پھندے میں پھنسنے والوں کو ہدایت سے محروم کردے گااور وہ سزا سے نہ بچ سکیں گے۔ اللہ کا وعدہ پختہ وعدہ ہے اور اسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے اور اللہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کیے کا پھل ملے اور کافر جان جائیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ اور سمجھ لو کہ ہمارے لیے کچھ کرنا دشوار نہیں ہے اور ہم کہیں ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوجاتا ہے۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ جنہوں نے اللہ کے واسطے گھر بار چھوڑا، ظلم اٹھایا، صبر کیا ان کے لیے دنیا میں بھی اچھا ٹھکانہ ہے اور آخرت میں بڑا ثواب ہے۔ پہلے بھی کچھ رسولوں کے ذریعے کتابیں بھجوائیں ۔ اب تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آخری کتاب دے کر بھیجا ہے جو قیامت تک کے لیے ہدایت ہے (اور اس میں تمام گزشتہ شریعتوں کا نچوڑ ہے)۔ اگر ہم چاہیں تو دینِ حق کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو زمین میں دھنسا دیں یا ایسی جگہ سے عذاب بھیجیں کہ انہیں گمان بھی نہ ہو۔ کائنات کا مطالعہ کرو اور مادی اجسام کو دیکھو کہ ان کے سائے چاروں طرف جھک رہے ہیں اور اپنے پروردگار کے حضور سجدہ ریزہ ہو کر تابعداری کا درس دے رہے ہیں (السجدہ) اور ارض و سماء میں ہر شے جاندار ہو یا فرشتے، تکبر نہیں کرتے اور اللہ سے ڈر رکھتے ہیں وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملے۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ دو معبود مت بناؤ۔ معبود وہ ایک ہی ہے اسی سے ڈرو۔ ارض و سماء میں سب کچھ اسی کا ہی۔ اسی کی عبادت کرو۔ سب نعمتیں اسی کی طرف سے ملتی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ مصیبت میں اسے پکارتے ہیں اور تکلیف دور ہوجائے تو دوسروں کو شریک بناتے ہو۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ اگر اللہ لوگوں کو ان کی کرتوتوں پر فوراً پکڑتا تو زمین پر ایک بھی ذی روح نہ بچتا۔ یہ تو اس نے اپنے کرم سے ڈھیل دے رکھی ہے لیکن معینہ مدت گزر جانے پر ایک ساعت کی بھی دیر نہ ہوگی۔ سب فنا ہوجائے گا۔ شیطان سے بہکنے والوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

    رکوع 9 ۔۔۔۔ غور کرو چوپایوں کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم تمہیں پینے کو دودھ دیتے ہیں۔ کھجور اور انگور سے تم نشہ والی چیز بناتے ہو۔ ہم نے شہد کی مکھی کی فطرت میں شامل کردیا کہ وہ میووں اور پھلوں کا رس چوسے اور تمہارے لئے شہد بنائے جو بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ انسان خود اپنی حالت پر غور کرے اللہ کو پہچاننے کے لیے اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔

    رکوع 10۔۔۔۔ غلام اور آقا برابر نہیں۔ عورت پیدا کی کہ نسل کا سلسلہ جاری رہے۔ کھانے کو تمہیں ستھری چیزیں دیں۔ وہ بھی ہیں جو ان کو پوجتے ہیں جو ان کے لیے نہ روزی دے سکتے ہیں نہ ارض و سماء میں کسی شے کے مختار ہیں۔ مالک اور محتاج بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ عدل و انصاف کرنے والا ہی سیدھی راہ پر ہے۔

    رکوع 11 ۔۔۔۔ آسمانوں اور زمینوں کے بھید اللہ عزوجل ہی کے پاس ہیں اور جب وہ قیامت کا رادہ کرے گا وہ پلک جھپکنے میں آجائے گی۔ اللہ نے تم کو ماں کے پیٹ سے پیدا کیا اور تم کو کان، آنکھیں اور دل دیا تاکہ احسان مانو۔ پرندوں کو دیکھو کہ ایک قاعدہ قانون کے تحت اڑتے ہیں اور اللہ کے سوا انہیں سنبھالنے اور تھامنے والا کوئی نہیں۔ یہ تمہارے لیے نشانیاں ہیں۔ پھر انسان کے استعمال میں آنے والی اشیاء کا ذکر فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تو ان کو کھول کر باتیں سمجھانا ہے۔ پھر بھی اگر نافرمانی کریں تو آخر ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔

    رکوع 12 ۔۔۔۔ قیامت میں رسول کو کھڑا کیا جائے گا کہ بتائے اس کی قوم نے کیا سلوک کیا۔ منکر بول نہ سکیں گے نہ ہی ان کی توبہ قبول ہوگی اور نہ ہی عذاب میں کمی ہوگی۔ پھر وہ اپنے شریکوں کو پکاریں گے تو شیطان کہے گا کہ تم نے خود خوشی سے میرا کہنا مانا۔ میں نے زبردستی تو نہیں کی تھی۔ فرمایا کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایک عظیم الشان کتاب اتاری ہے جس میں قیامت تک کے لیے ہدایت ہے اور تابعداری کرنے والوں کے لیے رحمت ہے۔

    ===============================================================
     
  6. بارہ رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ چودہ سورۃ النحل رکوع 13تا 16
    پارہ پندرہ سورۃ بنی اسرائیل رکوع 1تا 12
    پارہ پندرہ سورۃ الکھف رکوع 1تا 10

    ===============================================================
    (16) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭سورۃ النحل (جاری)٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 13تا 16
    ===============================================================
    رکوع 13۔۔۔۔ اللہ انسانوں کو حکم دیتا ہے کہ اہل قرابت کے ساتھ عدل و انصاف، رحم ومروت اور نیکی سے پیش آؤ اور بے حیائی اور، ناشائستہ کام، ظلم و زیادتی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ فرمایا: عہد و پیمان کو ہمیشہ پورا کرو، قول دے کر نہ پھرو، دھوکہ دینے کے لیے قسمیں نہ کھاؤ اور نہ انہیں معمولی دنیوی مفاد کے لیے استعمال کرتے پھرو۔ یاد رکھو جو تمہارے پاس ہے، ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے سدا باقی رہے گا۔ دنیا میں صبر کرنے والوں کو اجر ملے گا۔ جب قرآن مجید پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔ یاد رکھو اللہ کی پناہ اور مدد مانگنے والوں پر شیطان کا زور نہیں چلتا اور اس کا زور تو ان پر ہی ہے جو اس کو رفیق سمجھتے ہیں اور رفیق مانتے ہیں۔

    رکوع 14۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ میرے پاک رب نے قرآن اتارا تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم کرے اور مسلمانوں کو ہدایت اور خوشخبری دے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے ایک عجمی شخص سکھاتا ہے، ایسی حماقت وہی کرسکتے ہیں جو اللہ کی نشانیاں دیکھ کر اللہ کو نہیں پہچانتے۔ قیامت کو ان منکروں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ ان بدبختوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے عزیز رکھا تو اللہ نے ان کے دلوں اور آنکھوں اور کانوں پر مہریں لگا دی ہیں اور آخرت میں یہ لوگ خراب ہوں گے اور جو ایمان لائے، ہجرت کی، جہاد کیا، صبر و استقلال کے ساتھ دین پر جمے رہے اللہ ان کی پہلی لغزشیں معاف کردے گا وہ غفور و رحیم ہے۔

    رکوع 15۔۔۔۔ یاد رکھو ایک ایسا دن آئے گا جب ہر کسی کو انصاف ملے گا۔ کوئی ظلم نہ ہوگا۔ جن کے پاس رسولوں کو بھجوایا اور انہوں نے انہیں جھٹلایا تو ان پر عذاب نازل کیا گیا۔ اللہ نے تمہارے لیے حلال اور پاک نعمتیں عطاکی ہیں اللہ کے اس احسان کا شکر ادا کرو۔ اللہ نے حرام کیا ہے تم پر مردار، لہو، سؤر کا گوشت اور وہ جس پر بوقتِ ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ تم اپنی طرف سے کچھ حلال یا حرام نہ کرو۔ یہ اللہ پر بہتان ہوگا جس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ جو جہالت کے باعث کوئی برا کام کربیٹھے پھر نادم ہوکر توبہ اور اصلاح نفس کرے تو بلاشبہ تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔

    رکوع 16۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام فرمانبرداروں میں بہترین نمونہ تھے۔ وہ اپنے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے تھے اور شکرگزار تھے۔ ہم نے دنیا میں بھی انہیں منتخب بندہ بنایا اور آخرت میں بھی نیک بندوں میں شامل ہوں گے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی باتوں کو جاری رکھنے کے لیے دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ اگر کسی سے اذیت کا بدلہ لو تو اسی قدر لو جو تمہیں پہنچائی گئی ہے لیکن اگر صبر کرو تو یہ اللہ کو پسند ہے۔ یاد رکھو اللہ کی نصرت صرف انہی لوگوں کے ساتھ رہتی ہے جو برائیوں سے بچتے اور نیک روش اختیار کرتے ہیں۔

    ===============================================================
    (17) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ بنی اسرائیل ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 12
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ پاک ہے وہ ذات جو رات کو اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ جس کے گرداگرد ہم نے برکت دی ہے اپنی قدرت کے نمونے دکھانے کو لے گیا۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تاکہ وہ بنی اسرائیل کو معرفت کا راستہ دکھائیں اور کتاب سے ہدایت حاصل کریں کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں اور تم انہی لوگوں کی اولاد ہو جن کو نوح علیہ السلام کی کشتی پر بچایا۔ تمہیں تورات میں بتایا گیا کہ دو دفعہ خرابی پھیلاؤ گے۔ اللہ نے ان پر مہربانیاں کیں لیکن وہ پھر نافرمانیوں پر اتر آئے اور ان کی تباہی و بربادی ہوئی۔ یہ قرآن انسانوں کو توحید کی طرف بلاتا ہے اور نیکوکاروں کو اجر کثیر دیتا ہے اور منکرین کو عذابِ الیم۔

    رکوع 2۔۔۔۔ انسان بڑا جلد باز ہے ہم نے رات اور دن بنائے پھر رات کو مٹاکر روشن دن بنایا تاکہ تم روزی تلاش کرسکو اور تمہیں دنوں، مہینوں اور سالوں کی گنتی معلوم ہو۔ قیامت کے دن ہر ایک کا اعمال نامہ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا جو برائی سے بچا اور سیدھی راہ پر رہا وہی کامیاب رہا۔ ہم بدلہ اس وقت لیتے ہیں جب رسولوں کے ذریعے ہدایت بھجوا چکے ہوں۔ نافرمانوں کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔ دنیا کے طالبوں کو نعمتیں دنیا میں ہی دے دیں لیکن آخرت میں دوزخ ٹھہرائی اور جنہوں نے آخرت کو ترجیح دی اور کوشش کی ان کے لیے آخرت میں آرام دہ زندگی ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ورنہ بالکل محروم رہ جاؤ گے۔

    رکوع 3۔۔۔۔ تیرے پروردگار کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر وہ دونوں یا ایک تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں تو ان کے سامنے اف تک نہ کرو اور ان کومت جھڑکو اور ان سے بات ادب سے کرو اور ان کے سامنے عاجزی اور انکساری اور نیازمندی سے جھک جاؤ اور کہو اے رب! ان پر رحم کر جیسے انہوں نے مجھ پر بچپن میں رحم کیا۔ تمہارا رب تمہاری نیت جانتا ہے وہ توبہ کرنے والوں کو معاف کرتا ہے۔ فرمایا: قرابت داروں کو ان کا حق دے دو اور محتاجوں اور مسافروں کی مدد کرو۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اگر تیرے پاس محتاج کو دینے کے لیے کچھ نہیں تو حاجت مند کو سختی سے جواب نہ دے کہ اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے۔ تیرا رب جس کی چاہے روزی کھول دیتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کردے۔

    رکوع 4۔۔۔۔ اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے ہلاک نہ کرو کیونکہ رازق تو ہم ہیں اور زنا کے پاس نہ جاؤ یہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔ ناحق قتل حرام ہے۔ یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ۔ ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلو اور اللہ کے ساتھ کسی کو معبود نہ بناؤ ونہ جہنم میں جھونک دیئے جاؤ گے۔

    جاری۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏جون 20, 2016
  7. بارہ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 5 ۔۔۔۔ قرآن حکیم کا سب سے اہم مقصد انسانوں کو توحید سکھلانا ہے۔ دیکھو کائنات کی ہر شے اللہ کی حمد و ثناء میں مصروف خود کو مخلوق ہونے کا اقرار کرتی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو وہ لوگ جو آخرت کو نہیں مانتے ہم ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ وہ توحید کی آیات پر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے جھوٹے معبودوں کا ذکر ہی پسند ہے۔ پھر وہ آپس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گمراہی کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو ہم نئے سرے سے کیسے زندہ ہوں گے۔ وہ کیا جانیں کہ یہ اللہ کے لیے کیا مشکل ہے۔ قیامت برحق ہے اور جب وہ پکارے گا تو سب اس کے حکم کی تعمیل میں اس کے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہی بات کہیں جو بہتر ہو۔ شیطان ان میں جھگڑا کرتا ہے بیشک وہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے جو ارض و سماء میں ہے۔ فرمایا: ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور دی۔ تم اپنے جھوٹے معبودوں کو پکار کر دیکھو کوئی تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔ مددگار فقط اللہ ہے۔ جن کو یہ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب تک وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔ قیامت سے پہلے نافرمانوں کی بستیوں کو تباہ برباد کردیا جائے گا۔ قوم ثمود کو دیکھو کس طرح نافرمانیوں کے باعث ایسے تباہ ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ تخلیق آدم اور ابلیس کا سجدہ سے انکار اور پھر اسے دھتکار دیئے جانے کا تذکرہ فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے واسطے دریا میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تو روزی کما سکے۔ پھر جب دریا میں طوفان ہو تو اللہ کو پکارتے ہو اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھول جاتے ہو۔ پھر جب تمہیں خشکی پر پہنچا دیا جاتا ہے تو اطمینان کا سانس لیتے ہی اللہ کو بھول جاتے ہو۔ یہ بڑی ناشکری ہے۔ یاد رکھو اگر وہ تم پر سخت عذاب مسلط کردے تو کسی کو بچانے والا نہ پاؤ گے۔ ہم نے انسان کو بہت نعمتیں عطاکیں کہ وہ شکرگزار بندے بنیں لیکن بہت کم شکر گزار ہیں۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ قیامت کے روز سب کو حاضر کیا جائے اور اعمال نامہ انہیں دیا جائے گا۔ جن کے دائیں ہاتھ میں ہوگا، خوش ہوں گے۔ ان کو انعام ملیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا محور صرف اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور بقیہ تمام معبودوں کے بطلان کا اعلان ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرکے مکہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکال کر چند روز بھی چین سے نہ رہیں گے۔ پھر یہ ہمیشہ کے لیے باہر نکال دیے جائیں گے۔ یہی ہمارا مقرر کردہ قاعدہ ہے۔

    رکوع 9 ۔۔۔۔ آفتاب ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کے اوقات میں اپنے پروردگار کی عبادت کیا کرو۔ اور فجر کے وقت بھی لمبی قرأت کے ذریعے ایک نماز ادا کیا کرو۔ پھر رات کی تنہائیوں میں تہجد بھی پڑھا کرو یہ تمہارے لیے نفل ہے اور بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کردے۔ اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں بھی تو لے جا، سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال، سچائی کے ساتھ نکال۔ اور اعلان کردو حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ ہم نے قرآن نازل فرمایا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔

    رکوع 10 ۔۔۔۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں روح کیا ہے، تو کہہ دیں کہ یہ میرے رب کا امر ہے اور تم لوگوں کو اس بارے میں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جو کچھ ملا ہے اپنے رب کی رحمت سے ہے اور پروردگار کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا فضل ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزے مانگتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ قرآن سے بڑھ کو کونسا معجزہ ہے۔ لیکن یہ تو چشمے، باغات، نہروں وغیرہ کے معجزے چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ میں تو ایک بشر ہوں اور پیغام پہنچانے والا ہوں۔

    رکوع 11۔۔۔۔ کیا اس بات نے کافروں کو ایمان لانے سے روک رکھا ہے کہ اللہ نے ہدایت کے لیے آدمی کو بھیجا ہے۔ ان سے کہہ دیں کہ اگر زمین پر فرشتے بستے تو اللہ فرشتوں کے ذریعے پیغام بھیجتا ۔ یہ ان کی بہانہ بازیاں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ریزہ ریزہ ہڈیوں سے دوبارہ کیسے زندہ ہوگا تو کہہ دیں جس اللہ نے زمین و آسمان بنائے ہیں وہ ایسوں کو بھی بنا سکتا ہے۔

    رکوع 12 ۔۔۔۔ ارشاد ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے فرعون کو واضح معجزات دکھائے لیکن اس نے کہا یہ جادو ہے وہ جان بوجھ کر حقیقت کا انکار کرتا رہا۔ قرآن برحق ہے اور اے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نذیر و بشیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ قرآن تمہارے سامنے ہےمانو یا نہ مانو مگر حقیقت حال جاننے والوں نے اسے پہچان لیا اور وہ آیتیں پڑھ کر سجدہ میں گر جاتے ہیں اور کہتے ہیں پاک ہے ہمارا رب اور پھر سجدہ میں گر جاتے ہیں (السجدہ)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ سبھی تعریفوں کا مستحق صرف اللہ ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی کوئی اولاد نہیں، سبھی اچھے نام اسی کے ہیں اسے اللہ کہو یا رحمٰن۔ اس کی بڑائی بیان کرتے رہو۔

    جاری۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏جون 20, 2016
  8. بارہ رمضان المبارک(حصہ سوم)


    ===============================================================
    (18 ) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الکہف ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 10
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا اور اس میں کچھ کجی نہ رکھی تاکہ وہ ایمان لانے والوں کو خوشخبری اور منکروں کو آفات سے ڈرائے۔ رسول کا کام فقط راستہ بتانا اور اس پر چل کر دکھانا ہے۔ پھر اصحابِ کہف کا قصہ بیان فرمایا۔

    رکوع 2۔3۔۔۔۔ اصحابِ کہف کی تفصیل ہے اور اس قصے میں مفید سبق یہ ہے کہ اللہ ہی کو رب ماننے اور فقط اسی کی عبادت کرنے سے دل کو بڑی تقویت ملتی ہے۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ یہ نہ کہیے کہ یہ کام میں کل کروں گا مگر یہ کہ اگر اللہ چاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انہی سے ہر وقت میل جول رکھو جو صبح و شام اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اسی کی رضا کے طالب ہیں۔ منکروں کے لیے عذابِ الیم تیار رکھا ہے اور ایمان والوں کو انعام میں جنت کے باغات ہیں۔ وہ اچھی جگہ اور اچھا بدلہ ہے۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ یہاں سے دو شخصوں کی تمثیل بیان کی کہ ایک شخص کو خوبصورت باغ عطا کیے تو وہ اپنی خوشحالی پر اتراتا اور اللہ کی ناشکری کرتا، قیامت کا بھی مذاق اڑاتا۔ دوسرا شخص صاحبِ ایمان و یقین مگر معاشی طور پر تہی دست تھا۔ اس نے باغ والے کو کہا کہ بدبخت اللہ کی نافرمانی نہ کرو جس نے تمہیں سب کچھ دیا ہے۔ وہ باز نہ آیا اور آخرکار ناگہانی آفت سے اس کے باغ برباد ہوگئے اب وہ کفِ افسوس ملتا کہ کاش ایمان رکھتا۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ ارشاد ہوا کہ آسمان سے پانی برسا۔ تمام اطراف سر سبزو شاداب ہو گئے۔ دیکھنے کو یہ بہار ابدی ہے مگر چار دن بعد سارا سبزہ سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا اسی طرح دنیوی زندگی ہے۔ آج ہری بھری تو کل اجڑی ہوئی۔ مال اور بیٹے زندگی کی رونق ہیں لیکن صرف نیکی ہی باقی رہتی ہے کہ اجر پاسکے۔ قیامت کے دن سب ہوں گے ہر ایک کے ہاتھ میں اعمال نامہ ہوگا۔ گنہگار ڈریں گے جو کیا تھا سامنے پائیں گے۔ تمہارا رب ظلم نہ کرے گا۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ جب ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو رفیق ٹھہراتے ہو۔ میرے سوا وہ تو تمہارے بھی دشمن ہیں۔ صرف بے انصاف لوگ ہی اسے رفیق بنائیں گے۔ اللہ عزوجل فرمائے گا پکارو ان کو جن کو میرے سوا پکارتے تھے تو کوئی جواب نہ آئے گا۔ پھر انہیں ہر جانب آگ ہی نظر آئے گی اور انہیں یقین ہوجائے گاکہ اب اسی میں جلتے رہنا ہے۔ قرآن مجید میں اسی لئے انسان سے کہا جارہا ہے کہ اللہ سے دل لگاؤ ورنہ تباہ ہوجاؤ گے۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ قرآن حکیم میں ہم نے لوگوں کو بات مثالیں دے دے کے سمجھائی۔ کیا ایمان لانے، استغفار کرنے سے ان کے اگلوں کی رسم نے روکا ہوا ہے کہ عذاب کا انتظار کریں۔ اور سنو اللہ نے پیغمبر اسی لئے مبعوث کیے کہ مومنوں کو خوشخبری دیں اور کافروں کو نافرمانی سے ڈرائیں۔ لیکن انہوں نے آیات کو ٹھٹھا سمجھ لیا اس سے بڑا ظالم کون ہے جس کو ہدایت پہنچی اور اس نے منہ پھیر لیا۔ ایسے لوگوں کو ماضی کے سرکشوں کا انجام نہیں بھولنا چاہیے اور اپنے حال سے سبق لینا چاہیے کہ حق و صداقت سے روگردانی کی پاداش میں قومیں کس طرح صفحۂ ہستی سے مٹاڈالی گئیں۔

    رکوع 9۔10 ۔۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا جس میں کشتی ڈبونا، لڑکے کا قتل اور دیوار کی درستگی بیان کی گئی۔ کشتی محنت کشوں کی تھی اس میں خضر علیہ السلام نے سوراخ کرکے ناکارہ کردیا کہ ظالم بادشاہ کے ہاتھ نہ آئے اور محنت کش معمولی مرمت سے اسے کام میں لاسکیں۔ لڑکے کے والدین نیک اور بڑے ایمان دار تھے۔ خضر علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ وہ انہیں سرکشی اور کفر سے عاجز نہ کردے سو لڑکے کو قتل کردیا۔ دیوار گرنے والی شکستہ تھی اور اس کے نیچے دو یتیموں کا مال دفن تھا۔ خضر علیہ السلام نے دیوار گرا کر دوبارہ تعمیر کردی کہ ان کا خزانہ محفوظ رہے۔

    ===============================================================
     
    Last edited: ‏جون 20, 2016
  9. تیرہ رمضان المبارک (حصہ اول)
    پارہ پندرہ سورۃ الکہف رکوع 11 تا 12
    پارہ سولہ سورۃ مریم رکوع 1 تا 6
    پارہ سولہ سورۃ طٰہٰ رکوع 1 تا 8
    پارہ سترہ سورۃ الانبیاء رکوع 1 تا 4

    ===============================================================
    (18 ) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃالکہف (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 11 تا 12
    ===============================================================
    رکوع 11 ۔۔۔۔ ذوالقرنین کا قصہ بیان ہوا۔ پھر قیامت کا احوال بیان فرمایا کہ پہلا صور پھونکتے ہی سب کچھ تباہ و فنا ہوجائے گا۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور سب میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔ منکروں پر دوزخ ہوگی جو ان کی مہمانداری کے لئے ہے۔

    رکوع 12 ۔۔۔۔ جو لوگ حق و صداقت کا انکار کرتے رہے اور اللہ کو چھوڑ کر اس کے بندوں کو کارساز بناتے ہیں اچھی طرح سن لیں کہ ان کو اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ ہی دوزخ سے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے اللہ کی باتوں اور رسولوں کا مذاق اڑایا۔ ایمان والے فردوس کے باغات میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا علم اتنا وسیع ہے کہ ایک سمندر تو کیا اور سمندر بھی سیاہی بن جائیں پھر بھی اللہ کا علم نہ لکھا جائے۔ فرمایا: کہیے میں بھی ایک آدمی ہوں تم جیسا۔ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ نیک عمل کرو اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ کیونکہ مرنے کے بعد اعمال کا حساب دینے کے لیے ایک دن اس کے سامنے حاضر ہونا ہے۔

    ===============================================================
    (19) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ مریم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 6
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا تذکرہ بیان فرمایا جو اللہ کے نبی اور عبادت گزار بندے تھے۔ زکریا علیہ السلام جو ضعیفی کی عمر کو پہنچ چکے تھے اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ میری عورت بھی بانجھ ہے مجھے اپنے پاس سے ایک وارث اور کام سنبھالنے والا بخش دے۔ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں یحییٰ علیہ السلام جیسا فرمانبردار اور پاکیزہ فطرت بیٹا عطا فرمایا۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ حضرت مریم علیہ السلام کا ذکر بیان ہوا جو ایک باحیا اور پاک دامن ناکتخدا خاتون تھیں جنہیں اللہ نے شوہر نادیدگی کی حالت میں معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا جلیل القدر فرزند عطا فرمایا۔ لوگوں نے سیدہ مریم علیہ السلام پر تعجب کیا تو گود سے بچے نے جواب دیا میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے کتاب دی گئی ہے اور نبی بنایا گیا ہے اور خیرو برکت لایا ہوں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے نماز اور زکوٰۃ کا اور اپنی ماں کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کا۔ اور اللہ کا مجھ پر سلام ہے جس دن پیدا ہوا، جس دن مروں گا اور پھر دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔ فرمایا: صرف اللہ کی بندگی کرو وہی سیدھی راہ ہے۔ قرآن آج تم کو متنبہ کرتا ہے کہ اس کی ہدایت کی پیروی نہ کروورنہ قیامت کو پچھتاؤ گے۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام سچا نبی تھا اس نے عقیدۂ توحید کی خاطر اپنے باپ سے بھی قطع تعلق کرلیا۔ باپ نے سنگساری کی کی دھمکی دی۔ ابراہیم علیہ السلام توحید پرستی کے جرم میں گھر، قوم، وطن عراق چھوڑ کر شام کے علاقہ کنعان میں چلے گئے جہاں اللہ نے انہیں اسحاق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام جیسی اولاد عطافرمائی اور دونوں کو نبی کیا۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا کہ وہ میرے چنے ہوئے نبی اور پیامبر تھے۔ جن کو کوہِ طور کی دائیں جانب بلا کر راز کی باتیں بتلائیں اور ان کی مدد کے لیے بھائی ہارون کو نبی بناکر ساتھ کردیا۔ اسمعٰیل علیہ السلام وعدہ کا سچا، پیامبر اور نبی تھا اور گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا۔ پھر ادریس علیہ السلام کا ذکر آیا کہ سچا نبی تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نبی بنایا اور جن پر خاص انعام کیا۔ جب انہیں ہماری آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے دل پر گہرا اثر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور ہمارے سامنے سجدہ میں گر پڑھتے ہیں (السجدہ)۔ فرمایا: پھر وہ آئے جو اپنی خواہشات کی پیروی میں نماز کھو بیٹھے۔ قیامت کا انکار کیا، شرک کے مرتکب ہوئے۔ پھر جس نے توبہ کی اور نیک عمل کیے وہ بہشت میں جائیں گے۔ جنت کے وارث پرہیزگار ہیں۔ پس تو اسی کی بندگی کر اور بندگی پر قائم رہ۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ بعض لوگ تعجب کرتے ہیں کہ کیا مجھے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ جس نے پہلے بنایا وہ دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ہے۔ شیطان کے ہمراہی ایک جگہ اکٹھے کیے جائیں گے اور انہیں گھٹنوں کے بل جہنم کے گرد گرادیں گے۔ ہر برائی کے قائد/پیشا کو الگ کرکے زیادہ سزا ملے گی۔ صاحبان تقویٰ جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ گمراہیوں کو مقررہ مدت کے لیے مہلت دی جاتی ہے جس کے بعد عبرتناک سزا دنیا اور آخرت میں دی جاتی ہے۔ یہ اللہ کی آیات و احکامات کا مسلسل انکار کرنے والے ہیں۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ اللہ کے منکرین پر شیطان مسلط کردیئے جاتے ہیں جو انہیں ہر وقت برائی کی طرف اکساتے ہیں اور مہلت ختم ہونے تک ایک ایک لمحہ پورا ہوتا ہے۔ پھر اعمال کی سزا بھگتیں گے۔ سفارش کی اجازت صرف اللہ کے مقبول بندوں کو ہوگی۔ جو نادان گستاخی کرتے ہیں کہ اللہ صاحب اولاد ہے تو یہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے۔ اللہ کا کوئی ہمسر نہیں اور بقا صرف اللہ کو ہے جس نے قرآن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں اتار کر آسان کردیا۔ دیکھو لو کہ نافرمانوں کی نسلیں تباہ ہوچکیں ہیں اور ان کا کوئی وجود باتی نہیں۔

    جاری۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏جون 20, 2016
  10. تیرہ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    ===============================================================
    (20) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ طٰہٰ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 8
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ قرآن مجید ان کی نصیحت کے لیے اتارا ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس نے زمین و آسمان بنائے۔ وہ بڑی رحمت والا عرش پر قائم ہے۔ کائنات کی ہرشے اللہ کی ہے جو ہر کھلی اور چھپی باتوں اور بھیدوں کو جانتا ہے اور وہی معبود ہونے کے قابل ہے۔ موسیٰ علیہ السلام جنگل میں راستہ بھول گئے۔ آگ دیکھی اور اس کی طرف گئے۔ پہنچے تو آواز آئی میں تیرا رب ہوں اور رسالت مل گئی اور ہدایت ملی کہ میرے سوا کسی کی بندگی نہیں سو میری بندگی کر۔ نماز قائم کر اور قیامت آنے والی ہے اس کا وقت کسی کو نہیں بتایا تاکہ اس وقت کے انتظار میں رہیں اور کوئی برا کام نہ کریں۔ موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا یہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے۔ بولا لاٹھی۔ فرمایا: اسے زمین پر ڈال دو تو وہ دوڑتا سانپ بن گئی اور پکڑا تو لاٹھی۔ فرمایا: اپنا ہاتھ بغل میں رکھ۔ نکلا تو سورج کی طرح چمکتا نکلا۔ یہ نشانیاں دے کر فرعون کی سرکوبی کو جانے کا حکم دیا۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی پروردگار میرا سینہ کشاہ اور کام آسان کر دے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے اور میرے بھائی ہارون کو میرا کام بٹانے والا کردے تاکہ ہم دونوں مل کر تیرا حکم بجالائیں۔ فرمایا: موسیٰ علیہ السلام تیری درخواست منظور ہے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، بچ کر فرعون کے گھر پہنچنا اور پرورش پانا یعنی پہلے احسانات کا احوال بیان کیا۔ ارشاد ہوا کہ فرعون نے بہت سر اٹھایا ہوا ہے تم دونوں اس کے پاس جاؤ۔ نرمی سے بات کرو شاید وہ سوچے یا ڈرے اور فرمایا مت ڈرو میں ساتھ ہوں، دیکھتا اور سنتا ہوں۔ کہو کہ ہم اپنے رب کے پیامبر ہیں۔ بنی اسرائیل پر ظلم نہ کرو انہیں غلامی سے آزاد کردو۔ یہ گئے اور سب کا سب کہا۔ فرعون کج بحثی پر اتر آیا۔ پوچھا تمہارا رب کون ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے نشانیاں بیان کیں۔

    رکوع 3۔۔۔۔ فرعون نے جادوگروں کو مقابلے کے لیے بلا لیا۔ انہوں نے زمین پر رسیاں پھینکیں وہ سانپ بن گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا جو سانپ بن کر ان سب سانپوں کو کھا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی باتیں سن کر جادوگر اللہ پر ایمان لے آئے اور سجدہ میں گر گئے اور فرعون کی دھمکیوں کے باوجود عقیدۂ توحید پر قائم رہے اور شرک سے بیزار۔ گنہگاروں اور نافرمانوں کے لیے دوزخ اور صاحبانِ ایمان کے لیے جنت دائمی ٹھکانہ ہے۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ میرے بندوں کے ساتھ رات یہاں سے نکل جائے۔ راہ میں بحر قلزم آئے تو پانی پر عصا مارے۔ وہاں راہ بنے تو اس سے چل کر آگے بڑھے۔ فرعون نے پیچھا کیا وہ بھی بحرقلزم کے خشک راہ میں داخل ہوا۔ فرعون اور اس کا لشکر درمیان میں تھے کہ موسیٰ علیہ السلام پار پہنچ گئے تو پانی مل گیا اور یوں فرعون لشکر سمیت سمندر میں ڈوب کر تباہ ہوگیا۔ اے بنی اسرائیل یاد کرو کہ تم کو تمہارے دشمن سے چھڑایا، تمہیں صاف ستھری روزی من و سلویٰ عطا کی مگر تم نافرمان بنے اور میرا غضب نازل ہوا۔

    موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر خاص عبادت کے لیے گئے اور قوم کی نگرانی کے لیے بھائی ہارون کو چھوڑ گئے۔ بعد میں قوم نے سونے کا بچھڑا پوجنا شروع کردیا جسے سامری نے بنایا۔ اللہ نے وحی کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کو مطلع کیا کہ قوم شرک پرستی میں مبتلا ہوگئی ہے۔ واپس لوٹے، قوم کو اللہ کے احسان بتائے اور کہا کہ وہ مشرکوں کی باتوں میں آکر شرک میں مبتلا ہوگئے۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ ہارون علیہ السلام نے بھی قوم کو سمجھایا کہ حقیقی پروردگار صرف تمہارا رب ہے تم کیوں بہک گئے ہو لیکن وہ نہ مانے۔ سامری سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے ایک مٹھی مٹی رسول (جبریل علیہ السلام) کے پاؤں کی لی اور وہ بچھڑے میں ڈال دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا جادور ہوجا اور بچھڑے کو جلا کر دریا میں اس کی راکھ پھینک دی اور قوم سے کہا کہ معبود تو صرف اللہ ہی ہے۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ اللہ پہاڑوں کو اُڑا دے گا اور زمین کو صاف میدان میں بدل دے گا۔ اس دن رحمٰن کے ڈر سے سب کی آوازیں پست ہوں گی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی مگر جسے اللہ نے اجازت دی۔ اس دن سب اس کے آگے جھکے ہوں گے۔ ایمان والوں کو کوئی خوف نہ ہوگا۔ ہم نے قرآن عربی زبان میں نازل کیااور اس میں باتیں پھیر پھیر کر سنائیں تاکہ ہدایت پاؤ۔ اللہ ہی عالی مرتبت و بادشاہ حقیقی ہے۔ پس اسی کے آگے دعا مانگو کہ میرے علم دین میں فراوانی اور زیادتی عطا فرما۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم اور ابلیس کا انکار۔ پھر آدم کو ایک کام سے منع کیا گیا لیکن وہ ابلیس کے بہلاوے میں آگئے اور بھول کے نتیجے میں جنت چھوڑنا پڑی۔ فرمایا: جس نے ہماری یاد سے منہ موڑا ہم قیامت میں اسے اندھا اٹھائیں گے کیونکہ اس نے دنیا میں حق و صداقت دیکھنے اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنے اور کلام الٰہی میں غور و فکر کرنے سے ہمیشہ چشم پوشی کی۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ فرمایا: اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! اگر تمہارے پروردگار سے یہ قانون مقرر نہ ہوتا کہ انکار و بدعملی کے نتائج ایک معینہ وقت پر ظہور میں آئیں گے تو منکرینِ حق کو کب کا عذاب ہوچکا ہوتا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر کریں اور صبح و شام اور رات کو اللہ کی بندی میں مصروف رہیں۔ اپنے افرادِ خانہ کو باقاعدگی کے ساتھ پابندِ صلوٰۃ کریں اور بہانہ بازوں کو آگاہ کردیں کہ انجام کے منتظر رہو۔ بہت جلد جان لوگے کہ کون صراطِ مستقیم پر تھا اور کون منزل مراد پاگیا۔

    جاری۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏جون 20, 2016
  11. تیرہ رمضان المبارک (حصہ سوم)
    پارہ سترہ

    ===============================================================
    (21) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ انبیاء ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 4
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ قیامت کا وقت اب قریب آگیا ہے مگر افسوس کہ تم دنیا کے دھندوں میں پھنس کر آخرت سے غافل پڑے ہو۔ ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ تمہاری مانند ایک بشر ہی تو ہے کیا تم اس کا سحر مانتے ہو؟ اسے کہو کہ کوئی نشانی لائے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی مرد ہی نبی بھیجے۔ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ کھاتے نہ تھے، ان کے بدن اسی طرح کے نہ تھے اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔

    رکوع 2۔۔۔۔ دیکھو ہم نے کتنی بستیاں جو گنہگار تھیں، ہلاک کردیں۔ ان کی جگہ دوسری قوموں کو پیدا کیا۔ جب وہ بھی شرک میں مبتلا ہوئے اور ہمارے رسولوں کا کہا نہ مانا تو عذاب نے ان کو گھیر لیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔ زمین و آسمان کی تخلیق تفریحاً نہیں کی، یہ مقصد کے تحت ہے۔ انسان کو بھی زندگی کھیل کود ہی میں نہ گزارنی چاہیے یہاں حق و باطل کی جنگ رہتی ہے۔ باطل بڑھ جائے تو اسے نیست و نابود کردیا جاتا ہے۔ انسان کو حق کا ساتھ دینا چاہیے۔ کائنات کی سب مخلوقات دن رات اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور تیرے سوا کوئی شے سرکشی نہیں کرتی نہ اس کے حکم کی ادائیگی میں کاہلی دکھاتی ہے۔ معبود تو ایک اللہ ہی ہے وہی عرش کا مالک ہے اور اس کا کوئی مددگار نہیں۔

    رکوع 3۔۔۔۔ کائنات کی پیدائش کی تفصیل بیان فرمائی۔ فرمایا کہ ہم نے انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی۔ ہر زندہ کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ خیر و شر کے ذریعے آزمائش ہوگی اور ہر نیک و بد کو اور ہر فرد کو ایک دن اپنے خالق کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ کاش دینِ حق کے منکر اس وقت کو جان سکتے جب دوزخ کی آگ ان کو ہر طرف سے گھیر لے گی، انہیں جلائے گی اور کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکے گا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوگا اور انہیں کوئی مہلت نہ مل سکے گی۔

    رکوع 4۔۔۔۔ حق تعالیٰ اگر تمہیں پکڑنا چاہے تو تمہیں کون پناہ دے سکتا ہے؟ جن فرضی خداؤں پر تم تکیہ کیے ہوئے ہو وہ بیچارے تو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔ جان لو کہ متاع زیست دینے والی واحد ذات اللہ ہی ہے۔ جو لوگ ہدایت حاصل نہیں کرنا چاہتے تو آخرکار تباہی سے ہمکنار ہوں گے۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ ہر ایک کا رائی کے برابر عمل بھی ضائع نہ ہوگا۔ فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو تورات دی تھی اور اب قرآن نازل فرمایا ہے جس میں پچھلی کتابوں کا خلاصہ درج ہے۔ کیا ایسے فائدہ مند نصیحت نامہ کا اقرار کرتے ہو؟

    ===============================================================
     
  12. چودہ رمضان المبارک (حصہ اول)
    پارہ سترہ سورۃ الانبیاء رکوع 5تا 7
    پارہ سترہ سورۃ الحج رکوع 110
    پارہ اٹھارہ سورۃ المومنون رکوع 1تا 6
    پارہ اٹھارہ سورۃ النور رکوع 1تا 2

    ===============================================================
    (21) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الانبیاء (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 5تا 7
    ===============================================================
    رکوع 5۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت حق اور ان کی قوم کے رد عمل کا ذکر فرمایا۔ قوم نے بتوں کی مخالفت کے جرم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں ڈالا تو اللہ نے اپنے بندے کی مدد کی اور آگ کو حکم دیا کہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا تاکہ ابراہیم علیہ السلام تیرے اندر آرام سے صحیح سلامت رہیں۔ یوں حق و صداقت کا بول بالا ہوا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کو عراق سے شام پہنچایا اور اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام انعام میں دیئے اور انہیں پیشوا بنایا اور انہیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ اداکرنے کا حکم دیا۔ لوط علیہ السلام کو سمجھ اور دانائی دی اور گندے کام کرنے والوں کی بستی سے بچاکر نکالا اور اپنی رحمت میں لے لیا۔

    رکوع 6۔۔۔۔ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، اسمٰیل علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، ذوالکفل علیہ السلام، یونس علیہ السلام اور زکریا علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ یہ سب اپنے خالق کو پکارنے والے اور صرف اسی کے آگے جھکنے والے تھے۔ پھر حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی قدرت کی نشانی بتایا۔

    رکوع 7۔۔۔۔ جو صاحبِ ایمان اعمالِ صالح کی بجاآوری میں محنت و سعی کرے گا اس کی محنت اور کوشش رائیگاں نہ جائے گی کیونکہ ہر عمل اللہ کے ہاں قلمبند ہورہا ہے۔اور جس بستی کا مقدر تباہی ہوچکا وہ کسی صورت شرک و سرکشی چھوڑ کر توحید اور فرمانبرداری کی راہ پر نہ آئیں گے۔ پھر علاماتِ قیامت بیان فرمائیں۔ فرمایا کہ اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو، دوزخ کا ایندھن ہیں۔ اگر یہ بت معبود ہوتے تو دوزخ تک نہ جاتے جبکہ مقبول بندے جنت کی راحتوں بھری دنیا میں ہوں گے اور انہیں جنت کی سرزمین کا وارث بنایا جائے گا۔
    لوگو! رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے، جنہوں نے اعلان کیا کہ تمام انسانوں کا معبود، معبودِ واحد ہی ہے۔ پس اسی کے آگے سرِ تسلیم خم کرو اور یقین کرو کہ وہ ہر بات کو جانتا ہے جو برملا کہی جائے یا صیغۂ راز میں رکھی جائے۔


    ===============================================================
    (22) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ حج ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 10
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ لوگو! اپنے رب سے ڈرو۔ قیامت کے دن دودھ پلانے والی بچوں کو دودھ پلانا بھول جائیں گی۔ حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے۔ اللہ کا عذاب دیکھ کر لوگوں کے ہوش اڑے ہوں گے۔ بعض بے علم اللہ کے متعلق جھگڑتے اور ابلیس کے پیرو ہیں۔ شیطان کے رفیقوں کا راستہ دوزخ کو پہنچتا ہے۔ اگر تم کو دوبارہ جی اٹھنے پر شک ہے تو غور کرو کہ کس طرح تمہیں ایک قطرہ پانی سے بنایا، پھر کوئی بچپن یا جوانی میں مرجاتے ہیں، کچھ بڑھاپے تک زندہ رہتے ہیں۔ پھر زمین پر غور کرو کہ پانی برسنے سے کس طرح سرسبز ہوجاتی ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ قیامت آنے میں کوئی شبہ نہیں جب سب مُردے اٹھائے جائیں گے۔ بدکاروں، خود پرستوں، ٹیڑھی عقل والوں کو دوزخ کی دہکتی آگ میں جانا ہے۔

    رکوع 2۔۔۔۔ متزلزل یقین دنیا اور آخرت گنوا بیٹھتا ہے۔ شرک تباہی کا سبب ہے اور نیکو کاروں کا بدلہ جنت ہے۔ بندگی کا تقاضا ہے کہ بندہ مالک کا ہر حکم سرِتسلیم خم کر کے بخوشی قبول کرے۔ قیامت کے دن اللہ مسلمان، یہود، صابی، نصاریٰ، مجوسی اور مشرکین مکہ کے درمیان فیصلہ کرے گا کہ کون حق پر تھا، اس لئے کہ اللہ ہر ایک پر چشم دید گواہ ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے اور جو اس اکیلے کے حضور سجدہ ریزی کو گراں سمجھتا ہے اس کو آخرت میں آگ کا لباس پہنایا جائے گا (السجدہ)۔ ان پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا۔ لوہے کے گرز مارے جائیں گے اور اگر نکلنا چاہیں تو واپس دھکیل دیئے جائیں گے۔

    رکوع 3۔۔۔۔ ایمان والوں کو انعامات سے نوازا جائے گا اور جنت ان کا دائمی ٹھکانہ ہوگا اور منکرین مسلمانوں کو مسجد الحرام جانے سے روکتے تھے انہیں دردناک عذاب ملے گا۔

    جاری۔۔۔۔
     
  13. چودہ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 4۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ یہاں بیت اللہ بنائے جس میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہوگی اور اسے پاک رکھا جائے طواف، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے۔ اور لوگوں کو اس کے حج کے لئے پکارے۔ وہ قربانی دیں اور اس گھر کا طواف کریں۔ فقط اللہ کی عبادت کرو۔ جھوٹ سے بچو اور دوسروں کو دھوکا نہ دو اور شرک تباہ کن ہے۔

    رکوع 5۔۔۔۔ اللہ نے ہرامت کے لیے قربانی کو عبادت قرار دیا اور یہ کہ ذبح صرف اللہ کے نام پر کیا جائے جو تمام انسانوں کا واحد رب ہے۔ خوشخبری دیں ان کو جن کے دل اللہ کی عظمت و جلال کے تصور سے لرز جاتے ہیں، مصائب و آلام، صبر و استقلال سے برداشت کرتے ہیں۔ نماز پابندی سے ادا کرتے اور خوشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کے پاس گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا اخلاص اور فرمانبرداری کا جذبہ پہنچتا ہے۔

    رکوع 6۔۔۔۔ مشرکین مکہ سے لڑائی کی اجازت مل گئی۔ ایمان والوں کی پہچان یہ ہے کہ جب ان کو اقتدار ملے تو ہ نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں، اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ لیکن انجام ہر بات کا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔پھر منکروں کا تذکرہ فرمایا جن کا انجام تباہی تھا۔

    رکوع 7۔۔۔۔ ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہیں کہ میں تو تمہیں تمہارے اعمال کے نتیجوں سے خبردار کرنے والا ہوں۔ جو یقین اور نیک کام کریں ان کی بخشش ہوجائے گی اور منکروں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ شیطان تو نبیوں کے پیغام میں شبہے ڈالتا رہا ہے اور پختہ یقین کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اللہ سیدھا راستہ دکھا دے گا۔ مگر منکر صراطِ مستقیم نہ پاسکیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔ پھر اس دن یقین کے ساتھ بھلائیاں کرنے والے جنت اور منکروں کے لیے ذلت کا عذاب ہوگا۔

    رکوع 8۔۔۔۔ گھر، وطن اور جاں نثار کرنے والوں کو اللہ آخرت میں عمدہ روزی اور پسند کی جگہ عطا کرے گا۔ اللہ نے مظلوم کی مدد کا وعدہ کیا ہے۔ وہی سچا معبود ہے اس کے سوا لوگوں کے بنائے ہوئے سب معبود جھوٹے ہیں۔ وہی سب سے بلند اور برتر ہے۔ اس سے بڑا کوئی نہیں۔ وہی آسمان سے پانی برساکر زمین کو سر سبز کرتا ہے۔ وہ کائنات کی ہر شے کا مالک بڑا خوبیوں والا بے پرواہ ہے۔

    رکوع 9۔۔۔۔ اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیاں بیان کیں۔ فرمایا کہ ہر اُمت کے لیے بندگی کی ایک راہ مقرر کردی گئی ہے۔ لوگ اس میں نہ مین میخ نکالیں نہ فضول جھگڑے کریں۔ اللہ قیامت کے دن تم میں فیصلہ کردے گا۔ افسوس کہ لوگ اس کو چھوڑ کر ایسوں کی بندگی کرتے ہیں جن کی ان کے پاس نہ سند ہے نہ دلیل۔ جب ان کے روبرو تلاوت کی جاتی ہے ان کے چہرے خبث باطنی سے سیاہ ہوجاتے ہیں۔ انجام کار انہیں آگ کا ایندھن ہی تو بننا ہے۔

    رکوع 10۔۔۔۔ سنو جو لوگ اللہ کے سوا تمہارے معبود بنے بیٹھے ہیں وہ سب مل کر ایک مکھی بھی نہیں بناسکتے۔ اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو چھڑا نہیں سکتے۔ یاد رکھو کائنات میں صرف اللہ ہی غالب اور طاقت ور ہے۔ ایمان والوں کا یہی کام ہے کہ رکوع کریں، سجدہ کریں، اپنے رب کی بندگی کریں، بھلائی کریں تاکہ ان کا بھلا ہو۔ احکام الٰہی بجالانے میں اپنی جان و مال سب کچھ لگادو۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے منتخب کیا۔ تمہارا نام مسلم رکھا۔ قرآن کے ذریعے ہدایت دی اور اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ جو کچھ تم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے آنے والوں کو سکھاؤ۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کو مضبوط پکڑو، وہی تمہارا کارساز ہے، مالک و مددگار ہے۔

    جاری۔۔۔۔
     
  14. چودہ رمضان المبارک (حصہ سوم)
    پارہ اٹھارہ


    ===============================================================
    (23) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ المومنون ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 6
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ فلاح حاصل ہوئی ایمان والوں کو جو نماز میں جھکنے والے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور نکمی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی ضرورت اپنی بیویوں سے پوری کرتے ہیں۔ امانتوں اور عہد کا پورا کرتے ہیں، نمازوں سے خبردار رہتے ہیں، وہی جنت کے وارث ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ پھر انسان کی پیدائش اور زندگی کے بعد کے مرحلے بیان فرمائے۔ فرمایا کہ ہم نے آسمان سے پانی ناپ کر برسایا۔ تمہارے لئے باغات اُگائے، ان میں میوے پیدا کیے اور پینے کو مویشیوں کے پیٹ سے دودھ۔ تم ان سے کھانے کو گوشت، سواری اور باربرداری کا کام بھی لیتے ہو اور کشتی پر سوار ہوتے ہو۔

    رکوع 2۔۔۔۔ نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کے پاس ہدایت پہنچانے کو بھجوایا۔ قوم نے انکار کیا تو ہم نے اسے کشتی بنانے کا حکم دیا کہ اس میں ہرچیز جوڑا جوڑا ڈالےاور گھر والوں بھی۔ پھر ہم نے ظالموں کو طوفان میں غرق کردیا اور پھر ایک اور قوم پیدا کی۔

    رکوع 3۔۔۔۔ اس قوم بھی وہی ٹیڑھی راہ اختیار کی۔ منکروں نے کہا کہ حقیقت میں یہی اس دنیا کی زنگدگی ہے۔ اس کے بعد جزا اور سزا کچھ نہیں۔ یہ ایک آدمی (رسول) ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھ لایا ہے اور یہ بات ہم نہیں مانتے۔ رسول علیہ السلام نے اللہ سے مدد مانگی کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو اللہ نے عذاب نازل کیا اور انہیں کوڑا کرکٹ بنادیا۔ اس کے بعد ہم لگاتار رسول بھیجتے رہے۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا۔ فرعون اور اس کے سردار متکبر تھے انہوں نے حق بات کو جھٹلایا اور غارت ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہ السلام کو بھی نشانی بنایا۔

    رکوع 4۔۔۔۔ دین ایک ہی ہے اور رسولوں سے فرمایا کہ وہ نمونہ بن کر رہیں۔ فرقہ بندی بری چیز ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے رب سے خوف کھاتے ہیں، اس کی باتوں میں یقین رکھتے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتے، صدقہ و خیرات دیتے ہیں اور انہیں آخرت کا یقین ہے۔ بھلائی اور نیکیاں حاصل کرنے میں سب سے آگے آگے ہیں، وہی کامیاب ہیں۔ ہم کسی کی برداشت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتے۔ جب منکر عذاب کے شکنجے میں آئیں گے تو چلائیں گے، اس دن کی چیخ و پکار نہ سنی جائے گی۔ ان کے پاس رسول آتے رہے لیکن انہوں نے نہ پہچانا اور کہتے اسے سودا (جنون) ہے۔ اصل میں نادانوں کو سچی بات کڑوی لگتی ، سو یہ عذاب ان کی کرتوتوں کا بدلہ ہے۔

    رکوع 5۔۔۔۔ اللہ نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل دیا کہ ان سے ٹھیک ٹھیک کام لو۔ تم آخر اس کے سامنے پیش ہوگے، وہی مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ یہ لوگ وہی کہتے ہیں جو ان کے باپ دادا کہتے تھے۔ ان سے پوچھو کہ اس کائنات کا مالک کون ہے؟ سب کچھ اسی کے حکم کے تابع ہے، وہ دوبارہ زندہ کرے گا اور جزا و سزا دے گا۔ اس کی نہ کوئی اولاد ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے۔

    رکوع 6۔۔۔۔ اللہ کے غضب سے پناہ مانگو اور کہو کہ اے رب! اگر میری زندگی میں تیرا عذاب ان نافرمانوں پر آنے والا ہے تو مجھے ان کے ساتھ عذاب میں شریک نہ کرنا اور اپنی رحمت سے تمام آفتوں سے محفوظ رکھنا۔ فرمایا جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ قرابتیں رہیں گی نہ کوئی ایک دوسرے کو پوچھے گا۔ پھر حشر میں جن کے اعمال بھاری ہوں گے جنت میں جائیں گے اور ہلکے اعمال والوں کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔ جہاں آگ ان کے منہ جھلس دے گی۔ یہی تھے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے پھر انہیں پچھتاوا ہوگا۔ زندگی کھیل نہیں، دارالعمل ہے۔ تمہارے اعمال کا بڑا زبردست نتیجہ نکلے گا یا تو جنت میں داخل ہوکر آرام کرو گے یا دوزخ کی دہکتی آگ میں نہ جانے کب تک جلو گے۔ اللہ کے سوا کوئی مالک و معبود نہیں اور منکروں کا بھلا نہ ہوگا اور تو رب سے معافی اور رحم مانگ وہ سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے۔

    ===============================================================
    (24) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ النور ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 2
    ===============================================================
    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1۔۔۔۔ یہ سور ۃ ہماری نازل کردہ ہے اور اس میں دیئے گئے احکام ہم نے فرض قرار دیئے ہیں۔ زناکار مرد اور زناکار عورت کی سزا ہر ایک کو سو،سو کوڑے مارو۔ ان پر ترس نہ کھاؤ۔ زانی مرد زانیہ عورت یا مشرکہ کے ساتھ ہی نکاح کرے اور زانیہ عورت زانی مرد یا مشرک سے نکاح کرے اور اہل ایمان کے لیے حرام ہے کہ فاجروں کو اپنی لڑکیاں دیں۔ اسی طرح زانیہ کسی مومنِ صالح کے لیے موزوں نہیں۔ جو لوگ پاک عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو ان کی سزا 80کوڑے ہے۔ ان کی گواہی کبھی قبول نہ ہوگی وہ فاسق ہیں سوائے اس کے کہ وہ تائب ہوجائیں اور اپنی اصلاح کرلیں۔ پھر بیوی پر تہمت اور لعان کا معاملہ بیان ہوا۔

    رکوع 2۔۔۔۔ واقعہ افک بیان ہوا اور فرمایا کہ بہتان غلط تھا اور مسلمانوں کو بھی چاہیے تھا کہ اس بے ہودہ خبر کو سن کر اچھے گمان کا اظہار کرتے۔ جو لوگ اس گناہ میں شریک ہوئے ان کے لیے دنیا میں ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بدکاری کا چرچا ہو ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ تم منافقوں کی فریب کاریوں کو نہیں جانتے تمہیں ان کی باتوں میں نہ آنا چاہیے۔ اس فتنہ کا وبال سب پر پڑتا لیکن اللہ نے اپنے فضل اور رحمت سے اسے رفع دفع کردیا ہے۔ یہ اس کی مہربانی اور شفقت تھی جس سے تم بچ گئے ورنہ تمہیں نہ معلوم کیا ہوتا۔

    ===============================================================
     
  15. پندرہ رمضان المبارک (حصہ اول)
    پارہ اٹھارہ سورۃ النور رکوع 3 تا 9
    پارہ اٹھارہ سورۃ الفرقان رکوع 1 تا 2
    پارہ انیس سورۃ الفرقان رکوع 3 تا 6
    پارہ انیس سورۃ الشعراء رکوع 1 تا 11
    پارہ انیس سورۃ النمل رکوع1

    ===============================================================
    (24) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ النور (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 3 تا 9
    ===============================================================
    رکوع 3 ۔۔۔۔ اے ایمان والو! شیطان کے نقشِ قدم پر مت چلو وہ تو صرف بدی اور فحش باتوں کا ہی حکم دیتا ہے اور جان لو اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کبھی ایک شخص بھی نہ سنورتا۔ اور تم میں سے مال دار لوگوں کو اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھنا چاہیے کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد نہ کریں گے۔ انہیں درگزر کرنا چاہیے اگر چاہتے ہیں کہ اللہ ان سے درگزر کرے اور انہیں معاف کرے اور اللہ غفورالرحیم ہے۔ مومن پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت اور بڑا عذاب ہے۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت لو اور اہلِ خانہ کو بلند آواز میں سلام کہو۔ اگر صاحب خانہ کسی وجہ سے ملنے سے معذرت چاہے تو خوش دلی سے لوٹ جاؤ البتہ غیر مسکونہ مکانات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ ایمان والوں سے کہہ دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں۔ مومنات بھی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوند، اپنے باپ، اپنے خاوندوں کے باپ، اپنے بیٹے، اپنے خاوندوں کے بیٹے، اپنے بھائی، بھتیجوں، بھانجوں، اپنی عورتوں، لونڈیاں، باندیاں اور چھوٹے بچوں پر۔ عورتیں اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں کہ زیور کی جھنکار سنائی دے اور ڈھکی ہوئی زیب و زینت ظاہر ہو اور آس پاس کے لوگ اس طرف متوجہ ہوں۔ اپنے بن بیاہے مردوں، عورتوں اور اپنے نیکوکار غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرو۔ جنہیں نکاح نہ ملے صبر کریں۔ لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کریں۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور وہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ کے عبادت گزار بندے مساجد میں باقاعدہ حاضر ہوتے ہیں، صبح و شام اس کی حمد و ثناء کرتے ہیں۔ دنیوی کاروبار ان کو مقررہ اوقات میں ذکر کرنے سے نہیں روکتا۔ وہ آخرت سے ڈرتے ہیں کہ اس دن اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ منکروں کے عمل چونکہ اللہ کے نور سے خالی ہوتے ہیں، وہ صحرا میں پیاسے کی طرح ہیں کہ دور سے تو پانی نظر آئے اور نزدیک پہنچے تو کچھ نہ پائے۔ یہ اچھے برے میں فرق نہیں کرتے، دنیا کے مزے میں پھنسے رہتے ہیں، ان کی حالت بڑی ہولناک ہے۔ ان پر تہ بہ تہ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں اور جو اللہ پر ایمان نہ لائے، اللہ اسے روشن نہ کرے تو اسے روشنی نصیب نہیں ہوسکتی۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ کیا دیکھا نہیں کہ زمین و آسمان میں ہر چیز اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے۔ پرندے پر پھیلائے اسی کے گن گارہے ہیں تو انسان کیوں غافل ہے۔ ارض و سماء پر اسی کی حکومت ہے اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ دیکھو اللہ کس طرح بادلوں کو تہ بہ تہ لا رہا ہے، پھر مینہ برساتا ہے۔ اسی طرح اللہ دیگر نشانیاں، بجلی کی چمک، اولوں کا گرنا، رات اور دن کا بدلنا، جانداروں کا ظہور اور ان کا مختلف طریقوں سے حرکت کرنا، بیان فرماتا ہے۔ بعض منہ سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں اور جب عمل کا موقع آئے تو کترا جاتے ہیں۔ اصل میں یہ ایمان ہی نہ لائے تھے۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ سچا اور حقیقی ایماندار وہ ہے جو خود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع فرمان بنالیتا ہے اور ان کے ہر فیصلہ پر راضی ہو، خواہ وہ اس کی خواہش و مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ ہی کامیاب و کامران ہوں گے۔ ہمیں زبانی جمع خرچی اور لمبی چوڑی قسمیں نہیں، دستور کے مطابق تابعداری مطلوب ہے۔ یاد رکھو اللہ کو ہر کام کی خبر ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو ایمان لائے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق عمل کرے آئندہ اس زمین پر حاکم بنایا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ میری عبادت کرو، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، ناشکری نہ کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چلو۔ یادرکھو منکروں کا ٹھکانہ تو آگ ہے۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ مسلمانوں تمہارے خادم اور نابالغ بچے تمہاری اجازت کے بغیر کے بغیر فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو آرام کے وقت اور عشاء کی نماز کے بعد تمہارے خلوت کدوں میں داخل نہ ہوں۔ یہ وہ اوقات ہیں کہ تم اپنے زائد کپڑے اُتار کر رکھ دیتے ہو۔ ان اوقات کے علاوہ نابالغ بچے بغیر اجازت گھر میں آجا سکتے ہیں لیکن جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا حکم مردوں کا سا ہے۔ ارشاد ہوا کہ بوڑھی عورتیں گھر کے اندر اوپر کے کپڑے اتار رکھیں تو مضائقہ نہیں لیکن اگر وہ بھی پردہ داری کریں تو یہ بہتر ہے۔ اندھے، لنگڑے، بیمار اور خود تم پر کوئی پابندی نہیں کہ کھانا گھر سے، باپ دادا کے ہاں سے قرابت داروں کے گھروں سے کھاؤ یا دوستوں کے ہاں سے، نہ پابندی ہے کہ علیحدہ علیحدہ یا سب مل کر کھاؤ۔ مگر یہ پابندی ہے کہ دوسرے کے گھر میں داخل ہو تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہو۔

    جاری۔۔۔۔
     
  16. پندرہ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 9 ۔۔۔۔ ایمان والے وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین لائے اور جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اجتماعی کام کے لیے بلائیں تو فوراً حاضر ہوجائیں اور کام ختم ہونے تک بلا اجازت واپس نہ ہوں۔ اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کسی کام کے لیے اجازت مانگیں تو جسے چاہیں اجازت دے دیا کریں اور اللہ سے ان کے لیے مغفرت مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نہ پکارو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ جان لو کہ اللہ کے حکموں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ارض و سماء کی ہر چیز اللہ کی ہے، وہ تمہارا حال کلی طور پر جانتا ہے، اسے کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اس دن وہ تمہارا کچا چٹھا کھول کر تمہارے سامنے رکھ دے گا، ابھی سمجھ لو کہ اس سے ڈرنا چاہیے۔


    ===============================================================
    (25) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الفرقان ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 6
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ وہ ذات پاک اور بڑی حکمت والی ہے جس نے حق و باطل کی تمیز کے لیے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ اور اپنے ایک برگزیدہ بندہ کو اسے سنانے اور انسانوں کو برے اعمال سے ڈرانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ اللہ کی سلطنت آسمانوں اور زمین پر ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں، نہ ہی سلطنت میں کوئی اس کا ساجھی یا شریک ہے۔ عجیب بات ہے کہ لوگوں نے اس کے سوا بھی معبود تجویز کررکھے ہیں جو کوئی چیز نہ بناسکیں بلکہ خود بنائے گئے ہیں اور وہ اپنے حق میں برے بھلے کے مالک نہیں نہ ہی مرنے، جینے اور مرکر جی اٹھنے کے۔ منکروں نے کہا قرآن بھی کچھ نہیں یہ تو پہلوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ یہ اس نے اتارا جو زمین و آسمان کے بھید جانتا ہے۔ پھر انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے پر اعتراض کیا کہ یہ تو کھانا کھاتا اور بازاروں میں پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ فرشتہ ہوتا یا خزانہ ہوتا یا باغ ہوتا کہ فراغت کے ساتھ کھانا کھاتا۔ یہ تو بہکے ہوئے لوگ ہیں جو راستہ نہیں پاسکتے۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ اللہ چاہے تو اس سے بہتر دے سکتا ہے لیکن یہ تو قیامت کے منکر ہیں اور قیامت کے جھٹلانے والوں کے لیے ہم نے آگ بنا رکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتادیں کہ پرہیز گاروں سے دائمی باغ کے ٹھکانے کا وعدہ ہوچکا ہے جو ان کا بدلہ ہوگا اور اس دن جھوٹے معبودوں سے بازپرس ہوگی کہ کیا تم نے میرے بندوں کو بہکایا یا وہ خود راہ سے بھٹکے۔ وہ کہیں گے تو پاک ہے، ہمارے لائق نہ تھا کہ انہیں اپنی پوجا کو کہتے لیکن تو نے ان کے باپ دادا کو آسودہ کردیا تھا کہ وہ تیری یاد بھول گئے اور یہ تباہ ہونے والے لوگ تھے اور مشرکوں کو عذاب دیا جائے گا۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ یہ متکبر لوگ ہیں کہ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ اترے یا ہم رب کو دیکھ لیتے۔ ارشاد ہوا کہ جس دن فرشتے تمہارے سامنے آئیں گے ان مجرموں کی کم بختی آجائے گی۔ اس دن بہشت کے لوگوں کا ٹھکانہ اچھا ہوگا۔ روزِ قیامت جب آسمان پھٹ جائے گا، آسمان سے بے شمار فرشتے اتریں گے۔ دربارِ الٰہی قائم ہوگا، منکروں پر یہ دن بھاری ہوگا۔ اس دن گنہگار حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ میں نے فلاں فلاں کو دوست کیوں بنایا کہ اس نے مجھے سیدھی راہ سے ہٹایا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہے گا میرے رب! میری قوم نے قرآن کو بے کار سمجھ لیا تھا۔ منکر کہنے لگے کہ قرآن کو ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا۔ یہ اس لئے تھا کہ اس کے ذریعے تیرے دل کو قوی رکھیں اور اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنائیں۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی اور ایک ساتھی ہارون علیہ السلام دیا۔ پھر جنہوں نے ہماری باتوں کو جھٹلایا انہیں نیست و نابود کردیا۔ اسی طرح قوم نوح، عاد اور ثمود کی نافرمانی اور تباہی کا احوال بیان ہوا۔ فرمایا تو نے اس شخص پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے راہِ راست پر لانے کا ذمہ لیتے ہیں۔ لیکن یہ تو جانوروں کی طرح ہیں جو سنتے سمجھتے نہیں۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ تیرے رب نے سائے کو کیسا لمبا کیا وہ چاہتا تو ٹھہرا رکھتا۔ پھر رات کو اوڑھنا بنایا، نیند کو آرام اوردن کو کام کاج کے لیے بنایا اور وہی ہے جو بارش سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے۔ انسان کتنا نادان ہے کہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتا ہے جو اسے نہ نفع دے سکیں نہ نقصان۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیں کہ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے، میرا مقصد تو صرف تم کو اللہ کی طرف پہنچنے کی راہ بتانا ہے۔ ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حیّ و قیّوم پر بھروسہ رکھیں، اس کی خوبیاں بیان کریں، وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے کے لیے کافی ہے۔ یہ مشرک لوگ کیا ہیں جب ان سے کہو کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمٰن کون ہے (السجدہ)۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ یہ باقاعدہ نظام ہے جسے دیکھ کر اگر عقل والے چاہیں تو اللہ عزوجل کو بہ آسانی پہچان سکتے ہیں اور اس کی شکرگزاری اپنے اوپر لازم کرسکتے ہیں۔ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں۔ ناسمجھ لوگوں کو نرم جواب دیتے ہیں تاکہ شر نہ بڑھے۔ رات اللہ کے حضور سجدہ و قیام میں گزارتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ الٰہی ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا اور جہنم سے ہمیں دور رکھ۔ پھر نیکوں کی کچھ اور صفتیں بیان فرمائیں۔ خرچ میں میانہ روی برتتے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی کو معبود نہیں پکارتے، ناحق کسی کا قتل نہیں کرتے اور بدکاری نہیں کرتے۔ جو اللہ کے قانون کو نہ مانے اسے قیامت کے دن دوگنا عذاب ہوگا مگر جس نے توبہ کی، نیک عملی اختیار کی اور اللہ کی طرف پلٹا جیسے پلٹنے کا حق ہے۔ اللہ کے بندے جھوٹ میں شامل نہیں ہوتے اور نہ دغا، فریب، جعلسازی میں حصہ لیتے ہیں اور جب ان کو رب کی باتیں سمجھائی جائیں تو توجہ سے سنتے اور اثر لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ الٰہی ہم کو ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔ ان لوگوں کو جنت کے محلات میں رکھا جائے گا۔ اور جو لوگ نہ اللہ کو پکاریں گے نہ دینِ حق پر عمل کریں گے تو اللہ کو بھی ایسے بے غیرتوں کی پرواہ نہیں وہ عنقریب اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔


    جاری۔۔۔۔
     
  17. پندرہ رمضان المبارک (حصہ سوم)

    ===============================================================
    (26) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الشعراء ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 11
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ یہ واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی بدبخت دین حق کو نہیں مانتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو کیوں ہلکان کرتے ہیں۔ منکرین کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبروں کا بتایا ہوا راستہ درست ہے لیکن ہم اپنی آبائی جہالت میں مبتلا غلطی پر تھے۔ اگر یہ ایمان لانا چاہتے تو زمین پر قدرت کی اَن گنت نشانیاں بکھری ہوئی ہیں وہ انہیں دیکھ کر گردنیں عاجزی سے جھکا دیتے لیکن اکثر نے بے ایمانی پر کمر باندھ رکھی ہے جبکہ تمہارا پروردگار زبردست رحم کرنے والا ہے۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ پچھلے زمانہ کے حالات بتاتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام، فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کے معجزات، عصائے موسیٰ اور یدِ بیضاء کا احوال بتایا۔
    رکوع 3 ۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے جادوگروں کا مقابلہ، جادوگروں کا ہارنا اور ایمان لانا اور فرعون کے غضبناک ہونے کا قصہ بیان ہوا۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ جادوگروں کی ہار کے بعد فرعون سرکشی سے باز نہ آیا تو موسیٰ علیہ السلام کو راتوں رات مصر سے نکلنے کا حکم دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کا سمندر پار کرنا، فرعون کا لشکر سمیت پیچھا کرتے سمندر میں داخل ہونا، پانی کا مل جانا اور ان کا سمندر میں غرق ہونے کے واقعات بیان فرمائے۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام نے باپ اور قوم کو کہا کہ کیا مورتیاں سنتی ہیں یا کسی کا برا بھلا کرتی ہیں تو جواب ملا کہ ہم تو آبا و اجداد کو ایسا ہی کرتے دیکھتے آئے ہیں تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا ر تو مجھے راہ دکھاتا اور کھلاتا پلاتا ہے۔ پھر اس نے دعا کی “الٰہی مجھے نیکوں میں شامل کردے، میرا ذکرِ خیر میرے بعد آنے والے لوگوں میں باقی رکھ، مجھے جنت کا مستحق اور وارث بنا۔ میرے باپ کی ہدایت کر جو اس کی مغفرت کا باعث ہو۔ قیامت میں مجھے رسوا نہ کر۔ جو اللہ کے سامنے کفرو شرک سے محفوظ دل لے کر حاضر ہوگا وہی فلاح پائے گا اور متقیوں کو جنت میں ڈالا جائے گا اور نافرمان گمراہی میں مبتلا جہنم میں جائیں گے۔ یہ لوگ اقرار کریں گے ہم صریح غلطی پر تھے۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ قوم نوح کے رسولوں کو جھٹلانے اور غرق ہونے کا واقعہ بیان۔
    رکوع 7 ۔۔۔۔ قوم عاد کی نافرمانی، حضرت ہود علیہ السلام کا قوم کو سمجھانا، قوم کا انکار اور ان پر تباہی کا آنا بیان کیا گیا۔
    رکوع 8 ۔۔۔۔ قوم ثمود کی نافرمانی اور تباہی کا احوال۔
    رکوع 9۔۔۔۔ قوم لوط کی نافرمانی اور ان کا برا انجام بیان فرمایا۔

    رکوع 10 ۔۔۔۔۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا قوم کو ہدایت کرنا کہ اللہ سے ڈرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، ترازو سیدھے رکھو، کسی کی حق تلفی نہ کرو۔ ملک میں فساد خرابی نہ پھیلاؤ۔ قوم کا ان کی ہدایت کو جھٹلانا اور آخر تباہ و برباد ہو۔

    رکوع 11 ۔۔۔۔ قرآن عربی زبان میں اللہ نے اپنے معتبر فرشتے جبریل علیہ السلام کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اتارا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرانے والا مقرر کیا گیا۔ اس میں پہلی کتابوں کا ذکر بھی ہے اور علمائے بنی اسرائیل اسے خوب پہچانتے ہیں مگر یہ ایمان نہ لائیں گے جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ ہم نے کسی بستی کو تباہ نہیں کیا جب تک وہاں ڈرانے والا نہیں بھیجا۔ اللہ کے ساتھ دوسرا معبود مت پکارو اور صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرو جو رحم کرنے والا ہی۔ شیاطی جھوٹے، دغاباز، گناہوں میں لت پت ناپاک لوگوں سے میل رکھتے ہیں۔ شاعر لوگوں کی بنیاد محض تخیل پر ہوتی ہے اس کے برعکس توحید پرست صاحبِ عمل نیکوکار ہوتے ہیں۔

    ===============================================================
    (27) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ النمل ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے۔
    رکوع 1 ۔۔۔۔ قرآن صاحبان ایمان کے لیے خوشخبری اور واضح رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ جو نماز قائم کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور آخرت کے منکروں کے لیے سخت عذاب ہے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کا کوہِ طور پر جانے، وہاں پیغمبری ملنے، ہدایت حاصل ہونے کا ذکر ہوا۔ پھر فرعون کا تکبر، انکار اور اس کے انجام کا تذکرہ فرمایا۔
    ===============================================================
     
  18. سولہ رمضان المبارک (حصہ اول)
    پارہ انیس سورۃ النمل رکوع 2 تا 4
    پارہ بیس سورۃ النمل رکوع 5 تا 7
    سورۃ القصص رکوع 1 تا 9
    سورۃ العنکبوت رکوع 1 تا 4
    ===============================================================
    (27) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ النمل (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 2 تا 7
    ===============================================================
    رکوع 2۔۔۔۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا احوال بیان فرمایا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو خاص علم دیا کہ وہ پہاڑ کی تسبیح سنتے اور سلیمان علیہ السلام چرند پرند کی بولیاں سمجھتے تھے۔ پھر ہد ہد اور ملکہ سبا کا قصہ بیان کیا۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ ملکہ نے پہلے تحفے بھجوائے جو واپس ہوئے، پھر وہ حاضر ہوئی اور بالآخر ایمان لے آئی۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو مگر وہ نافرمانی کے باعث ہلاک ہوئے۔ لوط علیہ السلام نے قوم کو بے حیائی سے منع کیا لیکن وہ قوم بھی اپنی بداخلاقی اور بے حیائی کے باعث ہلاک ہوئی۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ بھلا کس نے بنائے ارض و سماء اور کس نے آسمان سے پانی اتارا اور رونق والے باغ اُگائے۔ سوچو کہ ان سب کو بنانے والا معبود ہونا چاہیے یا کوئی اور؟ زمین کو جانداروں کے ٹھہرنے کے قابل کس نے بنایا؟ پہاڑ بنائے، ندیاں بنائیں، کیا کوئی اور معبود ایسے عجائبات پیدا کرسکتا ہے؟ بھلا بے کس کی پکار کو کون پہنچتا ہے؟ جب وہ اسے پکارے تو کون اس کی سختی کو دور کرتا ہے؟ زمین کا وارث کرتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ نہیں۔ بھلا تمہیں جنگل اور دریا کے اندھیروں میں کون چلاتا ہے۔ کیا اور بھی کوئی معبود ہے اللہ کے ساتھ، جسے تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو؟ مخلوق کو کون پیدا کرتا اور روزی دیتا ہے؟ نہیں مانتے تو کوئی پختہ سند لاؤ۔ زمین و آسمان میں چھپی چیزوں کی خبر فقط اللہ کو ہے اور جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہو ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ دوبارہ کب جی اٹھیں گے۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ منکروں کو دوبارہ جی اٹھنے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مردہ زمین میں گل سڑ جائے تو دوبارہ زندہ ہوں، یہ کہانیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دیں کہ زمین میں پھرو اور دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیسا ہوا اور اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ غمگین نہ ہوں اور ان کی چالوں سے تنگ نہ ہوں۔ یہ کہتے ہیں کہ عذاب کیوں نہیں آتا؟ تو کہہ دیں کہ جس کی تم جلدی کررہے ہو وہ تمہارے قریب پہنچ چکا ہے (یہ بات غزوۂ بدر میں پوری ہوئی)۔ ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔ سمجھ دار ہی سمجھیں گے۔ جب قیامت ہوگی تو ہم جانور زمین سے نکالیں گے وہ باتیں کرے گا اور بتائے گا کہ قیامت قریب ہے۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ قیامت کے دن سب فرقوں کے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے الگ الگ گروہ بنادیں گے اور پوچھیں گے کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا بغیر غور کیے۔ جو نیکی لے کر آیا اسے اس سے بہتر ملے گا اور جو برائی لے کر آیا وہ آگ میں ڈالا جائے گا۔ اور مجھے صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو جو اس شہر (مکہ) کا مالک ہے اور فرمانبرداروں میں ہوجاؤ۔ آگے چل کر تمہیں اپنی صاف صاف نشانیاں دکھلائے گا اور تم دیکھ کر سمجھ جاؤ گے کہ میں جو کہا تھا سچ تھا۔

    جاری۔۔۔۔
     
  19. سولہ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    ===============================================================
    (28 ) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ القصص ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 9
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ بیان کیا کہ فرعون کس طرح کمزوروں پر ستم ڈھاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، فرعون کے محل میں ان کی پرورش کا بندوبست، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بھی محل میں بھیجنے کا انتظام کرنا۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام کا جوانی میں ایک شخص کو قتل کرنا، پھر اللہ سے معافی مانگنا اور معافی قبول ہونا۔ دربار میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کا مشورہ لیکن اللہ کا ان کو نکال لینا۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ وہاں سے نکال کر مدین پہنچانا۔ وہاں حضرت شعیب علیہ السلام سے ملاقات کا ہونا۔ موسیٰ علیہ السلام کا ان کے پاس ملازمت کرنا۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد وہاں سے روانہ ہونا، راہ میں کوہِ طور پر آگ کا نظر آنا، آگ لینے جانا اور نبوت کا ملنا، عصا اور یدِبیضاء کے معجزے ملنا۔ بھائی ہارون علیہ السلام کا مددگار ہونا، فرعون کے پاس جانا اور ہدایت کرنا، فرعون کا موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلانا اور پھر فرعون اور اس کے لشکر کا سمندر میں غرق ہونا۔ تمام واقعات بیان ہوئے۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ ہم نے لوگوں کی ہدایت کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود نہ تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدین والوں میں بھی نہ تھے اور نہ ہی طور پر تھے، یہی دلیل کافی ہے۔ اور اللہ عالم الغیب کی رحمت ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مرسل کیا۔ وحی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان باتوں کا نزول فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر تفصیل اور صحت کے ساتھ تمام انبیاء کے واقعات بیان کررہے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ سلم سے بہت پہلے مبعوث ہوئے تھے۔ یہ اسے بھی جادو کہتے ہیں تو انہیں کہیے کہ تم بھی کوئی کتاب لاؤ جو ان دونوں سے بہتر ہو، اگر سچے ہو۔ اور جب وہ ایسا نہ کرسکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جان جائیں کہ یہ لوگ اپنی خواہشات پر چلتے ہیں اور اس بات سے بڑی گمراہی کوئی نہیں۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی ہم نے ان کے پاس ہدایت بھجوانے میں کمی نہیں کی اور جو لوگ گزشتہ پیغمبروں کی حقیقی تعلیمات پر قائم تھے وہ فوراً قرآن پر ایمان لے آئے، حق کی تصدیق کردی، اپنے رب کے حضور جبینِ نیاز خم کردی اور انہیں دہرا اجر ملے گا۔ اور اللہ جسے ہدایت کا اہل سمجھتا ہے اسے ہدایت سے ہمکنار کرتا ہے۔ اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو شریک کرنے والو باز آجاؤ، اس کے قہر سے ڈرو جس نے تم سے پہلے حق کے پیغام کو جھٹلانے والوں کی کتنی بستیاں تباہ کردیں۔

    جاری۔۔۔۔
     
  20. سولہ رمضان المبارک (حصہ سوم)

    رکوع 7 ۔۔۔۔ قیامت حق ہے۔ وہاں کہا جائے گا کہ اپنے جھوٹے معبودوں کو پکارو۔ وہ انہیں پکاریں گے تو کوئی انہیں جواب نہ دے گا۔ وہی ایک اللہ ہے اس کے سوا کوئی بندگی کا سزاوار نہیں۔ دنیا اور آخرت کی ہر چیز اسی کی ثنا میں مشغول ہے اور ہرجگہ اس کا حکم چلتا ہے۔ ان سے پوچھو اگر سورج نکلنا بند ہوجائے، روشنی کے ذریعے مفقود ہوجائیں، دنیا میں قیامت تک ہمیشہ رات ہی رہے تو کیا تمہارے معبودوں میں کوئی ہے جو روشنی یا رات لاسکتا۔ ہرگز نہیں، اللہ کے سوا کسی میں قدرت نہیں۔ دن اور رات اللہ ہی نے بنائے ہیں۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ قارون کا قصہ بیان فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ دنیا پر مغرور نہ ہو، نہ ہی دولت پر اکڑو۔ قارون کو نصیحت کی تو اس نے کہا کہ میں نے دولت اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے حاصل کی ہے۔ اب تم کہتے ہو اللہ نے دی ہے تو تمہیں کیوں نہ دی۔ جب وہ دولت کی بدمستی میں انتہا کو پہنچ گیا اوروں سے تو الجھتا ہی تھا، موسیٰ علیہ السلام سے بھی الجھ پڑا تو پھر ہم نے اسے اسی کے گھر اور خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا اور کوئی اس کی مدد کو نہ آسکا۔

    رکوع 9 ۔۔۔۔ ہم بھلائی کا بہتر بدلہ دیں گے اور برائی والوں کو سزا۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن جیسی شاندار کتاب دی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شہر میں عزت کے ساتھ واپس لائے گا۔ اللہ خوب جانتا ہے کون راہِ ہدایت پر ہے اور کون گمراہی پر۔ اب قرآن نازل ہوچکا ہے جو اس کے احکام کی پابندی کرے گا وہی تیرا اپنا ہے۔ دیکھو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز فنا ہونے والی ہے، اس کے سوا کسی کا حکم کائنات پر نہیں چلتا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

    ===============================================================
    (29) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ العنکبوت ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 4
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ یہ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کہہ دینا کافی ہے کہ "ہم ایمان لائے" اور پھر انہیں آزمایا نہ جائے گا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان سے پہلوں کی بھی ہم آزمائش کرچکے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔ اور جنہوں نے نیک کام کیے انہیں بہتر بدلہ ملے گا۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور وہ اگر تم پر دباؤ ڈالیں کہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرو تو ان کا کہا نہ مانو۔ ایمان پر یقین کے ساتھ قائم رہو۔ ڈانواں ڈول نہ ہو اور اللہ سب جانتا ہے۔ کوئی کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ فرمایا تاریخ سے سبق لو۔ پھر قومِ نوح اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو یہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں اور اللہ ہی روزی رساں ہے، اسی کی بندگی کرو۔ شکر ادا کرو وہی تمہیں دوبارہ پیدا کرے گا وہ ہر شے پر قادر ہے۔ وہ جسے چاہے دکھ دے جس پر چاہے رحم کرے اس کے علاوہ حمایتی یا مددگار نہیں۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ قوم ابراہیم علیہ السلام توحید کا پیغام سن کر سیخ پا ہوگئی اور کہا کہ اسے جلادو۔ پھر اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے صحیح نکالا اور ان کو ہجرت کا حکم دیا جو بہت مبارک تھی۔ ان کو بیٹا اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام دیا اور ان کی اولاد کو پیغمبری اور کتاب دی۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے نصیحت نہ مانی اور بے حیائی پر قائم رہے۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ پھر قوم لوط پر عذاب آیا اور وہ تباہ ہوئی۔ پھر قومِ عاد اور ثمود کی گمراہی کے باعث ان کی تباہی کا ذکر ہوا اور فرمایا کہ اللہ کسی پر ظلم کرنے والا نہ تھا۔ انہوں نے خود تکبر اور نافرمانی کی روش اختیار کرکے قہرِ الٰہی کو دعوت دی۔

    ===============================================================
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں