1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

فہم مضامین قرآن (رمضان المبارک)

'مذاہب' میں موضوعات آغاز کردہ از تجمل حسین, ‏جون 11, 2016۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
    پچھلے سال اردو محفل پر فہم مضامین قرآن سلسلہ شروع کیا تھا۔ جس میں کتاب فہم مضامین قرآن از سرفراز احمد بھٹی سے صفحات کمپوز کرکے شریک محفل کیا کرتا تھا۔ لیکن اخیر دنوں میں کچھ مصروفیات بڑھنے کی وجہ سے سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ یوں وہ سلسلہ ادھورا رہ گیا۔ اس رمضان المبارک میں اسے اختتام تک پہنچانا ہے۔ ان شاءاللہ۔ ساتھ ہی میں نے سوچا کہ وہی اسباق آپ دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کیے جائیں۔
    رمضان المبارک شروع ہوئے آج پانچواں دن ہے۔ تو پہلے پانچ دن کے صفحات ایک ساتھ پوسٹ کردوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ اتنا طویل پڑھنا آپ کے لیے دشوار ہو۔ لیکن آئندہ سے ان شاءاللہ روزانہ کی بنیاد پر صفحات شامل کروں گا۔ تاکہ سب ساتھی رمضان کے اس بابرکت ماہ میں تراویح کی برکتوں سے بہتر طور پر فائدہ اٹھا سکیں۔
    باقی جہاں تک کتاب کے تعارف کی بات ہے تو شاید میں کتاب کا تعارف مناسب الفاظ میں نہ کرواسکوں لہذا کتاب کے تعارف کے طور پر مؤلف ’’سرفراز محمد بھٹی‘‘ صاحب کی ہی تحریر پیش خدمت کررہا ہوں۔ امید ہے کہ احباب کو یہ سلسلہ پسند آئے گا۔
    تبصرہ جات کے سلسلہ میں عرض ہے کہ تبصرہ جات کے لیے الگ سے لڑی شروع کی گئی ہے تاکہ کتاب میں تعطل نہ آئے اور جو بھی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہے اسی ایک لڑی سے ہی مکمل کتاب کا مطالعہ کرسکے۔ لہٰذا اپنے تبصرہ جات دوسری لڑی میں ارسال کیجئے۔ شکریہ۔

    والسلام
    طالب دعا: @تجمل حسین
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. فہم مضامینِ قرآن




    مرتبہ



    سرفراز محمد بھٹی


    =============================================​

    [​IMG]

    ’’اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی، جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت اُن لوگوں کے لیے، جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘ قُرآن (51:29)

    =============================================

    کتاب کا تعارف بہ تحریر مؤلف سرفراز محمد بھٹی


    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم​

    امابعد: قرآن حکیم اللہ جل شانہ کا آخری صحیفہ ہدایت ہے جو حضور رسولِ آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اس میں قیامت تک کے تمام فکری، تہذیبی، تمدنی، اجتماعی ضروریات پورا کرنے کی مکمل رہنمائی موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس دستورِ حیات کے مندرجات کو جان کر ان پر غور و فکر کرکے اسے سمجھا جائے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو پر عملی طور پر اسے لاگو کرکے اس مقصدِ عظیم کو حاصل کیا جائے جس کے لئے پردگارِ عالم نے ہماری تخلیق فرمائی۔

    آج تک ہمارا زور صرف تلاوتِ قرآن حکیم پر ہی رہا ہے یہ عمل ہے تو حصولِ رحمت و برکت کا باعث، لیکن یہ انسان کو اصل منزل تک نہیں پہنچاتا۔ اللہ کریم فرماتا ہے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے اس میں انسان کو امتحان کے لئے بجھوایا گیا ہے اور یہ زندگی اس نے محنت و مشقت سے بسر کرنا ہے۔ اگر یہ محنت و مشقت اللہ کے حکموں کےبجالانے میں ہوتو کامیابی اور اگر خواہشاتِ نفس کو پورا کرنے کے لئے ہو تو ناکامی۔ اب حکموں کو جاننے کے لئے قرآن کے مطالب جاننے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم عربی زبان سے نابلد ہیں اس لئے تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھے بغیر ہم مقصد تو نہیں پاسکتے۔ اسے اگر دوسری طرح بھی دیکھیں کہ اللہ کریم نے کتابِ رحمت میں توحید کے بعد سب سے زیادہ عقیدہ آخرت کو بیان فرمایا ہے کہ مر کر دوبارہ زندہ ہونا ہے، حساب کتاب حق ہے اور پھر اعمال کے مطابق دائمی جزا و سزا۔ اعمالِ صالح کے لئے پھر ہمیں احکامِ الٰہی جاننا ضروری ہیں اور اس کو ترجمہ کے ذریعے ہی جانا جاسکتا ہے۔

    غالباََ نظامِ تراویح اسی لئے وضع کیا گیا ہوگاکہ سامع قرآن سننے کے ساتھ احکامِ الٰہی کا بھی اعادہ کرلے تاکہ اگلے سال پھر وہ بہتر زندگی گزار سکے۔ اسی ضرورت کو مدِ نظر رکھ کر یہ کتابچہ مرتب کیا گیا ہے کہ کسی کے پاس اگر اتنا وقت نہیں کہ وہ اس سوا پارہ کا ترجمہ دن میں پڑھ لے جس کی تلاوت شام کو تراویح میں سننا ہے تو کم از کم اس کتابچہ سے چند صفحات پڑھ کر ان موضوعات اور اشارات کو جان لے جن پر اس شام اس نے کلامِ پاک سننا ہے۔ جان لیجئے کہ خلاصہ جیسا کہ یہ کتابچہ ہے کبھی اصل کتاب کا بدل نہیں ہوسکتا اس لئے اس کتابچہ کو ترتیب دیتے ہوئے اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ اسے پڑھنے سے قاری کو تشنگی کا احساس ہو اور وہ تفصیل جاننے کے لئے قرآن حکیم کی جانب راغب ہو۔ یہ کتابچہ قرآن حکیم کا ترجمہ نہیں بلکہ صرف مختصر مفہوم دیا گیا ہے۔ اسے مرتب کرنے میں ہر ممکن احتیاط برتی گئی ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد محترم مولانا قاری محمد شریف صاحب نے اس کو بغور دیکھا پھر محبّی محترم رائے فقیر محمد صاحب فاضل علومِ دینی و فیلو چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ نے اس کو دیکھ کر جامعہ نعیمیہ میں جناب ڈاکٹر محمد سرفراز حسین نعیمی صاحب کو نظرِ ثانی کے لئے دیا۔ میں ان تمام حضرات کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں کہ ان کی تجاویز اور رہنمائی کے باعث بیان اور نکھر گیا۔

    ان انتہائی کوششوں کے باوجود اگر کوئی کوتاہی باقی ہو تو میں اس کے لئے صدقِ دل سے توبہ کرتا ہوں اور اپنے ربِّ کریم سے معافی اور بخشش کا طالب ہوں۔ اہل علم سے بھی درخواست ہے کہ اگر کوئی غلطی ان کی نظر میں آئے تو احقر کو مطلع کریں تاکہ آئندہ اشاعت میں اس کی تصحیح کی جاسکے۔

    میں جناب محمد انور صاحب کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے بہت کم وقت میں اسے کمپوز کیا۔ جناب محمد معظم حمید صاحب اور احمد فراز بھٹی صاحب کی معاونت کے لئے بھی مشکور ہوں۔

    اب مجھے اپنے جہل کا اقرار کرنا ہے کہ میں کوئی عالم نہیں صرف رحمتِ الٰہی اور ایک لگن سے اس کی تکمیل ممکن ہوسکی ہے۔

    آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ کریم اس ناچیز بندے کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اسے توشئہ آخرت بنائے اور اس کے پڑھنے اور سننے والوں کو دولتِ ہدایت و عمل سے نوازے اور تمام محسنین کو جنہوں نے میری رہنمائی اور معاونت فرمائی ہے دنیا اور آخرت میں اجر خیر کثیر سے نوازے۔ اللہ کریم میرے والدین، عزیز و اقربا اور تمام مسلمانوں کو مغفرت اور اخروی نعمتوں سے نوازے۔ آمین ثم آمین۔

    ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
    وتب علینا انک انت التواب الرحیم

    بندہ راجی شفاعت غفران
    سرفراز محمد بھٹی
    256۔ ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
    22ستمبر 2006ء
    28 شعبان المعظم 1424ھ

    =========================================
    اظہار تشکر

    فہم مضامین قرآن کا مجھ جیسے بے علم شخص کا ہاتھ سے تحریر میں لانا اللہ تعالیٰ کی ایک خاص عنایت تھی۔ انتہائی کوشش کے باوجود اس میں ابھی املا کی چند غلطیاں موجود تھیں کہ اللہ کریم نے اس سقم کو دور کرنے کا فریضہ اپنے ایک مخلص اور مقبول بندے جناب ملک مقبول احمد (مالک مقبول اکیڈمی) کو سونپا تو مقبول صاحب نے اس کا اظہار مجھ سے فرمایا میرے لئے یہ امر انتہائی خوش کن تھا۔ چنانچہ درستگی کے ساتھ ان کی خواہش کی تکمیل میں دو ایک مقامات پر مزید بہتری بھی لائی گئی۔ اب جناب ملک مقبول احمد صاحب اس کتاب کو ایک بہتر شان کے ساتھ پیش کررہے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کی اس سعی اور جذبہ کو منظور و مقبول فرمائے اور اس کاوش کو ان کے لئے توشہ آخرت بنائے۔ آمین۔ ثم آمین۔
    سرفراز محمد بھٹی عفی عنہ​
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. یکم رمضان المبارک (حصہ اول)

    اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
    میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود (کے شر) سے
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    یکم رمضان المبارک: پارہ اول سورۃ الفاتحہ رکوع 1
    پارہ اول سورۃ البقرۃ 1 تا 16 رکوع
    پارہ دوم سورۃ البقرۃ 17 تا 21 رکوع​
    ===============================================================
    (1) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭سورۃ الفاتحہ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع1
    ===============================================================​

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے
    الفاتحہ قرآن حکیم کی پہلی سورہ ہے جسے کلام الٰہی کا مقدمہ، دیباچہ اور خلاصہ کہا گیا ہے۔ اس کا اسلوب دعائیہ ہے۔ علماء کا قول ہے کہ یہ دعا ہے اور قرآن اس دعا (طلب ہدایت) کا جواب ہے۔
    تمام تعریف ستائش حمد و ثناء کے لائق وہ ذاتِ اقدس ہے جو عالموں کا رب ہے جو رحمت والا ہے اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالا مال کررہی ہے۔ جو اس دن کا مالک ہے جس دن اعمال کا بدلہ لوگوں کے حصے میں آئے گا۔ (خدایا) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں) مدد مانگتے ہیں (خدایا) ہم پر (سعادت کی) سیدھی راہ کھول دے۔ وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تو نے انعام کیا۔ نہ ان کا جن پر غضب کیا گیا نہ ان کا جو گمراہ ہوئے۔

    ===============================================================
    (2)٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ البقرۃ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭رکوع1 تا 21
    ===============================================================​

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے​

    رکوع1۔۔۔۔فرمایا: کہ یہ کتاب ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے اس میں جو تعلیم دی گئی ہے وہی صراط مستقیم اور جو وعدے کیے گئے ہیں وہ یقینی طور پر پورے ہوں گے۔ یہ ان لوگوں کے راہ ہدایت ہے جنہوں نے اسلامی نظریۂ حیات قبول کیا، جنہیں سچائی طلب و تلاش ہے اور آخرت کی جواب دہی پر یقین ہے۔
    یہ لوگ جو متقی ہیں، غیب پر ایمان لاتے، نماز پابندی سے ادا کرتے، نیکی کی راہ میں مال خرچ کرتے، تمام آسمانی کتابوں اور الہامی نوشتوں پر ایمان رکھتے، جزا اور سزا کے دن پر یقین رکھتے ہیں بلاشبہ یہی ہدایت یافتہ اور کامیاب لوگ ہیں۔ جو لوگ انکارِ حق کے عادی ہوچکے ہیں وہ کسی طرح ماننے والے نہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہریں لگادی ہیں اور آنکھوں پر پردے تان دیئے ہیں اور ان کے لیے عذابِ عظیم تیار ہے۔

    رکوع 2۔۔۔۔فرمایا: منافق، ایماندار ہوناظاہر کرتے ہیں پر دل سے نہیں۔ یہ بظاہر اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن خود دھوکے میں ہیں۔ یہ جھوٹے ہیں اور ان کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے۔ ان کو فساد سے روکیں تو کہتے ہیں ہم اصلاح کررہے ہیں۔ صحیح ایمان والوں کو بے وقوف کہتے ہیں۔ یہ خود جھوٹے اور بے وقوف ہیں۔ ان کے لیے عذاب الیم تیار ہے۔ یہ اللہ کے گھیرے میں ہیں وہ جب چاہے ان کی سماعت اور بصارت سلب کرلے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ فرمایا: کہ صرف اپنے خالق کی بندگی کرو۔ وہی کل کائنات کا خالق، مالک اور پروردگار ہے۔ قوت و حیات اس کے قبضۂ اختیار میں ہے۔ اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور یہ جہنم کے نافرمانوں کے لیے ہے۔ نیکوکاروں کو جنت کی خوشخبری ہے۔ تمہارے پروردگار نے کائنات زمین میں خزانے، سات آسمان، سورج، چاند، ستارے بنائے۔ بارش کے ذریعے تمہیں فائدے پہنچائے۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ فرمایا: اللہ نے انسان کو زمین پر نائب و خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا تو جن و ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ صرف ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ سے انکار کیا تو مردود ٹھہرا اور قیامت تک کے لیے آدم اور ذریتِ آدم کا دشمن بن گیا۔ انسان کو دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجا گیا کہ جو ہدایت پر چلیں گے انعام پائیں گے اور جو بھٹک کر شیطان کی پیروی کریں گے، آیات کا انکار کریں گے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ، ان کی فضلیت، لغزشوں، گناہوں اور پھر فضیلت کے چھن جانے کا بیان ہے جس میں عبرت اور نصیحت ہے۔ فرمایا: نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ ادا کرو اور نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ جھکو۔ اپنے معاملات کے حل کے لیے صبر و صلوٰۃ سے مدد لو۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ بنی اسرائیل پر کیے گئے احسان بتلائے۔ فرمایا: کہ قیامت کے دن ہر ایک کو اپنی فکر ہوگی۔کوئی نہ سفارش کرسکے گا نہ مجرم چھڑوا سکے گا۔ فرعون کے بنی اسرائیل پر مظالم اور فرعون کی تباہی بیان ہوئی۔ قوم موسٰی علیہ السلام کا بچھڑے کی پوجا، من و سلوٰی کے نزول کا تذکرہ ہوا۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پانی مانگا تو بارہ چشمے عطا کیے گئے۔ پھر بنی اسرائیل کے کفرانِ نعمت، حکم عدولی، نبیوں کے ناحق قتل اور پھر ان پر عذاب کا مسلط ہونا بیان ہوا۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے نظریہ کی نفی کی کہ وہ نبیوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے زیادہ مقرب ہیں۔ فرمایا: تقرب صرف صحیح ایمان اور عمل صالح کرنے سے ہی ہوگا۔

    رکوع 9 ۔۔۔۔ فرمایا: بڑے دلائل اور معجزات کے باوجود بنی اسرائیل کے دل موم ہونے کی بجائے پتھر ہوگئے جن پر کوئی بات کارگر نہیں ہوتی وہ خود کو جنت کے ٹھیکیدار سمجھتے۔ فرمایا: عذابِ جہنم سے نجات کسی قوم کا میراث نہیں بلکہ جو صاحب ایمان عمل صالح کرے گا، جنت میں داخل ہوگا۔

    رکوع 10 ۔۔۔۔ فرمایا: کہ بنی اسرائیل نے اعمالِ صالح کے سب عہد توڑے۔ فسق و فجور میں مبتلا ہوئے۔ پس دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور روز جزا میں بھی سخت ترین عذاب کا لقمہ بنیں گے جس میں کوئی کمی نہ آئے گی نہ ان کو کہیں سے مدد ملے گی۔

    جاری ۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏جون 14, 2016
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. یکم رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 11 ۔۔۔۔ فرمایا: موسٰی علیہ السلام اور عیسٰی علیہ السلام ان پرمبعوث کیے گئے لیکن بنی اسرائیل نے تکبر اور سرکشی اختیار کی اور اپنی نفسانی خواہشات کی اتباع کی۔ اس کے باوجود خود کو مومن اور جنت کا ٹھیکیدار سمجھتے اور نجات کو اپنا حق سمجھتے۔ لمبی عمر کی حرص کرتے ہیں کہ عمر ہزار سال پائیں۔ یہ عذاب سے نہیں بچ سکتے۔

    رکوع 12 ۔۔۔۔ بنی اسرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کے عذر پیش کرتے۔ کتاب اللہ کی مخالفت کرتے۔ جادو، سفلی عملیات، تعویذ گنڈوں اور ٹونوں ٹوٹکوں جیسے شیطانی عملیات کی پیروی کرتے۔ فرمایا: جو شخص اپنے ایمان کے عوض ان شیطانی عملیات کو حاصل کرنے کا گھاٹے کا سودا کرتا ہے اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

    رکوع 13 ۔۔۔۔ مسلمانوں کو فرمایا: کہ یہود کی طرح ذو معنی لفظ “راعنا” سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پکاریں بلکہ “انظرنا” کہا کرو۔ فرمایا: نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو صرف نیکو کار جنت میں جائیں گے۔

    رکوع 14 ۔۔۔۔ فرمایا: مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ جس کام کو حکم دیتا ہے کہ “ہوجا” وہ ہوجاتا ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔ نافرمانوں کے لیے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب ہے۔ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ کے ساتھ بھیجا ہے۔ نیکوکاروں کو خوشخبری دینے اور نافرمانوں کو مواخذۂ الٰہی سے ڈرانے والا۔ اصل مومن وہ ہیں جو قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے اور انکار والے دنیا اور آخرت میں خسارے میں رہیں گے۔

    رکوع 15 ۔۔۔۔ بنی اسرائیل کو احسان یاد دلائے اور فرمایا: کہ یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ ان کی اولاد کو امامت اور پیشوائی دی۔ ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کر کے دعا کی کہ الٰہی اس شہر کو امن والا شہر بنا اور یہاں بسنے والوں کے لئے میوے اور پھلوں کی بہتات کردے۔ ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور یہاں بسنے والوں کے لیے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو تیری آیتیں انہیں پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔

    رکوع 16 ۔۔۔۔ توحید پر بات ہوئی۔ انبیاء کرام کے نام گنوا کر فرمایا: اُخروی نجات کے لیے اعمالِ صالح ضروری ہیں۔ مطلق نسب و نسبت پر مان کرکے اعمالِ صالح نہیں ترک کرنے چاہئیں۔ اس کے لیے نیک اعمال ضروری ہیں۔ فرمایا: دنیوی لالچ میں دینِ حق کو چھپانا بڑا ظلم ہے۔ فرمایا: ہر ایک کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔

    پارہ دوم

    رکوع 17
    ۔۔۔۔ فرمایا: کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آرزو دیکھ کر خانۂ خدا کو قبلہ قرار دیا ہے۔ پہلے تم بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے اب خانہ کعبہ کی طرف۔ جان لو سب سمتیں اللہ ہی کی ہیں۔

    رکوع 18 ۔۔۔۔ فرمایا: بیت اللہ اب دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے قیامت تک کے لیے قبلہ مقرر کیا گیا ہے۔ دعائے ابراہیم علیہ السلام کے مطابق تم ایک اللہ، ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایک کتاب اور ایک قبلہ کاپیروکار بنایا تاکہ تم باہم متحد رہو اور اپنے محسنِ حقیقی کے احسانات کو یاد رکھو، کفرانِ نعمت سے بچتے رہو۔ اللہ کی رحمت کے دروازے تم پر کھلے رہیں گے۔

    رکوع 19 ۔۔۔۔ فرمایا کہ: دنیا میں کامیابی کے لیے کچھ مشکلات سے دوچار ہونا لازمی ہے۔ تم صبر و رضا، نماز و دعا کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کرو۔ فرمایا: اللہ کی راہ میں جان دینے والے مرتے نہیں اور ہمیشگی کی زندگی پاتے ہیں لیکن تم کو اس کا شعور نہیں۔ جان لو حج و عمرہ کے مراسم صرف رسمیں نہیں بلکہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں سے نیکی کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے اور انسان گناہوں سے پاک ہوکر اللہ کے حضور سرِ تسلیم خم کردے۔ فرمایا: خوف و طمع کی خاطر اللہ کے حکموں کو چھپانے والوں پر اللہ کی پھٹکار اور تمام مخلوقات کی لعنت ہے۔ صرف وہی معبودِ حقیقی معبودِ واحد ہے اس کے علاوہ کوئی قابل بندگی و پرستش نہیں۔

    رکوع 20 ۔۔۔۔ رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا، کشتیوں کا سمندر میں چلنا، بارش سے مردہ زمین کا زندہ ہونا، ہواؤں اور بادلوں کو قابو میں رکھنا عقل مندوں کے لیے اللہ کی نشانیاں ہیں۔

    رکوع 21 ۔۔۔۔ فرمایا: حلال اور پاک چیزیں کھاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جس کو غیر اللہ کا نام لیکر ذبح کیا گیا ہو، حرام کیے گئے ہیں۔ مجبوری میں کہ زندگی ختم ہورہی ہوتو حرام شے کی اجازت اس حد تک دی گئی ہے کہ جان بچ جائے۔
    ===============================================================​
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. دو رمضان المبارک (حصہ اول)
    پارہ دوم سورۃ البقرۃ رکوع 22 تا 33
    پارہ سوم سورۃ البقرۃ رکوع 33 تا 40
    پارہ سوم سورۃ اٰلِ عمران رکوع 1 تا 2​
    ===============================================================
    (2) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ البقرۃ (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 22 تا 40
    ===============================================================​

    رکوع 22
    ۔۔۔۔ فرمایا: کہ اصل نیکی یہ ہے کہ ایمان لائے اللہ پر، قیامت پر، فرشتوں، کتابوں اور پیغمبروں پر اور اللہ خوشنودی کے لیے رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور معاشرہ میں پھنسے محکوموں کو آزاد کرانے کے لیے مال خرچ کرے اور نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی، ایفائے وعدہ اور مصائب میں صبر کرنے والے سچے متقی اور نیکو کار ہیں۔
    فرمایا: قتل کا بدلہ قصاص ہے لیکن رضامندی کے ساتھ خون بہا اور معاف کرنا بھی جائز کردیا۔ ترکہ چھوڑنے والا ورثاء کو جھگڑوں سے بچانے کے لیے دستور اسلامی کے تحت وصیت کرجائے۔

    رکوع 23 ۔۔۔۔ فرمایا: تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں پرہیز گاری پیدا ہو۔ یہ گنتی کے دن ہیں اور اس کے بےشمار فائدے ہیں اور اجتماعی تربیت بھی ہے۔ مریض اور مسافر مجبور ہوں تو دوسرے دنوں میں روزے پورے کرلیں اور ناتوان و کمزور جو روزہ نہ رکھ سکیں وہ فدیہ کےطور پر کسی غریب یا حاجت مند کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلادیں۔
    اسی مہینہ میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس کے ہر حکم میں ان گنت برکتیں اور حکمتیں بھری ہوئی ہیں۔ فرمایا: کہ پوچھنے والوں کو بتادیں کہ میں ان کے قریب ہوں اور ہر پکارنے والے کی پکار سنتا اور دعا قبول کرتا ہوں۔ شرط یہ ہے کہ میرا حکم مانیں پھر روزہ کے آداب و احکام بیان کیے گئے۔ فرمایا: کہ ایک دوسرے کا مال، دھوکہ، فریب، ظلم، زیادتی، خیانت و بے انصافی وغیرہ سے مت کھاؤ۔ نہ ہی رشوتیں دو۔

    رکوع 24 ۔۔۔۔ فرمایا: نئے چاند لوگوں کےلیے وقت کا حساب کرنے کا آلہ ہیں۔ ان کے ذریعے عبادات اور حج کے اوقات مقرر کیے جاتے ہیں۔ فرمایا: اللہ کی راہ میں جنگ کرو لیکن زیادتی نہ کرو۔ فتنہ قتل سے بدتر ہے۔ مسجد الحرام کے پاس قتال نہ کرو اگر کوئی حملہ کرے تو جواب دو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے۔ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ حرمت والے مہینوں کا احترام کرو۔ نیکی اور حسنِ سلوک کرو۔ حج و عمرہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوں ان کے حدود و قواعد، احکام و فرائض پورے کرو۔

    رکوع 25 ۔۔۔۔ فرمایا: حج کے مہینے مقرر ہیں اور اس سلسلے میں ضروری احکام بیان فرمائے۔ فرمایا: اچھی دعا دنیا و آخرت میں کامیابی کا مانگنا ہے۔ صرف دنیا میں آسائش مانگنے والوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ نیکی کی اصل تقویٰ ہے۔ غرور اور فساد اللہ کو ناپسند ہیں۔ فرمایا: اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ دانستہ غلطی نہ کرو۔ بنی اسرائیل سے عبرت حاصل کرو۔ مومنوں کا مذاق نہ اڑاؤ۔ شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ راہِ ہدایت سے نہ بھٹکو کہ تمہارے پاس واضح نشانیاں آچکی ہیں۔

    رکوع 26 ۔۔۔۔ فرمایا: بنی اسرائیل کو ہم نے کیسی کھلی نشانیاں دکھائی ہیں۔ نعمت پالینے کے بعد نافرمانوں کو سزا سامانِ عبرت و بصیرت ہے۔ ابتدا میں تمام انسان امتِ واحدہ تھے۔ جب لوگوں کے عقائد میں اختلاف ہوتا پیغمبر بھجوائے جاتے جو ان کے اختلاف ختم کرتے۔ پھر مال کو والدین، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں پر خرچ کرنے کا حکم دیا۔ اللہ نے مسلمانوں کو جہاد/قتال کی اجازت دے دی۔

    رکوع 27 ۔۔۔۔ فرمایا: حرمت والے مہینوں میں جنگ بڑا گناہ ہے۔ لیکن فتنہ قتل سے بڑا گناہ ہے۔ مرتد کی سزا دائمی جہنم ہے۔ صاحبِ ایمان جنہوں نے ہجرت کی، جہاد کیا، رحمت و بخشش کے مستحق ہیں۔ فرمایا: شراب اور جوا بہت بری چیزیں ہیں۔ جو تمہاری ضرورت سے بچ جائے اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔ یتیموں کی تربیت اور نگہداشت پر زور دیا گیا۔فرمایا: نہ مشرکہ عورتوں سے نکاح کرو نہ اپنی عورتیں مشرک مردوں کے نکاح میں دو۔

    رکوع 28 ۔۔۔۔ فرمایا: حیض کے دوران عورتوں سے جنسی تعلقات سے گریز کرو۔ پھر طلاق، عدت اور رجوع کرنے کے احکامات بیان فرمائے۔
    رکوع 29 ۔۔۔۔ رجعی طلاق، خلع، رجوع، حلالہ اور بیویوں کے ساتھ برتاؤ کے احکام بیان ہوئے۔
    رکوع 30 ۔۔۔۔ عدت، رضاعت کے احکام بیان ہوئے۔
    رکوع 31 ۔۔۔۔ فرمایا: کہ چھونے سے پہلے طلاق میں عورت کو نصف مہر ادا کرنا ہوگا اور پورے مہر کی ادائیگی تقویٰ سے قریب ہے۔ فرمایا: نمازیں پابندی اوقات سے ادا کرو۔
    رکوع 32 ۔۔۔۔ جہاد کرنے کا حکم ملا اور فرمایا کہ اس کی ضروریات کے سلسلے میں اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرو تاکہ وہ تمہارے مال کو برکت کے ذریعے کئی گنا زیادہ کردے۔ پھر بنی اسرائیل کے سلسلے میں جالوت اور طالوت کے قصے بیان فرمائے۔
    رکوع 33 ۔۔۔۔ فرمایا: فتح و نصرت کا انحصار لشکر کی قلت و کثرت پر نہیں یہ اللہ کی رحمت پر ہے۔

    جاری۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏جون 14, 2016
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. دو رمضان المبارک (حصہ دوم)

    پارہ سوم


    رکوع 34 ۔۔۔۔ فرمایا: قیامت سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ پھر کسی عمل کا موقع نہ ملے گا۔ فرمایا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے، خود قائم ہے اور تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ زمین آسمان میں سب اسی کا ہے۔ وہ ہر کسی کے حالات سے باخبر ہے۔ کسی میں طاقت نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے۔ ساری کائنات کی حفاظت اس کے لیے آسان ہے بلندی اور عظمت اسی کے لیے ہے۔ فرمایا: ہدایت اختیار کرنے والے کا رفیق و کارساز اللہ ہے اور کفر و سرکشی اختیار کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔

    رکوع 35 ۔۔۔۔ نمرود اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست پر کہ الٰہی مُردوں کو زندہ کرکے دکھا تاکہ یقین اور بڑھ جائے۔ فرمایا: چار پرندوں کو ذبح کرکے ان کا گوشت ٹکڑے کرکے پہاڑوں پر ڈال دے۔ فرمایا: کہ اب آواز دو۔ پرندے دوبارہ زندہ ہوکر دوڑتے آئیں گے۔ اللہ زبردست حکمت والا ہے۔

    رکوع 36 ۔۔۔۔ فرمایا: اللہ کی راہ میں خلوص دل سے مال خرچ کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے کا بدلہ کئی گنا ہے۔ جس طرح زمین میں ایک دانے کے سات خوشے اور ہر خوشے میں سو دانے نکلتے ہیں۔ دکھاوا اور ریاکاری سب کچھ ضائع کردیتی ہے۔ اگر ضرورت مند کو کچح دے نہ سکو تو اس سے نرم گفتاری سے پیش آؤ کہ اسے ایذا رسانی نہ ہو۔

    رکوع 37 ۔۔۔۔ اچھی اور محبوب چیز کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کا ثواب زیادہ ہوگا۔ اللہ تمہارے صدقہ و خیرات سے کلی بے نیاز ہے۔ جتنا خوش دلی سے دو گے وہ اور دے گا۔ بہتر ہے خیرات چھپا کر دو۔ خیرات کے مستحق خاص طور پر وہ ہیں جو خود داری کے سبب اپنی غربت ظاہر نہیں کرتے۔

    رکوع 38 ۔۔۔۔ اللہ کی رضا کی خاطر خیرات کرنے والوں کو نہ ماضی کا غم ہوگا نہ مستقبل کا۔ سود حرام ہے۔ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے۔ سود لینا چھوڑ دو، تنگ دست کو مہلت دو یا بخش دو۔ آخرت میں یہ تمہارے لیے فائدہ مند ہے۔ فرمایا: نماز قائم رکھو۔ زکوٰۃ ادا کرتے رہو تمہیں پورا پورا اجر ملے گا اور نہ خوف ہوگا نہ غم۔

    رکوع 39 ۔۔۔۔ جب بھی قرض دو لکھت پڑھت کرلیا کرو دو گواہ بھی رکھ لیا کرو۔ گواہوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ انصاف سے کام لیں۔ جب دستاویز لکھنا ممکن نہ ہو تو کوئی چیز رہن رکھ کر قرض لے لو۔ بہرحال رہن شدہ چیز سے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھائے ورنہ وہ بھی سود تصور ہوگا۔

    رکوع 40 ۔۔۔۔ سب مال و زر اور ارض و سماء میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ اللہ تمہارے دلوں کے راز جانتا ہے اور جزا و سزا پر قادر ہے۔ مسلمان بننے کے لیے لازم ہے کہ اللہ پر، فرشتوں پر، کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ کہ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ کامل ایمان کے لیے عقیدہ و احکام پر مکمل عمل ضروری ہے۔ سب کو اعمال کے مطابق سزا و جزا ہوگی۔ آخر میں دعا تعلیم فرمائی کہ الٰہی اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے تو مواخذہ نہ کرنا۔ پہلی امتوں کی طرح ہم پر بوجھ نہ ڈالنا۔ ایسی ذمہ داریاں ہم پر نہ ڈالنا جو ہم پوری نہ کرسکیں۔ ہمیں معاف فرما اور بخش دے۔ تو ہی ہمارا مولیٰ ہے۔ کافروں کے مقابلے میں مدد فرما۔

    ===============================================================
    (3) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ اٰلِ عمران ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 2
    ===============================================================​

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
    رکوع 1: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ حیّ القیوم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا جو اس سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اللہ کا علم بہت وسیع ہے۔ قرآن دو طرح کی آیات محکم اور متشابہات نازل ہوئیں۔ محکم جن کا مفہوم معلوم اور مقرر ہے۔ متشابہات جن کے مفہوم میں کچھ شبہ واقع ہوتا ہے۔ بعض بدطنیت لوگ مغالطہ دے کر لوگوں کو گمراہی میں پھنسانے کے لیے متشابہات سے اپنی رائے اور خواہش کے مطابق کھینچ کر مطلب نکالنا چاہتے ہیں حالانکہ ان کا صحیح مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ بہتر ہے محکمات پر مکمل عمل کیا جائے اور متشابہات کو محکمات کی روشنی میں دیکھے اور اگر شک ہو تو اللہ پر چھوڑ دے۔ پھر دعا تعلیم کی کہ اے اللہ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو پھر کجی میں مبتلا نہ کر اور ہم پر رحمت فرماتے رہنا۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ کفر کا رویہ اختیار کرنے والوں کو نہ مال اور نہ اولاد کسی کام آئے گی۔ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے۔ ان کا انجام آیات جھٹلانے والے فرعون کے ساتھیوں جیسا ہوگا۔ فانی اشیاء مثلاََ: عورتیں، بیٹے، سونا چاندی اور خزانے، گھوڑے، مویشی اور کھیتیاں ان سے فائدہ اٹھانا بری بات نہیں لیکن ان میں مگن ہوکر اصل مقصد حیات کو بھول جانا درست نہیں۔ متقیوں کے لیے جنت اور بڑا اجر ہے اور متقی بخشش مانگنے والے، صبر کرنے والے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے، رات کے آخری حصہ میں عبادت کرنے والے اور حکم بجالانے والے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ اصل دین پر قائم رہو اور یہود و نصاریٰ کی طرح گروہ بندیوں کا شکار نہ ہوجاؤ۔ نبی کا فرض صرف بات کو پہنچانا ہے۔
    ===============================================================​
     
    Last edited: ‏جون 14, 2016
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. تین رمضان المبارک (حصہ اول)

    ===============================================================
    (3) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اٰلِ عمران (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 3تا 20
    ===============================================================​

    رکوع 3
    ۔۔۔۔ کافر جو پیغمبروں اور عدل و انصاف کی تلقین کرنے والوں سے جھگڑا کرتے اور ان کا ناحق قتل کرتے ہیں، بڑے ظالم ہیں ان کو سخت سزا ملے گی۔ عیسائی من گھڑت مسئلے بناتے ہیں کہ ان کو سزا نہ ملے گی اگر ملی بھی تو چند یوم کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے۔ جان لیں آخرت اٹل ہے اور سب کو ان کے اعمال کے مطابق اجرو سزا ملے گی۔ بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔ ہر شے پر اس کا کلی اختیار ہے۔ کائنات میں ہر طرح کی تبدیلیوں پر وہی قادر ہے۔ مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں۔ اللہ کا علم وسیع ہے اور ہر شے پر حاوی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہمیشہ شر، برائی اور گناہ سے بچتے رہیں اور تقویٰ اختیار کریں۔

    رکوع 4۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور مکمل پیروی ہی اللہ سے محبت کا اظہار ہے۔ انبیاء کے سلسلہ کو بیان کیا۔ سیدہ مریم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش کا بیان آیا۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اولاد کے لئے دعا کی تو انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت دی گئی اور ان کی نشانی بتائی۔

    رکوع 5۔۔۔۔ فرشتوں نے حضرت مریم علیہ السلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی جو بِن باپ کے ہوں گے۔ وہ اللہ کے مقرب ہوں گے اور ماں کی گود میں بھی لوگوں سے باتیں کریں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم بھی وہی تھی کہ صرف اللہ کے سامنے جھکو یہی سیدھی راہ ہے۔ یہود نے حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف سازشیں تیار کیں لیکن وہ اللہ کی مضبوط تدبیر کو توڑ نہ سکے۔

    رکوع 6۔۔۔۔ اللہ نے کہا: اے عیسیٰ! میں تیری حفاظت کروں گا اور ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام کردوں گا۔ یہ تجھے پکڑ کر قتل نہ کرسکیں گے۔میں تجھے اوپر اٹھالوں گا۔ کافروں کی عبرتناک سزا ہوگی۔ فرمایا: نیکوکار لوگوں کے لئے اجرِ عظیم ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی سی ہے کہ مٹی سے بنایا اور حکم دیا ہوجا اور وہ ہوگیا۔ نجران کے عیسائی مناظرہ کے لئے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مباہلہ کا حکم ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل خانہ کو لے کر مباہلہ کےلئے آئے تو کافر انہیں دیکھ کر مقابلہ کا ارادہ چھوڑ گئے۔

    رکوع 7۔۔۔۔ مشرکوں کو کہو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کا شریک کسی کونہ ٹھہرائیں، اللہ کے سوا کسی کو رب نہ بنائیں۔ اگر وہ قبول نہ کریں تو کہو کہ گواہ رہو کہ ہم تو اس کے حکم کے تابع ہیں۔ فرمایا: کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی یا نصرانی نہ تھے وہ دینِ حنیف پر تھے۔ اہل کتاب خود گمراہی میں مبتلا ہیں۔

    رکوع 8۔۔۔۔ اہل کتاب کی چالاکیوں اور خیانتوں کا ذکر کیا گیا اور فرمایا: ان میں کچھ منافقین کہتے ہیں کہ صبح ایمان لاؤ شام کو انکار کردو۔ اصل میں یہ مکاریاں مسلمانوں سے حسد کی بناء پر ہیں۔ پھر دینی خیانت کے ساتھ ان کی دنیوی خیانت بھی بیان کردی۔ فرمایا: خیانت کرنے والوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ فرمایا: نبی تو لوگوں کو کفر سے نکال کر اسلام میں داخل کرتا ہے وہ کفر کی تعلیم نہیں دے سکتا۔ یہی اہل کتاب اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔

    رکوع 9۔۔۔۔ نبیوں سے عہد لیا کہ وہ اللہ کی بندگی سکھائیں گے، وہ اپنی تعلیم کبھی نہیں دیتے۔ جو کوئی اسلام میں داخل ہونے کی بجائے خود ساختہ دین کے متلاشی ہیں، وہ نافرمان ہیں۔ انہیں عبرتناک عذاب ہوگا اور عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی اور جو صاحب ایمان ہوکر کافرانہ زندگی اختیار کرے س کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ جو اس حالت میں مرگئے زمین بھر سونا بھی اس کا فدیہ قبول نہ ہوگا اور انہین درد ناک عذاب ہے۔

    رکوع 10۔۔۔۔ قربانی عزیز ترین چیز کی ہونا چاہئے۔ کھانے کی یہ ساری چیزیں جو اسلام میں حلال ہیں، بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں۔ البتہ بعض چیزیں تورات کے نازل ہونے سے پہلے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کرلی تھیں، اللہ نے حرام نہ کی تھیں۔ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والا ظالم ہے۔ فرمایا: کہو تم ابراہیم علیہ السلام کا اتباع کرو وہ شرک کرنے والے نہ تھے۔ فرمایا: اولین عبادت گاہ خانہ کعبہ ہے اس میں کھلی نشانیاں ہیں جیسے مقام ابراہیم۔ فرمایا: خانہ کعبہ کا حج لوگوں پر اللہ کا حق ہے۔ اہلِ کتاب کا کہا نہ مانو یہ تمہیں گمراہ کردیں گے۔ مسلمان ایمان لانے کے بعد کفر نہیں کرسکتا جب ان میں اللہ کا عظیم پیغمبر موجود ہے جس نے مضبوطی کے ساتھ دینِ الٰہی پالیا اس نے راہِ ہدایت پالی۔

    رکوع 11۔۔۔۔اللہ سے ڈرتے رہو اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو۔ یہ اللہ کا احسان تھا کہ تم کو جو بکھرے تھے، یک جان کردیا۔ فرمایا: اپنے میں سے ایک جماعت دعوت و تبلیغ کے لیے قائم رکھو، جو لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتی ہے۔ فرقہ بندی میں مت پڑو۔ مرتد، منافق اور کافروں سے اللہ سوال کرے گا کہ تم ایمان لانے کے بعد کفر بھی کرتے رہے۔ اب عذاب چکھو۔ یہ سب روسیاہ ہوں گے۔ صاحب ایمان اور متقی اللہ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور ان کے نورانی چہرے سفید چمکتے ہوں گے۔ یہ اللہ کی آیات ہیں۔ اللہ قطعاََ کسی پر ظلم پر نہ کرے گا اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔

    جاری۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏جون 14, 2016
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. تین رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 12
    ۔۔۔۔ تمام امتوں سےتم بہترین امت ہو جو اللہ پر ایمان لائے ہو۔ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو، برائی سے منع کرتے ہو۔ نافرمان اہل کتاب تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ انہوں نے اللہ کا غصہ کمایا ہے اس لئے کہ آیات کا انکار کیا اور نبیوں کو قتل کیا اور نافرمان ہیں۔ کچھ اہل کتاب سیدھی راہ پر قائم ہیں۔ ذکرِ نیم شب کے علاوہ سجدے بھی کرتے ہیں، قیامت پر ایمان رکھتے ہیں، اچھائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ یہ لوگ نیک بخت ہیں۔ کافروں کا ٹھکانہ دوزخ ہے ان کا یہاں خرچ کیا آخرت میں کام نہ آئے گا۔ فرمایا: اے ایمان والو! غیروں کو راز دار نہ بناؤ، یہ تمہاری بربادی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ تم اہل کتاب کی دوستی کا دم بھرتے ہو لیکن وہ تمہاری جڑیں کاٹنے والے دشمن ہیں۔ تمہارے مصائب سے خوش اور خوشی سے حسد میں جلتے ہیں۔

    رکوع 13۔۔۔۔ غزوۂ احد پر تبصرہ فرمایا: کہ اگر غزوۂ بدر کی طرح نظم و ضبط، صبر و استقلال کیا جاتا اور دو جماعتیں بزدلی کا مظاہرہ نہ کرتیں تو یقیناََ اللہ کی مدد و نصرت ان میں شامل ہوتی۔ پھر بھی اللہ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی و طمانیتِ قلب حاصل ہو۔ اے پیغمبر! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں کوئی دخل نہیں کہ اللہ کس کو بخشتا ہے اور کس کو سزا دیتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر شے پر اللہ ہی کا قبضۂ اختیار ہے۔

    رکوع 14۔۔۔۔ سودی لین دین ترک کرکے تقویٰ اختیار کرو تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو۔ آگ سے بچنے کی کوشش کرو۔ اپنے معاملات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور رحمتِ الٰہی کے حقدار بنو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، لوگوں کی خطاؤں سے درگزر کرو۔ غلطی کی اسی وقت اللہ سے معافی مانگ لو۔ جان لو کہ محض زبان سے ایمان کا دعویٰ کرکے جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان کے ساتھ عمل اور پھر مصائب سے صبر کے ساتھ مقابلہ نہ کرو گے۔

    رکوع 15۔۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سول اور صداقت کے پیامبر ہیں۔ جس طرح ان سے پہلے بہت سے رسول پیغام حق دے کر چلے گئے، اسی طرح انہوں نے بھی ایک دن انتقال فرمانا ہے۔ تو کیا تم پھر حق سے پھر جاؤ گے۔ یادرکھو موت کا وقت مقرر ہے اور وقت سے پہلے موت نہیں آتی۔ پہلے بھی اللہ کے نیک بندوں نے انبیاء کی رفاقت میں اللہ کے دشمنوں سے جہاد کیا۔ مصائب و آلام پر ثابت قدم رہے اور اپنے رب سے استغفار کرتے رہے۔ ہم سے ثابت قدم رہنے اور مدد کی استدعا کرتے رہے۔ پروردگار نے انہیں دنیا اور آخرت میں بہترین صلہ عطا کیا اور وہ آخرت میں دائمی نعمتوں کے وارث بن گئے۔

    رکوع 16۔۔۔۔ مسلمانوں کو فرمایا کہ منکرینِ حق کی باتوں کو نہ مانیں اس میں سخت نقصان ہے۔ فرمایا: غزوۂ احد میں مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی نہ کرتے تو جیتی ہوئی جنگ ہار میں نہ بدلتی۔ بہرحال یہ بھی مسلمانوں کا ایک امتحان تھا اور اللہ نےان کا قصور معاف کردیا۔

    رکوع 17۔۔۔۔ مسلمانوں کو منافقت اختیار کرنے سے منع کیا۔ جہاد سے پہلو تہی کہ موت سے بچ جاؤ گے، فرمایا: موت و حیات تو اللہ قبضۂ اختیار میں ہے اور اس کے لیے وقت ازل سے مقرر ہے۔ اللہ کی راہ میں جان دینا بہت بڑی رحمت ہے۔ شہید کو حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے اور اللہ کا قرب ملتا ہے۔

    رکوع 18۔۔۔۔ جو لوگ زخم کھا کر بھی میدانِ جنگ میں رہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر فوراََ لپکے وہی متقی ہیں، ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ فرمایا: کہ اگر نافرمانوں کو کچھ ڈھیل ملی ہے تو اس لیے کہ وہ گناہوں میں اور ترقی کرکے دردناک عذاب میں مبتلا کردیے جائیں۔ فرمایا: کہ اللہ چاہتا تو غیب کی خبریں سب کو دے دیتا لیکن اس نے اپنے رسولوں میں جسے چاہا چن لیا اور جتنا علم انہیں دینا چاہے دے دیتا ہے۔ پھر بخل سے منع فرمایا۔

    رکوع 19۔۔۔۔ یہود نے اللہ کے حضور گستاخی کے کلمے کہے۔ انبیاء کا ناحق خون کیا اور دہکتی آگ کے عذاب سے مستحق ہوئے۔ فرمایا: اے پیغمبر یہ یہودو نصاریٰ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں انہوں نے آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا جو روشن کتاب لائے۔ فرمایا: ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ دنیا کی زندگی نہیں مگر دھوکے کی پونجی ہے۔ فرمایا: جان و مال کی آزمائش ہوگی اور کامیابی مصائب کا صبر و استقلال سے مقابلہ کرنے اور آزمائشوں سے گزر کر حاصل ہوگی۔ اللہ گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کرتا ہے کہ ہم عبرت حاصل کریں۔ فرمایا: یہودی علماء رشوتیں کھا کر غلط مسئلے بتاتے، ان لوگوں کی خوش فہمیاں انہیں عذاب سے نہ بچا سکیں گی۔

    رکوع 20۔۔۔۔ صاحبانِ بصیرت، تخلیقاتِ ارض و سماء جو کھلی نشانیاں ہیں اور اس نظام پر غور کرتے ہیں تو وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے پروردگار تو نے یہ نظام بے مقصد نہیں بنایا۔ تُو پاک ہے ہم کو بخش دے اور عذاب سے بچالے کیونکہ جس کو تو نے جہنم رسید کیا وہ ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہوا۔ ہمیں وہ سب عطافرما جس کا تونے اپنے رسولوں کی زبانی وعدہ فرمایا اور روز قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا۔ منکرین کو دنیا میں عیش و عشرت ملی تو یہ دائمی نہیں ان کا مستقل ٹھکانہ جہنم ہے۔ مسلمانو! ہمیشہ صبرو استقامت سے کام لو۔ اللہ سے ڈرتے رہ تاکہ اپنے مقصد میں کامیابی اختیار کرو۔
    ===============================================================​
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. چار رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ چہارم سورۃ النساء رکوع 1 تا 4
    پارہ پنجم سورۃ النساء رکوع 4 تا 20
    ===============================================================
    (4) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ النساء ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 20
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ فرمایا: اللہ سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر جوڑے بنائے اور قرابت داری کا خیال رکھو۔ یتیموں کا مال انہیں دے دو۔ ایک سے زیادہ نکاح تب کرو اگر انصاف کرسکو۔ حق مہر خوشی سے دو۔ یتیموں کی اچھی تربیت کرو اور انہیں اپنی اولاد پر قیاس کرو لڑکوں سے ساتھ لڑکیوں کو بھی میراث میں حصہ دار بنایا۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ میراث کی تقسیم تفصیل سے بیان فرمائی اور فرمایا: کہ میراث دو، وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد۔ جبکہ دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں جو پیروی کرے گا جنت میں جائے گا اور جو حد سے بڑھے گا وہ آگ میں جھونکا جائے گا۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ بدکار مردوں اور عورتوں کی سزا بیان کی۔ فرمایا: اللہ توبہ قبول کرتا ہے اور اگر برائی سے باز نہ آئیں اور گناہ پر انہیں ندامت نہ ہوتو اس کی جھوٹی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوتی۔ فرمایا: بیواؤں کو وراثت کے طور نہ لو اور ماؤں کا احترام کرو۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ محرم عورتوں کی تفصیل بیان کی گئی اور فرمایا: کہ حرام کردی گئیں تم پر تمہاری مائیں، بیٹیا، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھائی اور بہن کی بیٹیاں، رضاعی مائیں اور بہنیں اور بیویوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں، بیٹوں کی بیویاں، دو اکٹھی بہنیں اور وہ عورتیں جو کسی اور کے نکاح میں ہوں۔

    پارہ پنجم

    رکوع 4۔۔۔۔ نکاح کے لیے حق مہر کا تعین لازمی قرار دیا اور لونڈیوں سے نکاح کی شرائط بیان فرمائیں۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ فرمایا: اللہ چاہتا ہے کہ انسان کو حلال و حرام میں فرق معلوم ہوجائے۔ اسے راہ ہدایت پر چلنا نصیب ہو اور اللہ اپنے بندوں کے گناہ بخشے اور ان پر رحمت کرے۔ فرمایا: کہ ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔ آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ فرمایا: بڑے گناہوں سے بچو تو چھوٹے گناہ معاف کردیں گے۔ فرمایا: مرنے والوں کا مال وارثوں کا حصہ ہے۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ مرد، عورتوں کی ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کرنے والا اور کفیل و نگران مقرر کیا ہے۔ سرکش عورتوں کی اصلاح، مصالحت اور ثالثی بیان ہوئی۔ فرمایا: شرک نہ کرو۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔ حقوق العباد بیان ہوئے۔ بخل اور دکھاوے کو برا قرار دیا۔ فرمایا: قیامت کے دن کفار سخت پریشان اور پشیمان ہوں گے۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اگر پانی میسر نہ ہو تو تیمّم کرلو۔ یہود کی لڑائیاں بیان فرمائیں اور فرمایا کہ: مشرک کے لیے بخشش نہیں اور جھوٹ اور بہتان سخت گناہ ہیں۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ طاغوت اور بتوں کے فرمانبرداروں پر اللہ کی لعنت ہے۔ اللہ کی آیات کے منکر آگ کا ایندھن بنیں گے۔ ایماندار اور نیکوکاروں کو جنت کی نعمتیں ملیں گی۔ فرمایا: امانتوں کا احترام کرو اور عدل و انصاف سے کام لو۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرو۔

    رکوع 9 ۔۔۔۔ مسلمانوں کو ہر معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ دل سے تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر ایمان ناقص اور نامکمل ہوگا۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرنے والے روزِ قیامت نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔

    رکوع 10 ۔۔۔۔ جہاد کے لیے تیار رہو، اس کا بڑا اجر ہے۔ فرمایا: کہ مظلوموں کی مدد میں بھی جہاد کرو۔ شیطان کے چیلوں سے جنگ کرو، کامیابی تمہیں ہی ملے گی۔

    جاری۔۔۔۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. چار رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 11 ۔۔۔۔ جو لوگ جہاد سے جی چراتے ہیں جان لیں کہ موت سے کسی صورت بچ نہیں سکتے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔فرمایا: منافقین سے منہ موڑ لو اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھو۔ سنی سنائی بات کو بلاتحقیق آگے نہ پھیلاؤ۔ دعا کے جواب میں بہتر دعا دو۔

    رکوع 12۔۔۔۔ منافقوں اور مطلب پرستوں سے تعلق داری میں تمہیں کچھ نہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بداعمالیوں کے باعث دین سے محروم کردیا ہے۔ اللہ ہر شے کا مالک ہے جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہی دے۔ فرمایا: منافقوں پر قابو پاکر انہیں قتل کردو۔

    رکوع 13 ۔۔۔۔ مسلمان مسلمان کو قتل نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر غلطی سے قتل ہوجائے تو قاتل ایک مسلمان کو آزاد کرے اور اس کے گھروالوں کو خون بہا ادا کرے اور اگر وہ معاف کردیں تو یہ ان کی طرف سے صدقہ ہوگا۔ پھر قتلِ عمد کی سزا علیحدہ بیان کردی۔ مومن کوجان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا جہنم ہے اور غضب اور لعنت اللہ۔ فرمایا: کہ جہاد کرنے والے اور جہاد سے جی چرانے والے برابر نہیں۔ جہاد کرنے والوں کے لیے اجرِ عظیم ہے۔

    رکوع 14 ۔۔۔۔ ایمان لانے اور قرآن کو رہنما ماننے کے بعد دشمنوں کے خوف سے اپنے عقائد پر آزادانہ عمل نہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ کیا اللہ کی زمین تم پرتنگ ہے کہ ہجرت نہیں کرتے۔ جنہوں نے ہجرت کی راہ اختیار کی اللہ کی راہ میں، اللہ انہیں کشادہ ٹھکانے دے گا اور اس کا ثواب دے گا۔

    رکوع 15 ۔۔۔۔ سفر میں نماز قصر کرلیا کرو یعنی چار فرض کے بجائے دو فرض کرلو۔ نمازِ خوف کی ادائیگی کا بیان آیا اور فرمایا: دشمنوں کو ڈھیل نہ دو۔

    رکوع 16 ۔۔۔۔ دنیادار کی سرگوشیاں اور کانا پھوسیاں کوئی اچھا کام نہیں۔ جو حق و صداقت کے واضح ہوجانے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے روگردانی کرتا ہے، قول و عمل سے قرآن و سنت کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ اسے دنیا میں اسی کے راستہ پر چلاتا ہے اور مرنے کے بعد اسے جہنم میں جھونک دے گا۔

    رکوع 17 ۔۔۔۔ (ترجمہ فی الحال کتاب میں موجود نہیں)

    رکوع 18 ۔۔۔۔ فرمایا: غیر اللہ کو خدا سمجھ کر پکارنا یعنی شرک کے لیے کوئی بخشش نہیں۔ شرک صرف غیراللہ کو پکارنا یا پوجنا نہیں بلکہ شیطان مردود کی تابعدار بھی شرک ہے۔ شیطان کے وعدے فریب اور دھوکا ہیں ان سے نفع نہیں یہ راستہ دوزخ کو جاتا ہے۔ اللہ نیکوکاروں کو جنت میں داخل کرے گا، نیکی کا پورا ثواب ملے گا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: کہ دین ان کا ہی سب سے اچھا ہے جو دل سے اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں۔

    رکوع 19۔۔۔۔ اگر عدل و مساوات کے ساتھ معاشرتی حقوق ادا کرسکو تو چار تک نکاح کرسکتے ہو اور تمام معاملات خواہ وہ مہر، وراثت، نان و نفقہ، نگہداشت یا اخلاقی تربیت ہو تمہیں اللہ کے احکام کو ماننا ہوگا۔ اسی طرح یتیموں کے معاملے میں عدل و انصاف سے کام لو۔ زمین و آسمان میں سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور وہی کارساز ہے۔

    رکوع 20 ۔۔۔۔ انصاف پر قائم رہو اور ہمیشہ سچی گواہی دو خواہ وہ تمہارے والدین یا قرابت داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ فرمایا: اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پختہ ایمان ہونا چاہیے۔ متزلزل یقین والے منافق ہرگز نہ بخشیں جائیں گے۔ فرمایا: بری مجلس جہاں اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جائے نہ بیٹھو کہ کہیں تم بھی انہیں میں سے نہ ہو جاؤ۔
    ===============================================================​
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. پانچ رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ ششم سورۃ النساء رکوع 21 تا 24
    پارہ ششم سورۃ المائدہ رکوع 1 تا 11
    پارہ ہفتم سورۃ المائدہ رکوع 11 تا 16​

    ===============================================================
    (4) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ النساء (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 21 تا 24
    ===============================================================​

    پارہ ششم

    رکوع 21 ۔۔۔۔ منافقین کی پانچ ظاہری علامات بیان کیں۔
    1۔ خود دھوکہ میں مبتلا لیکن اپنے خیال میں اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں۔
    2۔ سستی اور بے دلی سے نماز پڑھتے ہیں۔
    3۔ نماز بغیر خلوص کے صرف دکھاوا اور ریا ہوتی ہے۔
    4۔ اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔
    5۔ ایمان اور کفر کے درمیان لٹکے رہتے ہیں۔ نہ دل سے ایمان قبول کرتے ہیں اور نہ کھل کر کفر کا ساتھ دیتے ہیں۔
    فرمایا: کفار سے دوستی نہ رکھو۔ توبہ کرنے والے شکر گزار کر بن کر رہنے والوں کو بڑا ثواب ملے گا۔ اللہ پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی ظاہر ہو مگر مظلوم کو ظلم کے خلاف فریاد کا حق دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ وہ صبر کرکے معاف کردے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر اور اللہ کے رسولوں میں فرق نکالنے والے اصلی، مکمل کافر ہیں ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے کا بے حد ثواب ہے۔

    رکوع22 ۔۔۔۔ اہلِ کتاب کے سوال، یہود کی زیادتیاں، بداعمالیاں اور ان کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سلوک، حیات و ممات مسیح کا بیان ہوا۔ فرمایا: ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور اللہ پر یقین رکھنے والوں کو بڑا ثواب ہے۔

    رکوع 23 ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی بھیجی جیسے دوسرے نبیوں پر بھیجی۔ اس کا مقصد اللہ کے احکام پر عمل کرنے والوں پر رحمتوں کی خوشخبری اور منکروں کو دردناک عذاب کی وعید سناتا ہے تاکہ روزِ قیامت لوگوں کو کوئی عذر اور اللہ پر حجت نہ رہے۔ اللہ بدکرداروں کو نہ تو معاف کرے گا اور نہ سیدھی راہ دکھائے گا اور جہنم کی آگ میں جھونک دے گا۔ اے بنی نوع انسان تمہارے پاس آخری رسولِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم سچائی لے کر آچکا بس اس کے کہے کا یقین کرو اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ اگر اس سچائی سے انکار کرو گے تو اللہ کی الوہیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں کوئی فرق نہ آئے گا البتہ تم ہی اپنا نقصان کرو گے۔ فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام مریم علیہ السلام کا بیٹا، اللہ کا ایک حکم ہے۔ تمہارا بغیر کسی شریک کے تمہارا معبود ہے۔ اس کی ذات اولاد کی صفت سے پاک و منزہ ہے۔ ارض و سماء میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے اور وہی سب کا وکیل و کارساز ہے۔

    رکوع 24 ۔۔۔۔ اللہ ایمانداروں اور نیکوکاروں کو پورا ثواب اور تکبر کرنے والوں کو دردناک عذاب دے گا۔ نیک بندے وہ ہیں جنہوں نے قرآن مجید کو مضبوط پکڑا اور اللہ کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کیا ان پر رحمتوں کا نزول ہو گا۔ پھر کلالہکی وراثت کے احکام بیان ہوئے۔

    ===============================================================
    (5) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ المائدہ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 16
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے​

    رکوع 1 ۔۔۔۔ فرمایا مسلمانو! احکامِ الٰہی کی تکمیل و اطاعت کا عہد پورا کرو۔ حالتِ احرام میں شکار جائز نہیں۔ مسلمانو! شعائراللہ کی بے حرمتی نہ کرو اور بے حرمتی نہ کرو حرمت کے مہینوں کی، قربانی کے جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے ڈال دیئے گئے ہیں۔ نقصان نہ پہنچاؤ بیت اللہ کو آنے والے تاجروں کو۔ مشرکوں نے تمہیں حج سے روکا تھا تم اس کے بدلے میں حاجیوں کو نہ روکو۔ تم تو نیک کام میں مدد کرو اور برائی نہ کرو۔ مسلمانو! تم پر حرام ہوا مردار جانور، خون، سُور کا گوشت اور جس جانور پر غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو ذبح کے وقت۔ فرمایا: تمہارے لیے دین مکمل ہوگیا۔ پھر حلال چیزوں کی تفصیل بیان فرمائی۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ وضو، غسل اور تیمم کا بیان آیا۔ فرمایا: اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کو ہمیشہ یاد رکھو اسی کو پورا کرنے پر نجات کا دارو مدار ہے۔ تم عدل و صداقت کے پیکر بن جاؤ۔

    رکوع 3۔۔۔۔ بنی اسرائیل سے بھی اللہ نے عہد لیا تھا لیکن انہوں نے عہد کو توڑا۔ عیسائیوں نے بھی عہد فراموش کردیا۔ فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور علماء یہود کلام الٰہی میں تحریف کردیتے۔فرمایا: ہمارا رسول تمہارے پاس آچکا اور روشن کتاب آچکی جو ایمان والوں کو جہل و گمراہی کی تاریکیوں سے نکالتا اور علم و بصیرت کی روشنی میں لاتا ہے۔ عیسائیوں نے کفر کیا کہ مسیح ابن مریم خدا ہے۔ یہودونصاریٰ کا یہ کہنا کہ ہم خدا کے چہیتے ہیں ہم کچھ بھی کریں ہمیں نجات ہی نجات ہے تو ان سے پوچھو کہ پھر اللہ تم پر عذاب کیوں نازل کرتا رہا۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو ملک شام جو ان کے آباء کا وطن ہے فتح کرکے وہاں آباد ہونے کا کہا۔ جہاد کا حکم دیا اور ان کو اللہ کی ان پر مہربانیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ قوم نے کہا کہ جب تک وہاں کی دیوقامت قوم وہاں سے نکل نہ جائے وہ نہ جائیں گے۔ دو صاحبانِ ایمان نے بھی ان کو سمجھایا لیکن قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تم جاؤ اور اپنے پروردگار کو بھی ساتھ لے جاؤ ہم تو یہیں رہیں گے۔ اللہ نے اس قوم پر وہ جگہ چالیس سال کے لیے حرام کرکے انہیں صحرائے سینا میں بھٹکائے رکھا۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ بیان ہوا۔ فرمایا: کہ ایک ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو حیاتِ نو بخشی۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے والوں اور ملک میں بدامنی پھیلانے والوں کی سزا ہے کہ انہیں قتل کیا جائے، سولی چڑھایا جائے یا مخالف جانب سے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں یا ملک بدر کیا جائے۔ دنیا میں یہ ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم تیار ہے۔ لیکن وہ لوگ جو پکڑے جانے سے پہلے توبہ کرلیں تو اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ ایمان والوں سے فرمایا: کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔ کفر کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے معافی نہیں، دردناک عذاب ہے۔ چوری کی سزا مردو عورت کے چوری کرنے پر ہاتھ کاٹ ڈالو۔ فرمایا: پھر جس نے اپنے اوپر ظلم کے بعد توبہ کرلی اور اصلاح کی تو اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ عدل و انصاف کا حکم دیا۔ فرمایا: کہ ارض و سماء کی حکومت صرف اللہ کی ہے وہ جسے چاہے بخش دے یا عذاب دے وہ ہر شے پر قادر ہے۔

    جاری۔۔۔۔
    ===============================================================​
    کلالہ: مرنے والا/والی جو بے اولاد ہو اور جس کے والدین بھی زندہ نہ ہوں۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. پانچ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 7۔۔۔۔ تورات اور انجیل کی شان کا ذکر کرکے اور قرآن مجید کا وصف بیان کرکے فرمایا: کہ سب کتابیں برحق اور ایک دوسرے کی مددگار ہیں۔ فرمایا: کہ لوگ خواہشاتِ نفسانی کی بجائے قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں اور آخرت کی تیاری کریں۔ نافرمان جاہلیت کے زمانہ کا حکم چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہوں۔ یہ لوگ انسان کی شکل میں جانور ہیں اور جانور جیسی مادر پدر آزادی کے خواہش مند ہیں۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ آپس میں ایک ہیں اور دورُخی پالیسی رکھتے ہیں۔ مسلمانو! تمہارے حقیقی دوست و مددگار صرف اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احکام دین پر عمل کرنے والے وہ مخلص مومن ہی ہیں جو نماز قائم کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے اور ہر حال میں اللہ کے حضور خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔

    رکوع 9 ۔۔۔۔ مسلمانوں کو دوبارہ تاکید کی گئی کہ یہودو نصاریٰ اور ان لوگوں سے جو تمہارے دین کا مضحکہ اڑاتے ہیں، نماز اور اذان کا تمسخر اڑاتے ہیں، یہ عقل سے خالی اور لعنت و غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے ہیں۔ ان کے بزرگوں اور علماء کو کیا ہوگیا ہے کہ حرام خوری اور جھوٹ بولنے سے انہیں منع نہیں کرتے۔ یہود کی گستاخیاں کہ اللہ کے ہاتھ بندھ گئے ہیں، اللہ نے ان پر لعنت کی اور فرمایا: کہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں اور جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے مگر یہ اپنی سرکشی، نافرمانی اور کرتوتوں کی وجہ سے اللہ کا غضب اور اس کی لعنتیں سمیٹ رہے ہیں۔

    رکوع 10 ۔۔۔۔ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچاؤ اور دشمنوں کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر دینِ حق کی تبلیغ کرتے رہو اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محافظ ہے۔ فرمایا: جب تک اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کریں، قیامت کو برحق سمجھ کر عمل صالح نہ کریں اس وقت تک آخرت کے غم اور اندوہ اور حزن و ملال سے چھٹکارا نہ پائیں گے۔ فرمایا: تثلیث کا عقیدہ کفر ہے۔ مسیح علیہ السلام مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول ہے۔ یہ دونوں خوراک کے محتاج تھے اور اللہ ان باتوں سے پاک ہے۔

    رکوع 11 ۔۔۔۔ بنی اسرائیل نافرمانی میں حد سے گزر کر پہلے داؤد علیہ السلام اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی لعنت کیے گئے۔ فرمایا: یہود سے دوستی پر کبھی اعتماد نہ کرو یہ تمہارے بدترین دشمن ہیں اور نصاریٰ قدرِ کم اور وہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں جو تکبر نہیں کرتے۔

    پارہ ہفتم

    رکوع 11 ۔۔۔۔ بعض ایسے رقیق القلب اور عارف حق ہیں کہ اللہ کا کلام سنتے ہی ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتیں اور آنسو بہہ پڑتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم اس کلام پر ایمان لائے اور ہمیں دین حق کی گواہی دینے والوں میں شامل فرما۔ اللہ نے ان کے لیے جنت کے باغ اور منکروں اور آیتوں کے جھٹلانے والوں کے لیے دوزخ تیار کررکھی ہے۔

    رکوع 12 ۔۔۔۔ حلال چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔ قسموں کے بارے میں احکام بیان ہوئے۔ فرمایا: شراب، جوا، بت پرستی، فال کے طریقے سب شیطانی کام ہیں۔ ان سے دور رہو جیسے بول وبراز اور گندی چیزوں سے دور رہتے ہو تاکہ فلاح حاصل کرو کیونکہ شیطان ان گندی چیزوں کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت، کینہ بغض و عناد پیدا کرنا چاہتا ہے۔ فرمایا: لوگو! اللہ کا کہا مانو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو، کتاب اللہ کے مطابق زندگیاں بسر کرو اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں خلل انداز ہونے والے کاموں کو چھوڑ دو۔ تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرو اور اس میں بڑھتے چلے جاؤ۔

    رکوع 13 ۔۔۔۔ جب حج کے لیے نکلو تو احرام کی حالت میں شکار نہ مارو اور جو کوئی جان بوجھ کر شکار کرے تو اسی کے برابر جانور خرید کر جرمانہ دینا ہوگا جو محتاجوں کو کھلایا جائے۔ تمہارے لیے سمندر اور دریا کا شکاراور اس کا کھانا ایسی حالت میں حلال ہے۔ حرم کا احترام قائم رہنا چاہیے۔ خبیث و طیب چیزیں ایک جیسی نہیں اسی طرح ناپاک اور پاک باز انسان برابر نہیں ہوسکتے۔

    رکوع 14 ۔۔۔۔ مومنو ایسے سوال نہ کیا کرو کہ ان کے جواب سے تم میں رنج و غم پیدا ہو۔ یہ جو بتوں کے نام پر جانور چھوڑ کر انہیں مقدس سمجھتے ہیں یہ سب خرافات اور توہم پرستی ہے جس کا اللہ حکم نہیں دیتا۔ مرنے سے پہلے وصیت کرتے وقت دو گواہ بناؤ۔ ہرحال میں تقویٰ اختیار کرو، اللہ کے احکام کے منکر آخر کار رسوا ہوں گے۔

    رکوع 15 ۔۔۔۔ قیامت کے دن اللہ سب پیغمبروں سے سوال کرے گا کہ لوگوں نے تمہاری تبلیغ کا کیا جواب دیا۔ رسول کہیں گے کہ سب کچھ اللہ ہی کو معلوم ہے جو چھپی باتوں کو جانتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کیے گئے انعامات اور معجزات کا تذکرہ فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ ناشکروں کو ایسی سزا دوں گا جو زمانہ میں کسی کو نہ دی ہو۔

    رکوع 16 ۔۔۔۔ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے گا کیا تونے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ معبود بنالو۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ تو شرک سے پاک ہے۔ میری کیا مجال کہ ایسا کہوں، میں نے وہی کہا جس کا کہنے کا تو نے مجھے حکم دیا۔ اگر تو ان کو بدکاریوں کی سزا دے تو تجھے کوئی روکنے والا نہیں اور اگر معاف کردے تو تو زبردست حکمت والا ہے۔ فرمایا: کہ آج صادقین کو صداقت اور نیکوکاری نفع دے گی اور وہ ہمیشہ جنت کے باغوں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، رہیں گے اور اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور ارض و سماء میں ہر چیز کا مالک فقط اللہ ہے اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔
    ===============================================================​
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. چھ رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ ہفتم سورۃ الانعام رکوع 1تا 13
    پارہ ہشتم سورۃ الانعام رکوع 14تا 20
    ===============================================================
    (6) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الانعام ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 20
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔​

    رکوع 1۔۔۔۔ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ارض و سماء کو پیدا کیا۔ اندھیرا اور روشنی بنائی پھر بھی کافر شرک کرتے ہیں۔ اسی رب نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور عمر مقرر کردی اور اس نے اس کائنات کی بھی مدت مقرر کردی۔ تمہارا رب سب ظاہری اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ فرمایا: کہ جب ان کے پاس اللہ کی کوئی نشانی (قرآن مجید) آتی ہے تو منہ موڑ لیتے ہیں انہیں اس بدعملی کی سزا جلد ملے گی۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان سے زیادہ قوت اور دبدبہ والی خوشحال قومیں برائیوں اور نافرمانی کے باعث کیسے مٹا دی گئیں۔ اگر ہم کتاب کو کاغذ پر لکھ کر بھجواتے تو یہ اسے جادو کہتے۔ پھر اعتراض کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کو فرشتے کیوں نہیں آتے مگر ان میں فرشتوں کو دیکھنے کی طاقت کہاں؟ فرمایا: کہ رسولوں کی ہنسی اڑانے والوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

    رکوع 2۔۔۔۔ زمین میں گھومو پھرو۔ گزشتہ قوموں کے آثار دیکھو اور پیغمبروں اور حق کو جھٹلانے والوں کا انجام دیکھو۔ ارض و سماء اور ان میں ہر شے کا مالک اللہ ہے۔ اس نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ وہ قیامت کے دن سب کو اکٹھا کرکے جزا اور سزا دے گا۔ وہی قادر مطلق ہے، اس کی اطاعت لازمی ہے، شرک سے نفرت کا اظہار کرو اور کہو اللہ واحد و یکتا ہے۔

    رکوع 3۔۔۔۔ سب سے بدبخت اور ظالم وہ لوگ ہیں جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرتے اور اس کے احکام کا انکار کرتے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش کیے جاؤ گے تو اللہ مشرکوں سے پوچھے گا بتاؤ وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم ہمارا حصہ دار بناتے تھے۔ وہ قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم نے شرک کیا ہی نہیں۔ لیکن یہ کذب بیانی ان کےکام نہ آئے گی۔ بعض چالباز مسلمانوں سے کہتے ہیں یہ پرانے قصے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں مگر ان کا مقصد سمجھنا نہیں۔ باہر آتے ہی لوگوں سے کہتے ہیں کہ لوگوں ان کی باتیں مت سنو۔ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ایک دن انہیں دوزخ پر کھڑا کیا جائے گا۔ یہ دنیا میں دوبارہ جانے کی تمنا کریں گے کہ کاش ہم آیتوں کو نہ جھٹلاتے۔ یہ وہ سخت دل ہیں کہ اگر یہ دوبارہ دنیا میں جائیں تو وہی کچھ دوبارہ کریں گے۔ قیامت کے دن ان کے لیے عذابِ الٰہی تیار ہے۔

    رکوع 4۔ روزِ جزا کو جھٹلانے والوں پر جب قیامت کی گھڑی اچانک آئے گی تو وہ حسرت و یاس کے عالم میں افسوس کریں گے کہ کیوں انہوں نے احکامِ الٰہی کو نظر انداز کیا اور بد اعمالیاں کیں۔ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین نہ ہوں ان لوگوں نے پہلے پیغمبروں کو بھی جھٹلایا ہے۔ فرمایا: لوگو! اگر تم پر افتاد آپڑے تو کیا غیراللہ کو پکارو ے؟ نہیں، صرف اللہ کو۔ جو اگر چاہے تو تمہاری فریاد رسی کرے گا۔

    رکوع 5۔۔۔۔ پہلی قوموں کی طرف بھی پیغمبر بھجوائے اور ان کی سرکشی اور انکار کے باعث وہ نیست و نابو کردی گئیں۔ ہم نے رسول ڈرانے اور خوشخبری دینے کو بھیجے۔ جو ایمان لایا، سنور گیا اور جس نے جھٹلایا، عذاب کا مستحق ٹھہرا۔ آپ بتادیں کہ میرے پاس نہ اللہ کے خزانے ہیں نہ علم غیب ہے نہ فرشتہ ہوں۔ میں وہی کہتا ہوں جو وحی آئے۔

    رکوع 6۔۔۔۔ متقی وہی بن سکتا ہے جو اللہ سے ڈرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلوص والوں کو دور نہ کریں بلکہ ان کی دلجوئی کریں۔

    رکوع 7۔۔۔۔ رسول کسی انسان کا پیرو نہیں ہوتا۔ منکروں کا فیصلہ اللہ پر ہے اور سزا دینا بھی اللہ ہی کا کام ہے۔ غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں اور اس کے علاوہ کوئی کچھ نہیں جانتا۔ انسان تو دن کو کام کرتا ہے اور رات کو تھک کر سوجاتا ہے پھر وہ ہمیشہ کے لیے سوجائے گا اور اٹھے گا تو سب اعمال اس کے سامنے ہوں گے پھر وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔

    رکوع 8۔۔۔۔ ہر مشکل میں اللہ ہی حقیقی مددگار ہے۔ وہ ہر طرح کا عذاب بھیج سکتا ہے اس نے ہر چیز کا وقت مقرر کررکھا ہے۔ فرمایا: کہ آیتوں کے جھگڑا کرنے والوں، ٹھٹھا مذاق کرنے والوں کے پاس سے اٹھ جائیں، جب یہ ایسا کریں۔ نیک لوگوں کی ذمہ داری نصیحت کرنا ہے۔ ان لوگوں سے بچو جنہوں نے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے۔ قیامت کے دن اپنے گناہوں کی شامت نے انہیں گھیر رکھا ہوگا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

    رکوع 9۔۔۔۔ اللہ کی صفات بیاں کیں کہ وہ سب کا پالنہار ہے۔ قیامت میں اسی کے سامنے اکٹھا ہونا ہے۔ اس نے آسمان اور زمین بنائی۔”کُن “ کہہ دے تو سب ہوجاتا ہے۔ قیامت کے دن کا بادشاہ وہی ہے۔ وہ چھپے اور کھلے کا واقف ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا جو ذاتِ خداوندی پر غور کرنے کی عمدہ مثال ہے۔ فرمایا: جنہوں نے اپنا ایمان بچالیا وہی سیدھی راہ پر ہیں۔

    رکوع 10۔۔۔۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دنیا کی چیزوں اور واقعات سے بالکل ٹھیک نتیجہ نکالنے کی سمجھ عنایت کی گئی تھی اور ان کو نبیوں کے گروہ میں ممتاز کیااور ان کی توحید پرستی کے انعام میں ان کی نسل سے نبی پیدا کیے جو برگزیدہ اور ہدایت یافتہ مقبول لوگ تھے۔ تم بھی ان لوگوں کی پیروی کرو اور دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہوجاؤ۔

    جاری۔۔۔۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. چھ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 11۔۔۔۔ بعض لوگوں نے اللہ کی صفات کا پورا پورا اندازہ نہیں لگایا اور پھر وحی الٰہی کا انکار کیا۔ ان کے پوچھئے کہ تورات جس کو تم مانتے ہو، موسیٰ علیہ السلام کو کس نے دی؟ اور یہ کتاب (قرآن مجید) جسے ہم نے اتارا ہے اس میں فائدے نہ ختم ہونے والے ہیں۔ آپ مکہ اور اس کے اطراف والوں کو اس کے فوائد بتائیں اور برے انجام سے ڈرائیں۔ لوگ اس کے احکام پر چلیں، نماز قائم کریں جو فرمانبردار کا نشان ہے۔ انکار کرنے والوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ عیش و عشرت کا سامان سب یہیں رہ جائے گا اور تم جس طرح خالی ہاتھ آئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ جاؤ گے اور مرتے وقت تم تنہا ہو گے کوئی تمہارا سفارشی تمہارے ساتھ نہ ہوگا۔

    رکوع 12۔۔۔۔ بتایا گیا کہ کس طرح دانہ زمین میں پھٹ کر غلہ کے پودے، گٹھلی پھٹ کر درخت، انڈے سے زندہ جانور، اندھیرے سے روشنی، حساب کے لیے سورج، چاند کو پیدا کیا گیا۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ ان کو بنانے والا بڑی قوت اور قدرت والا ہے۔ فرمایا: تمہیں بھی ایک شخص آدم علیہ السلام سے پیدا کیا۔ اس نے آسمان سے پانی اتارا اور سب پھل اور سبزیاں پیدا کیں۔ بعض کہتے ہیں فرشتے اللہ کے بیٹے بیٹیاں ہیں، یہ سب جہالت ہے۔ اللہ ان باتوں سے پاک اور بلند ہے۔

    رکوع 13۔۔۔۔ اللہ کی کوئی بیوی اور اولاد نہیں۔ معبود فقط وہی ہے اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ تم کائنات کو دیکھ کر اللہ کو پہچانو۔ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان نگہبان نہیں اور نہ ہی ان کے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔ پھر رواداری کی تعلیم دی کہ تم ان کے معبودوں کو برا نہ کہو کہ کہیں وہ تمہارے رب کو بغیر سمجھے برا نہ کہیں۔ سنو! جو لوگ انکار اور سرکشی پر ڈٹے ہوئے ہیں اللہ ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیر دے گا اور وہ اسی کے اندر بھٹکتے رہیں گے۔


    پارہ ہشتم

    رکوع 14۔۔۔۔ اللہ کے فرشتے بھی آجائیں اور مُردوں کو قبروں سے اٹھا کر ان سے ہمکلام کرادیا جائے تو بھی یہ لوگ ایمانے لانے والے نہیں سوائے یہ کہ اللہ چاہے۔ قرآن مجید کے احکام اٹل ہیں اور بھٹکنے والوں کو اور راہِ راست پر چلنے والوں کو سب سے زیادہ اللہ ہی جانتا ہے۔ اللہ کے نام پر کیے گئے جانور کھاؤ، گناہ نہ کرو اور غیراللہ کا ذبیحہ حرام ہے۔

    رکوع 15۔ایمان روشنی اور کفر تاریکی ہے۔ اللہ جسے دین کی روشنی عطا کرے وہ کب برابر ہوسکتا ہے کسی جاہل، کافر، مشرک کے، جو اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔ ہرجگہ دین حق کی مخالفت وہاں کے مالدار بدقماش سردار ہی کیا کرتے ہیں تاکہ ان کا جھوٹا وقار اور اقتدار قائم رہے۔ پھر وہ ویسی ہی نشانیوں کے طالب ہوتے ہیں جو ہم اپنے رسولوں کو دیتے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ یہ مکار چالباز اپنی متکبرانہ شرارتوں کی وجہ سے جلد عذابِ شدید کا نشانہ بنیں گے۔ یاد رکھو دینِ اسلام ہی پروردگار کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ اور سیدھی راہ ہے۔

    رکوع 16۔۔۔۔ قیامت کے دن جن و بشر سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس ہمارے رسول نہیں آئے تھے اور ہماری آیات آیات سنا کر آج کے دن سے نہ ڈرایا ٹھا۔ سب جواب دیں گے ہم غلطی پر رہے کہ خود کو بڑی آفت میں پھنسا لیا ہے۔ اللہ نے کسی کو ناحق سزا نہیں دی اور اسے تمہارے ماننے نہ ماننےکی بھی پرواہ نہیں۔ اللہ نے اپنی رحمت سے کھیتی اور مویشی پیدا کیے۔ ان کافروں نے اللہ کے ساتھ جھوٹے معبودوں کا بھی حصہ نکالا جن کا کوئی دخل نہ تھا۔ انہیں اللہ کی بے ادبی کی سخت سزا ملے گی۔ دن میں جانوروں کی قربانی تھی، شیطان نے ان سے اولاد کو بتوں کے نام پر قربان کرایا۔ اس طرح دین کی کئی غلط شکلیں پیدا کیں جو سب گمراہی ہی گمراہی ہے۔

    رکوع 17۔۔۔۔ اللہ کی مہربانیاں دیکھو، اس نے باغ پیدا کیے کہ پھل کھاؤ۔ جانور پیدا کیے کچھ بوجھ اٹھانے والے، کچھ دودھ اور گوشت فراہم کرنے والے۔ اللہ کی حلال چیزوں کو بلاتامل کھاؤ اور شیطان کی پیروی سے بچو۔

    رکوع 18۔۔۔۔ مردار جانوروں، بہتا خون، سؤر کا گوشت، غیراللہ کے نام کا ذبیحہ تم پر حرام ہیں۔ حق و صداقت کی تکذیب کرنے والے نافرمان، انجام کار عذابِ الٰہی کا لقمہ بن کر صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹادیئے جاتے ہیں۔

    رکوع 19۔ ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بتادیں کہ قرآن مجید کے ذریعے جن باتوں کی ممانعت فرمائی گئی ہے اور جن کے احترام کا حکم دیا گیا وہ یہ ہیں:۔

    1۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
    2۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔
    3۔ مفلسی کے ڈر سے اولاد کو ہلاک نہ کرو، رازق ہم ہیں۔
    4۔ بے حیائی اور فواحش کے تمام طریقوں سے دور رہو۔
    5۔ کسی کا ناحق قتل نہ کرو۔
    6۔یتیموں کےمال کے قریب بھی نہ جاؤ۔
    7۔ ناپ تول پورا کرو۔
    8۔ تمام فیصلوں میں انصاف سے کام لو۔
    9۔ اللہ کے ساتھ کیے عہد و پیمان کو دل و جان سے پورا کرو۔
    اللہ نے تم کو یہ حکم اس لئے دیا ہے کہ تم نصیحت پکڑو اور سیدھی راہ پر چلو اور بھٹکنے سے بچ جاؤ۔​

    رکوع 20 ۔۔۔۔ کامل ترین کتاب "قرآن مجید" تمام انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے لہٰذا تم اس کی پیروی کرو۔ اب جبکہ یہ کتاب آچکی، دیکھتے ہیں کون اس ہدایت پر عمل کرتا ہے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور کون اس سے کترا کر مستحقِ عذاب ہوتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز صرف توحید کے اقرار، رسولوں کی تعلیمات کی تصدیق اور ان احکام کی پیروی میں ہے۔ یاد رکھو اللہ کے سوا کوئی کچھ دینے والا نہیں۔ (اللہ کے سوا حقیقی داتا کوئی نہیں)

    دین میں نئی راہیں نکالنے والوں، فرقہ بندی کرنے والوں اور امتِ مسلمہ میں اختلاف و انتشار پیدا کرکے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے والوں کا دین حق سے کوئی سروکار نہیں۔ یاد رکھو جو نیک کام کرے گا دس گنا اجر پائے گا اور برائی کا مرتکب اس برائی کے برابر ہی سزا کا مستحق ہوگا۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیجئے کہ مجھے میرے پروردگار نے سیدھی راہ بتادی ہے اور وہ مضبوط و مستحکم دین اسلام کی راہ ہے۔ پس میری نماز، میری قربانیاں، میرا مرنااور جینا سب کچھ اللہ کے لیے ہی ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار اور شرک و سانجھ پن سے پاک و منزّہ ہے۔
    ===============================================================​
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. سات رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ ہشتم سورۃ الاعراف رکوع 1تا 11
    پارہ نہم سورۃ الاعراف رکوع 12تا 24
    ===============================================================
    (7) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الاعراف ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1تا 24
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے​

    رکوع 1۔۔۔۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قرآن ایک عظیم الشان کتاب ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نافرمانوں کو ان کے انجامِ بد کی آگاہی ہو اور اہلِ ایمان کو نصیحت ہو۔ لوگو! احکام شریعت پر عمل کرو اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے ٹھہرائے ہوئے مددگاروں کے پیچھے نہ چلو۔ دیکھو جن قوموں نے دعوتِ حق کا مقابلہ کیا وہ ہلاک کردی گئیں۔ قوموں سے پُرسش ہوگی کہ انہوں نے حق کا اقرار کیوں نہ کیا اور پیغمبروں سے بھی بازپرس ہوگی کہ انہوں نے حقِ رسالت ادا کیا یا نہیں۔ پھر ہم اپنے علم سے احوال سنائیں گے کہ ہم کہیں غائب تو نہ تھے۔ اس دن اعمال تو لے جائیں گے، نیکیوں کا پلہ بھاری ہوا تو کامیابی ورنہ ناکامی۔ دیکھو ہم نے تم کو زندگی کا سامان دیا تھا لیکن تم شکر گزار نہیں ہو۔

    رکوع 2۔۔۔۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش، ابلیس کا سجدہ سے انکار، اس کا تکبر، اللہ کا آدم علیہ السلام کو جنت میں ایک طرف نہ جانے کاحکم، ابلیس کا آدم و حوا کو بہکانا اور ان کا لغزش کے سرزد ہونے کے باعث برہنہ ہونا، پھر زمین پر اتارے جانےکا احوال، ابلیس کا مردود ہونا، اس کی درخواست پر اللہ نے اسے قیامت تک انسانوں کو گمراہ کرنے کی مہلت دی اور فرمایا کہ جو تیری پیروی کرے گا اسے تیرے ساتھ جہنم میں جھونکوں گا۔

    رکوع 3۔۔۔۔ ہم نے زمین میں ایسی چیزیں اُگا دی ہیں جن سے تم لباس تیار کرکے ستر ڈھانپ سکتے ہو۔ اصل لباس تقویٰ ہے۔ تم شیطان کے بہکاوے میں نہ آنا کہیں وہ تمہیں ننگا اور بے حیا نہ کردے۔ کہہ دیجئے کہ مجھے انصاف اور عبادت کوہر وقت قائم رکھنے اور بندگی کو خالص اللہ کے لیے کرنے کا حکم ملا ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں استعمال کرو لیکن اسراف اور بے اعتدالی سےگریز کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

    رکوع 4۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہیں: اللہ نے ان کے لیے جو پوشاکیں اور آرائشیں حلال کیں اور رزقِ حلال کی اشیاء پیدا کیں ان کو کس نے حرام کیا۔ وہ تو ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت تک رہیں گی۔ سنو اللہ نے جو چیزیں تم پر حرام کی ہیں ، یہ ہیں:
    1۔ تمام بے حیائی اور فواحش کےکام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔
    2۔ ہر بات جو خلاف شرع اور گناہ ہو۔
    3۔ کسی پر بلاوجہ ظلم و زیادتی۔
    4۔ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی کرنا، حاجت روائی، مشکل کشائی میں کسی دوسرے کو شامل سمجھنا۔
    5۔ اللہ کے نام ان باتوں کومنسوب کرنا جس کی سند اس نے نہیں اتاری اور اللہ کے نام ایسی بات کہنا جس کے متعلق تمہیں یقین نہ ہو کہ یہ اس کا فرمان ہے۔
    فرمایا: اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں اور میری آیتیں سنائیں تو جنہوں نے تابعداری کی ان کو کوئی ڈر نہیں مگر جھٹلانے والے ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ زمین پر سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو اللہ پر جھوٹا افتراء کرتے ہیں اس کے احکام اور آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے معبود کہاں گئے جنہیں تم اللہ کے ساتھ شریک کرتے تھے بولیں گے کہ ہم نے کفر کیا ان کا ٹھکانہ جہنم اور دہرا عذاب ہے۔

    رکوع 5۔۔۔۔ آیتوں کو جھٹلانے والے متکبروں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور نیکوں کی جزا جنت ہے۔ وہ شکر ادا کریں گے اور پکاریں گے کہ ہم نے رب کا وعدہ سچا پایا۔ غیبی آواز اللہ کی راہ سے روکنے والوں پر اللہ کی لعنت کرے گی۔

    رکوع 6۔۔۔۔ وہ لوگ جو دنیوی زندگی کی رعنائیوں اور رنگینیوں میں کھو کر آخرت کی حقیقتوں کو فراموش کر بیٹھے تھے اللہ بھی قیامت کے دن انہیں بھول جائےگا۔ اور جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دے گا۔ آج کوئی ان کے کام نہ آئے گا اور نہ ہی ندامت و پشیمانی کسی کام آئے گی۔

    رکوع 7۔۔۔۔ تمہارے پروردگار نے چھ دنوں میں ارض و سماء کو تخلیق کیا پھر اپنے تختِ جلال پر جلوہ گر ہوا۔ پھر رات، دن، سورج، چاند، ستارے وغیرہ تمام عالم فلکیات کے نظام کو اس قاعدے اور قرینے کے ساتھ مربوط کیا کہ یہ سب اس کے تابع فرمان حرکت کررہے ہیں۔ لیکن یہ سب اس نے بغیر کسی کی مدد اپنی قدرت سے بنایا ہے۔ اسی لیے ان پر حکم بھی صرف اسی کا چلتا ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ اپنی تمام ضرورتوں کے لیے صرف اپنے رب کو ہی خشوع و خضوع سے پکارو یہ تمہارا رب ہی ہے جو بارانِ رحمت برساتا، پھل اُگاتا ہے۔

    رکوع 8۔۔۔۔ نوح علیہ السلام کو رسول بناکر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ انہوں نے توحید کی تعلیم دی جسے لوگوں نے جھٹلایا۔ آخرکار ان کو طوفان کے ذریعے صفحۂ ہستی سے مٹادیا اور نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے بچالیا گیا۔

    رکوع 9۔۔۔۔ حضرت ہود علیہ السلام کو قوم عاد کی طرف بھیجا۔ انہوں نے قوم سے کہا صرف اللہ کی بندگی کرو جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بدکاریوں سے بچو۔ جب وہ سرکشی سے باز نہ آئے تو اللہ نے ان کو جڑ سے اکھاڑ کر صفحۂ ہستی سے مٹادیا اور حضرت ہود علیہ السلام اور ان کے ساتھی عذاب سے محفوظ رہے

    رکوع 10۔۔۔۔ قوم ثمود کو حضرت صالح علیہ السلام نے توحید کا پیغام دیا۔ انہوں نے اسے جھٹلایا تو لرزا دینے والے عذاب سے نیست و نابود کردیئے گئے۔ پھر قوم لوط کی بدکاریوں اور بے حیائی کا تذکرہ فرمایا جن پر حضرت لوط علیہ السلام کی تعلیم بے اثر رہی اور وہ قوم بھی تباہی سے ہمکنار ہوئی۔

    رکوع 11۔۔۔۔ اہل مدین کی تباہی کا ذکر ہوا جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔

    جاری۔۔۔۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. سات رمضان المبارک (حصہ دوم)

    پارہ نہم

    ر کوع 12۔۔۔۔ جہاں بھی کوئی نبی بھیجا گیا تو وہاں کے مغرور اور متکبر سرداروں نے اپنا اقتدار اور چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے حق کی مخالفت کی اور عذابِ الٰہی سے نیست و نابود ہوئے۔ اگر یہ لوگ پیغمبروں کا کہا مانتے، گناہوں کو چھوڑ کر نیکوکار ہوتے تو ان پر رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیے جاتے اور وہ عذابِ الٰہی کی گرفت میں نہ آتے۔

    رکوع 13۔۔۔۔ فرمایا کہ پہلوں کی حالتوں سے پچھلے سبق سیکھیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعات بیان ہوئے

    رکوع 14۔۔۔۔ فرعون کے جادوگروں کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہار گئے۔

    رکوع 15۔۔۔۔ جادوگروں کی شکست کے بعد فرعون اور اس کے سرداروں نے سوچا کہ موسیٰ علیہ السلام اور قوم موسیٰ کو کھلا نہ چھوڑنا چاہیے تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی مدد مانگنے کی تلقین کی۔

    رکوع 16۔۔۔۔ فرعونیوں پر ان کی بدکرداریوں کے باعث عذابوں کا ذکر فرمایا۔

    رکوع 17۔۔۔۔ کوہِ طور پر موسیٰ علیہ السلام کے تیس شب و روز، معتکف ہوکر عبادت کرنا، تجلیٔ الٰہی کا ظہور، تختیوں پر احکامات (تورات) عطا ہونے کے واقعات بیان ہوئے۔ فرمایا کہ اجر صرف نیک عملوں پر ملے گا۔

    رکوع 18۔۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں سامری سنار نے گائے کے بچھڑے کی طلائی مورتی بنائی جس کی پرستش شروع کردی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور سے واپس آئے تو یہ حالات دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام پر ناراض ہوئے۔

    رکوع 19۔۔۔۔ بچھڑے کو معبود بنانے والوں پر عنقریب اللہ کا غضب پہنچے گا اور انہیں دنیا میں ذلت نصیب ہوگی اور جنہوں نے توبہ کی تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ فرمایا کہ وہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کی رفاقت نبھائی اور مدد کی ہے اور قرآن کے احکام پر عمل کیا ہے، وہی لوگ کامیاب ہوئے۔

    رکوع 20۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ وہ رسول جس کی تابعداری کا حکم دیا گیا ہے وہ میں ہوں۔ پھر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا ذکر کیا اور ان پر اپنی نوازشوں کا ذکر کیا۔ پھر جب یہ شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان پر آسمان سے عذاب نازل کیا گیا

    رکوع 21۔۔۔۔ یہاں بھی بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کے قصے بیان کیے گئے۔

    رکوع 22۔۔۔۔ جب اللہ نے عالم ارواح میں تمام روحوں سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے جواب دیا کہ ہم اقرار کرتے اور گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور یہ عہدِ الست اس لیے لیا کہ قیامت کے روز تم یہ عذر نہ کرسکو کہ ہم بے خبر تھے۔ فرمایا: کہ شرک میں تقلید عذر نہیں کہ ہمارے باپ دادا بھی یہ کرتے تھے۔ پھر ایک شخص کا واقعہ فرمایا جسے اللہ نے اپنی آیات کا فہم عطا کیا مگر وہ دنیاوی لالچ اور خواہشات میں ایسا پھنسا جیسے کتا کہ اگر اس پر بوجھ ڈالیں تو ہانپتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو بھی ہانپتا رہتا ہے۔

    رکوع 23۔۔۔۔ منکروں کو ایک دم نہیں پکڑا جاتا بلکہ انہیں ڈھیل دی جاتی ہے پھر دعوتِ فکردی کہ اپنی حالت پر غور کرو۔ منکرین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کا پوچھتے ہیں تو فرمادیں کہ اس کا حقیقی علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کردیں کہ میں خود اپنی جان کا نفع نقصان بھی اپنے اختیار میں نہیں رکھتا۔ میں تو صرف بندوں کو بدکرداری کی سزا سے ڈرانے اور نیکوکاروں کو خوشخبری سنانے والا ہوں۔

    رکوع 24۔۔۔۔ انسانی پیدائش کے متعلق بیان فرمایا کہ تم اللہ سے اولاد کی دعائیں کرتے ہو۔ جب وہ تمہیں عطا کرتا ہے تو اسے بتوں کی طرف منسوب کرتے ہو۔ بت نہ تمہاری سنے ہیں اور نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں۔ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہ کر غور سے سنو اور اللہ کی یاد دل سے کرو۔ آخر میں ملائکہ کی مثال دی کہ جب وہ اللہ کا بندہ رہنے اور اس کی اطاعت میں ہیٹی محسوس نہیں کرتے، اسے یاد کرتے ہیں اور اس پاک ذات کو سجدہ کرتے ہیں تو تم کیوں نہیں کرتے؟
    ===============================================================​
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. آٹھ رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ نہم سورۃ الانفال رکوع 1 تا 5
    پارہ دہم سورۃ الانفال رکوع 5 تا 10
    پارہ دہم سورۃ التوبہ رکوع 1 تا 12
    ===============================================================
    (8 ) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ الانفال ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 10
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے​

    رکوع 1 ۔۔۔۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال غنیمت کا پوچھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ یہ دراصل اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے۔ اس لئے تم ہر حال میں تقویٰ اختیار کرو۔ آپس میں صلح سے رہو اور تمام معاملات میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کرو۔ ایمان والے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ خوفِ الٰہی سے ان کے دل دہل جاتے ہیں۔نماز کی پابندی اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ رکوع 2۔۔۔۔ غزوۂ احد میں اپنی مدد کا تذکرہ فرمایا۔ فرمایا کہ فسادیوں کی یہی سزا ہے اور اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ ہے جو حق سننے سے بہرے، حق کہنے سے گونگے اور حق سمجھنے سے بے نیاز ہوگئے ہیں۔ دینِ اسلام کے قانون اللہ کے مقررکردہ ہیں جو ہر وقت تمہارے اعمال کو نظر میں رکھتا ہےخواہ ظاہری ہوں یا تنہائی میں۔ باہمی امانتوں میں بددیانتی اور خیانت مت کرو۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں گناہوں سے دور رکھے گا، بخش دے گا۔ پھر کفارِ مکہ کی سازشوں اورمسلمانوں پر اپنی مہربانی کا تذکرہ فرمایا۔

    رکوع 5۔۔۔۔ کفار سے کہہ دیں کہ اگر باز آجائیں تو ان کے گذشتہ اعمال معاف کردیئے جائیں گے۔ اگر نہ مانیں تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرو، اللہ کی مدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔


    پارہ دہم

    رکوع 5 ۔۔۔۔ تقسیمِ غنیمت کے متعلق فرمایا کہ پانچ حصے کرو۔ ایک حصہ اللہ اور رسول صلی اللہ کے لئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہوگا اور چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرو۔ مسلمان اللہ کی مدد کے بھروسے جہاد کرتے رہیں اور کفار کی کثرت اور سازوسامان کی فراوانی سے مرعوب نہ ہوں۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔ جنگ میں ثابت قدم رہو، اللہ کو یاد کرو اور صبر کرو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ فرعونیوں کی سرکشی اور ان کی تباہی کی مثال دی اور فرمایا کہ بدترین لوگ وہ ہیں جو اللہ کے منکر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد شکنی کرتے ہیں۔ اللہ ان کو عبرتناک سزا دے گا۔

    رکوع 8 ۔۔۔۔ اپنی قوت کو بڑھاؤ تاکہ تمہارا رعب و دبدبہ دشمنوں پر قائم رہے اور وہ تم سے لڑائی کی جرأت نہ کریں اور اگر تمہارے مخالف صلح کی خواہش کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صلح پر راضی ہوجائیں۔ اگر وہ دھوکہ کریں گے تو بھی تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔

    رکوع 9۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب اور شوق دلائیں۔ اگر ان میں سے بیس صبرواستقامت اور اللہ کے توکل پر ہوں گے تو وہ سو پر فتح حاصل کریں گے۔ سو ہوں گے تو ایک ہزار پر غالب ہوں گے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اگر مشکلات میں صبر و استقامت کا دامن نہ چھوڑا تو دوگنی تعداد اور طاقت کے خلاف اللہ کی مدد سے کامیاب ہوں گے۔

    رکوع 10 ۔۔۔۔ اسلامی برادری یعنی مہاجرین و انصارجنہوں نے جان و مال سے جہاد کیا آپس میں اچھے رفیق ہیں۔ جو لوگ ابھی مکہ میں ہی قیام پذیر ہیں ان کی اعانت و سرپرستی کی ضرورت ہے جب تک کہ ہجرت نہ کریں۔ لیکن اگر وہ دین کے معاملے میں مدد چاہیں تو مدد لازم ہے لیکن اگر اس قوم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عہد ہو جن کے خلاف انہیں مدد درکار ہے تو عہد پورا کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض ہے۔

    جاری۔۔۔۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. آٹھ رمضان المبارک (حصہ دوم)

    ===============================================================
    (9) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ التوبہ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 12
    ===============================================================​

    رکوع 1۔۔۔۔جن مشرکوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح و امن کا معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مشرکوں کی بدعہدیوں کی وجہ سے ان سے معاہدوں کے خاتمہ کا اعلان کیا جاتا ہے اور ان کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔ جس میں وہ یا تو شرک سے باز آکر دینِ حق قبول کرلیں ورنہ پھر جزیرۃ العرب سے نکل جائیں ورنہ ان کو بزور شمشیر نکال دیا جائے گا۔ البتہ جنہوں نے بدعہدی نہیں کی ان کا عہد ان کے وعدہ تک پورا کرو۔ چار ماہ کی مدت ختم ہونے کے بعد مشرکوں کو پکڑو، مارو، قید کرو اور اگر توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں تو انہیں آزاد کردو۔ اگر کوئی مشرک پناہ میں آئے تو اسے حفاظت میں رکھو، اللہ کے احکام سے آگاہ کرو پھر اس کو اس کے امن کی جگہ تک پہنچا دو۔

    رکوع 2 ۔۔۔۔ مشرکوں کے ساتھ کسی قسم کا نرم رویہ اختیار نہ کرو کیونکہ ان کے بغض و عداوت کا عالم یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو کسی کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بہرحال اگر یہ توبہ کرلیں، نماز اور زکوٰۃ میں پابندی کریں، تمہارے بھائی بن جائیں تو پھر ان سے کوئی تعرض جائز نہیں اور اگر یہ مرتد ہوجائیں تو ان سے جہاد کرو اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں ذلیل و خوار کرے گا اور تمہیں ان پر فتح و نصرت سے ہمکنار کرے گا۔ مت گمان کرو کہ بغیر کوشش اور جدوجہد کے کسی کو کامیابی کاپھل ملے گا۔

    رکوع 3 ۔۔۔۔ اب بیت اللہ کے انتظام و انصرام میں کفار و مشرکین کا کوئی حصہ نہیں اور یہ کام متقی لوگوں کے کرنے کا ہے۔ خانہ کعبہ کی دیکھ بھال کا کام ایمان اور جہاد کے برابر نہیں ہوسکتا۔ جن لوگوں کا آخرت پر یقین ہے انہوں نے ہجرت کی اور جہاد فی سبیل اللہ کیا ان کے درجات بہت عظیم ہیں۔ دین حق کے مقابلے میں قرابت داریوں اور دوستیوں کی پرواہ نہ کرو اور دیکھو کہ ان کی محبت تمہیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری سے غافل نہ کردے۔ اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔غزوۂ حنین کے حالات اور اپنی نوازشات کا تذکرہ فرمایا اور فرمایاکہ اس سال کے بعد (فتح مکہ کے بعد 9ھ میں حج کے موقع پر اعلان کردیا گیا) مشرک مسجد الحرام کے نزدیک نہ آئیں۔ تم کو غربت و افلاس کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں اللہ تمہیں اپنے فضل و کرم سے غنی کردے گا۔ اہل کتاب جو اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے نہ حرام کو حرام سمجھتےہیں ان سے جہاد کرو جب تک جزیہ و خراج دینے اور تمہارے ماتحت رہنے کا عہد نہ کریں۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔یہود نے کہا عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے۔ نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا حالانکہ یہ دونوں ایک جیسے انسان تھے۔ اللہ کو چھوڑ کر یہ اپنے عالموں اور درویشوں اور مسیح کو اپنا پروردگار ٹھہراتے ہیں حالانکہ عالم انسانیت کو یہ حکم دیا گیا کہ اللہ واحد ہی تمہارا رب ہے اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ منکرین حق اسلام کی روشنی کو مشرکانہ پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں مگر یہ اللہ کے مقابلے میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے اس سچے دین کا ہر دین پر غلبہ ہوگا۔ اہل کتاب کے علماء اور درویش ان سے نذرانے وصول کرکے انہیں حق پر چلنے سے روکتے ہیں (غلط مسئلےبتاکر) تاکہ ان کی گدیاں قائم رہیں۔ جو لوگ سونا چاندی خزانہ کرکے رکھتے ہیں یہ سیم و زر آگ میں تپا کر اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ زمانے کی تقسیم کا ذکر فرمایا کہ سال میں بارہ مہینے ہیں اور ان میں چار ماہ مقدس ہیں۔ یہی درست بات ہے کہ تم ان کا تقدس پامال کرکے اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔

    رکوع 6 ۔۔۔۔جب تمہیں جہاد پر چلنے کو کہا جائے تو کاہلی مت کرو۔ اگر تم نہ نکلو گے تو دردناک عذاب میں مبتلا ہوجاؤگے اور اللہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو مقرر کردے گا۔ پھر ہجرت، غارِ ثور کا ذکر فرمایا۔ جہاد کا حکم دیا اور منافقوں کے حیلے بیان فرمائے۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر منافقین کا پول کھول دیا۔ فرمایا کہہ دیں کہ نافرمانوں کا مال قبول نہیں ہوگا چاہے خوشی سے دیں یا ناخوشی سے، وہ اس لیے کہ ان کا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار ہے۔ نماز بھی کاہلی سے پڑھتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ اللہ کے دیئے پر راضی رہتے اور کہتے کہ ہم کو اللہ ہی کافی ہے

    رکوع 8 ۔۔۔۔زکوٰۃ و صدقات اِن لوگوں کے لیے ہیں: مفلسوں، محتاجوں، زکوٰۃ کا کام کرنے والوں، جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو، غلاموں کی آزادی کے لیے، قرض داروں کی مدد کرنے میں، راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دینے والوں کے لیے دردناک سزا ہے۔

    رکوع 9 ۔۔۔۔ نفاق کی علامتیں، کافروں اور منافقوں کی سزا بیان کی اور فرمایا کہ پہلی قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کرو۔ پھر مومنوں کی خصوصیات بتائیں کہ مردوزن ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ نیک باتیں سکھاتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے، زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چلتے ہیں۔ اللہ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہے اور اللہ کی رضامندی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

    رکوع 10۔۔۔۔ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان سے سخت رویہ رکھیں۔ نفاق کی جڑ بخل ہے اللہ ان کے دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ مغفرت کے لیے ایمان شرط ہے۔

    رکوع 11۔۔۔۔منافق کی پرکھ جہاد ہے۔ یہ عارضی آرام و راحت کی خاطر قوم کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منافقوں سے قطع تعلق کرلیں اور اپنی جماعت کو متحد اور مضبوط کرنے میں لگ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان فاسقوں کی نہ نمازِ جنازہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔ ان لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ تندرست ہوکر اپاہج بنتے ہیں۔ مومن تو اپنی جان و مال سے لڑتے ہیں اور ان کا انعام جنت کے باغ ہیں۔

    رکوع 12 ۔۔۔۔ بعض لوگ جہاد میں کمزوری، ناتوانی، بیماری اور بے سامانی کی وجہ سے شریک نہ ہوئے تو ان پر کوئی دوش نہیں۔ البتہ وہ جو صرف بدنیتی سے جی کتراتے ہیں، بہانوں سے جہاد سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں، ان کے دلوں پر اللہ نے مہریں لگادی ہیں۔
    ===============================================================​
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. نو رمضان المبارک (حصہ اول)

    پارہ گیارہ سورۃ التوبہ رکوع 12 تا 16
    پارہ گیارہ سورۃ یونس رکوع 1 تا 11
    پارہ گیارہ سورۃ ہود رکوع 1
    پارہ بارہ سورۃ ہود رکوع 2 تا 4
    ===============================================================
    (9) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ التوبہ (جاری) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 12 تا 16
    ===============================================================
    رکوع 12 ۔۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹیں گے تو منافق آکر بہانے بنائیں گے اور جھوٹی قسمیں کھاکر عذرو معذرت کریں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کسی بات کا یقین نہ کرنا، نہ ان سے راضی ہونا اور کہہ دینا کہ میرا اللہ تمہاری کرتوتوں سے آگاہ ہے۔

    رکوع 13 ۔۔۔۔ مہاجر و انصار جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر فوراً اسلام میں داخل ہوئے اور جو لوگ راستبازی سے ان کے بعد اسلام میں داخل ہوتے رہے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور ان کے لیے جنت کے باغاز تیار ہیں۔ مدینہ کے بعض لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں اور گردو نواح کی آبادی کے بھی بعض لوگ منافق ہیں۔ اللہ انہیں جانتا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب تیار ہے۔ بعض طبیعت کی کمزوری سے گناہ کرکے پھر نادم ہوتے ہیں اللہ انہیں معاف کردے گا سب کچھ اللہ کی نظرمیں ہے۔ پھر مسجد ضرار کا قصہ بیان کیا اور فرمایا کہ اصل چیز نیک نیتی ہے اور تقویٰ پائیدار بنیاد ہے۔

    رکوع 14 ۔۔۔۔ اللہ کے ہاتھ اپنی جانیں اور مال بیچ دو۔ مسلمان توبہ کرنے، شکراور بندگی کرنے والے ہیں۔ رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومن کو زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لیے خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، مغفرت کی دعا کریں۔

    رکوع 15 ۔۔۔۔ ایمان والو! کسی حال میں بھی اللہ کے خوف سے بے پرواہ نہ ہوجاؤ۔ ہمیشہ سچوں کا ساتھ دو اور انہی جیسے کام کرو۔ اللہ سے بہترین صلہ پاؤگے۔ اسلامی ریاست کے قیام و بقا کے لیے اور فساد کو ختم کرنے کےلیے جہاد ضروری ہے اور مومنوں کو زیبا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے بجائے پیچھے رہ جائیں۔

    رکوع 16 ۔۔۔۔ مسلمانو! اپنے گردو پیش پھیلے منکرینِ حق کے خلاف پوری شد و مد کے ساتھ جہاد کرو۔ مسلمانو! تمہارے پاس اللہ کا ایک عظیم الشان رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاچکا ہے جس کو تمہارا رنج و الم اور مصائب میں مبتلا ہونا شاق گزرتا ہے اور تمہاری بھلائی کا بے حد خواہش مند ہے۔ اگر تم اس کی اطاعت سے روگردانی کرو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے کیونکہ انہوں نے تو کہہ دیاہے کہ “میرے لیے اللہ ہی کافی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اسی پر بھروسہ کیا وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔”

    ===============================================================
    (10) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ یونس ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 11
    ===============================================================

    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ یہ آیات مضبوط اور پختہ کتاب کی ہیں جس میں شک و شبہ، تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں اور یہ کتاب اللہ نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر انہیں انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو گناہوں سے ڈرائے اور نیکوکاروں کو خوشخبری دے۔ تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دن میں زمین و آسمان بنائے پھر مستوی ہوا عرش پر۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی کسی کی سفارش نہیں کرسکتا۔ مرنے کے بعد تمہیں دوسری زندگی ملے گی اور تمہارے اعمال کی جوابدہی ہوگی۔ تمہارے اللہ نے سورج، چاند، ماہ و سال بنائے۔ ان کھلی نشانیوں کے باوجود اگر کوئی ہماری نشانیوں سے بے خبر ہے تو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے البتہ نیکوکاروں کے لیے جنت ہے۔

    رکوع 2۔۔۔۔ سرکشوں کو فوراً سزا دینا مشکل نہیں مگر ان کو اصلاح کے لیے مہلت دی جاتی ہے۔ انسان رنج و محن میں اللہ کو پکارتا ہے اور جب اس کی تکلیف دور ہوتی ہے تو پھر ہمیں بھول جاتا ہے۔ قرآن کے احکام اٹل ہیں حتیٰ کہ کوئی رسول بھی اپنی خواہشِ نفس کے مطابق نہیں بدل سکتا۔ جو لوگ اللہ کی بجائے ان کی پرستش کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان اور کہتے ہیں یہ ہمارے سفارشی ہیں تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اللہ تو ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔

    رکوع 3۔۔۔۔ اللہ تمہیں بحر و بر کی تری اور خشکی کے نظارے کراتا ہے جب تم طوفانوں میں گھِر کر ہم سے مدد مانگتے ہو تو وہ تمہیں نجات دیتا ہے تو پھر تم شرارت و سرکشی پر اُتر آتے ہو اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہو۔ نیک اور احسان کرنے والے آخرت میں فلاح و کامرانی پائیں گے اور دینِ حق کے منکر اور شرک کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ آخرت میں جب شرک کرنے والوں کے معبودوں کو ان کے ساتھ کھڑا کریں گے تو وہ مشرکوں سے کسی بھی تعلق سے انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو اس قابل ہی نہیں کہ کوئی ہماری عبادت کرتا۔ تو یہ حقیقت بھی عیاں ہوجائے گی کہ اصل مالک تو صرف اللہ ہے۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ تمہارا رب صرف اللہ ہی ہے۔ وہی موت و حیات کا مالک ہے اور حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے تو پھر اس کے سوا پیروی کا مستحق کون ہے۔ بعض نے قرآن کو پیغمبر کی تصنیف کہا کہ یہ کلامِ الٰہی نہیں۔ ایسوں کو کھلا چیلنج ہے کہ سب مل کر اس جیسی ایک سورۃ ہی بنا لاؤ۔ تم سے پہلے بھی کچھ لوگ جھلا چکے ان ظالموں کا دردناک انجام بھی دیکھ لو۔

    رکوع 5 ۔۔۔۔ اس حق کو سنا اَن سنا نہ کرو یہ سرکشی اور ظلم ہے اور اس کا انجام بہت سخت ہے۔ کافروں پر واضح کردیا گیا کہ اللہ کا ہر وعدہ پورا ہوکر رہے گا چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہو یا بعد میں۔ ہر امت کے لیے ایک مہلت رکھی گئی ہے۔ جس کے اختتام پر اس کی سرکشی کا حساب چکا دیا جائے گا اور عذاب مسلط کردیا جائے گا۔

    جاری۔۔۔۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. نو رمضان المبارک (حصہ دوم)

    رکوع 6 ۔۔۔۔ قیامت کی ہولناکی اتنی سخت ہوگی کہ یہ ظالم اگر زمین کا سارا خزانہ بھی فدیہ میں دے دے تو عذاب سے نہ بچ سکے گا۔ فیصلہ انصاف سے ہوگا اور ان پر کوئی زیادتی نہ کی جائے گی۔ یاد رکھو ارض و سماء میں سب کچھ اللہ ہی کا ہے۔ اس وعدہ سچا ہے وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ یہ کتاب تیرے رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفاء، ہدایت اور رحمت ہے۔ مگر تم پھر بھی سرکشی کرتے ہو اور اس کتاب کی بجائے اپنی مرضی سے حلال و حرام کا معیار قائم کرتے ہو۔

    رکوع 7 ۔۔۔۔ لوگو تم جو اچھے یا برے فعل کرتے ہو سب اللہ کو معلوم ہیں اور زمین آسمان کی ذرہ برابر شے بھی اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔ جو فقط اللہ سے لو لگاتے، اسی کا سہارا پکڑتے ہیں ان کو کوئی غم یا خوف نہیں۔ علم کی روشنی سے محروم ہی اللہ کے سوا بھی کسی کی بندگی کرتے ہیں۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے آرام کے لیے رات اور کام کے لیے دن بنایا اور اللہ پر جھوٹ افتراء کرنے والے آخرت میں کبھی فلاح نہ پائیں گے۔

    رکوع 8۔۔۔۔ حضرت نوح علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام اور فرعون کا ذکر فرمایا اور سرکشی اور تکبر کرنے والوں کا حشر بیان فرمایا۔

    رکوع 9۔۔۔۔ اس رکوع میں بھی فرعون کی سرکشی اور تباہی بیان ہوئی۔

    رکوع 10 ۔۔۔۔ دنیا میں پھنس کر انسان غافل ہوکر اللہ سے بھی بے دھیان ہوجاتا ہے۔ اس غفلت کے باعث بہت سی قومیں اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد ہوئیں۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر کیا کہ وہ عذاب کی ابتدائی علامات کو دیکھ کر ایمان لے آئے تو ہم نے عذاب ٹال دیا۔ ایمان میں زبردستی نہیں، لوگوں کے سامنے بے شمار نشانیاں ہیں۔ یہ غور کریں اگر پھر بھی ایمان لانے میں ہچکچاہٹ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ عذاب کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

    رکوع 11 ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیں کہ میں ان کی بندگی نہیں کرتا جن کی اللہ کے سوا تم کرتے ہو۔ میرا اللہ سب سے زبردست ہے جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ تم اللہ کے دین مضبوطی سے پکڑ لو اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ وہ تمہیں نفع یا ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ اور شرک ظلم ہے۔ لوگو! تمہارے پاس اب پیغام حق آچکا ہے جو اس کے مطابق زندگی گزارے گا کامیاب ہوگا اور جو بے راہ روی و گمراہی اختیار کرے گا، ذلیل و خوار ہوگا۔ صبر کیجئے حتیٰ کہ اللہ فیصلہ کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

    ===============================================================
    (11) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سورۃ ہود ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رکوع 1 تا 4
    ===============================================================
    اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
    رکوع 1 ۔۔۔۔ قرآن حکیم ایک حکم اور ایک نظام ہے اور اس کا نازل کرنے والا بڑی حکمت والا دانا اور باخبر ہے۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ اپنی کوتاہیوں کی معافی اسی سے مانگو اور ہرمعاملے میں اسی کی طرف رجوع کرو۔ اس زندگی میں خوب نیکیاں کرو وہ تمہیں اجر و ثواب میں زیادہ دے گا۔ مرنے کے بعد تم سب اس کے سامنے حاضر ہوگے جو ہر شے پر قادر ہے اور تمہاری ہرپوشیدہ بات سے واقف ہے۔

    پارہ بارہ

    رکوع 2 ۔۔۔۔ انسان کی سطحی سوچ کا ذکر فرمایا کہ اگر اسے آرام دیں تو یہ اترانے والا شیخی خور ہے اور اگر تکلیف دیں تو بے حد گبھرا جاتا ہے۔ کسی وقت بھی اسے اللہ کی طرف سے آزمائش یا اس کا انعام تصور نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے الزامات سے ہرگز پریشان نہ ہوں، اللہ کے احکام پر عمل کرتے جائیں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑی ہے تو انہیں کہیں کہ اس جیسی دس سورتیں تو بنالاؤ۔ اگر نہ کرسکو تو جان لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ انہوں نے دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اور دنیا کے مال کے حصول کے لیے ہی سرگرداں ہیں ان کو یہ سب مال دے دیا جائے گا مگر آخرت میں ان کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے برعکس جو ایمان لاکر نیک کام کرے گا صرف اللہ کے سامنے جھکے گا وہ سدابہار دائمی باغات کا حقدار ہوگا۔ جیسے اندھے اور سوجاکھے، بہرے اور سننے والے ایک جیسے نہیں اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہوسکتے۔ تو کیا تم اب بھی غور نہیں کرو گے؟

    رکوع 3 ۔۔۔۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوتِ توحید کا ذکر کیا کہ ان کی قوم نے آپ کی بشریت کی وجہ سے اور ان کے پیراؤں کو نچلے درجے کے جان کر ان کے پیغام کو جھٹلادیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے قوم سے کہا کہ اے قوم میرے پاس نہ تو خزانے ہیں نہ میں غیب دان نہ ہی فرشتہ ہوں تو انہوں نے کہا چھوڑو یہ باتیں تم ہم پر وہ عذاب لاؤجس کی بات کرتے ہو۔ نوح علیہ السلام نے کہا عذاب دینا یا رحمت و مغفرت سے ہمکنار کرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔

    رکوع 4 ۔۔۔۔ کشتی نوح اور قومِ نوح پر عذابِ الٰہی کی تفصیل بیان فرمائی اور کہا کہ ہم یہ پرانے قصے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں۔

    ===============================================================
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں