1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

عشقِ مرشد کا انوکھا انداز ......... سبحان اللہ

'حاصل ِ مطالعہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بینا, ‏جنوری 17, 2014۔

  1. بینا

    بینا مدیر Staff Member

    کہتے ہیں کہ ایک دن ایک سید زادہ حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا حضرت میں ایک غریب سید زادہ ہوں اور سر پر جوان بیٹیوں کا بوجھ ہے۔۔سادات گھرانے کی نسبت ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ بھی نہیں لے سکتا۔
    آپ میرے دینی بھائی ہیں اور سید بھی ہیں آپ میری مدد کریں کچھ۔
    آپ نے اس کو عزت و تکریم کے ساتھ بٹھایا اور خادم سے بلا کر کہا کہ آج کوئی نذر و نیاز آئی خانقاہ میں؟
    تو خادم نے عرض کی سیدی ابھی تک تو کوئی نہیں آئی لیکن جیسے ہی آئی میں آپ کو اطلاع کر دوں گا
    آپ نے سید زادے کو تسلی دی اور کہا اللہ پہ بھروسہ کرے وہ دست غیب سے کوئی نہ کوئی انتظام فرما دے گا
    مگر تین دن گزر گئے کوئی نیاز نہ آئی
    سید زادہ بھی مایوس ہوگیا کہ ایویں باتیں مشہور ہیں ان کے بارے میں یہاں تو کوئی مدد ہی نہیں ہو سکی میری . ایک دن اس نے اجازت طلب کی
    حضرت محبوب الہیٰ کو بہت دکھ ہوا کہ مہمان خالی ہاتھ گھر سے جا رہا ہے آپ نے اس کو چند پل کے لیئے روکا اور اندر سے اپنے نعلین لا کر دے دیئے اور کہا بھائی اس فقیر کے پاس تمھیں دینے کے لیئے اپنے ان جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں
    وہ سید زادہ جوتے لیکر چل پڑا اور سوچنے لگا کہ ان پرانے بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا حضرت نے اچھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ . انہی دنوں وقت کا بادشاہ سلطان محمد تغلق کسی جنگی مہم سے واپس آرہا تھا اور حضرت امیر خسرو جو حضرت نظام الدین اولیا ء کے خلیفہ بھی تھے سلطان کے ساتھ تھے اور چونکہ آپ ایک قابل قدر شاعر تھے اس لیئے دربار سلطانی میں اہمیت کے حامل تھے
    آپ نے سلطان کی شان میں قصیدہ کہا تو سلطان نے خوش ہو کر آپ کو سات لاکھ چیتل (سکہ رائج الوقت )سے نوازا
    اپنے واپسئ کے سفر پر جب ابھی لشکر سلطانی دہلی سے باہر ہی تھا اور رات کو پڑاؤ کیا گیا تو اچانک امیر خسرو چلا اٹھے مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آتی ہے مصاحب بولے امیر حضرت محبوب الہیٰ تو کیلو کھڑی میں ہیں جو دہلی سے کافی دور ہے تو آپ کو انکی خوشبو کیسے آ گئی مگر امیر خسرو بے قرار ہوکر باہر نکل پڑے اور خوشبو کا تعاقب کرتے کرتے ایک سرائے تک جا پہنچے جہاں ایک کمرے میں ایک شخص اپنے سر کے نیچے کچھ رکھ کر سویا ہوا تھا اور خوشبو وہاں سے آ رہی تھی آپ نے اس کو جگایا اور پوچھا تو حضرت نظام الدین کی خانقاہ سے آ رہے ہو کیا؟
    تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بولا ہاں
    آپ نے اشتیاق سے پوچھا کیسے ہیں میرے مرشد؟
    وہ شخص بولا وہ تو ٹھیک ہیں اور میں ان کے پاس مدد کے لیے گیا تھا مگر اور کچھ تو دیا نہیں ہاں اپنے پرانے بوسیدہ جوتے ضرور دیئے ہیں
    یہ سنتے ہیں امیر خسرو کی حالت غیر ہو گئی اور کہنے لگے کہاں ہیں میرے مرشد کے نعلین ؟
    تو اس نے ایک کپڑا کھول کر دکھا دیئے
    آپ نے ان کو پکڑا چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور کہنے لگے کیا تو ان کو بیچے گا
    اس نے کہا امیر کیوں مذاق اڑاتے ہو
    امیر خسرو بولے مذاق نہیں میرے پاس اس وقت سات لاکھ چیتل ہیں وہ لے لو مگر میرے مرشد کے نعلین مجھے دے دو اگر چاہو تو دہلی چلو اتنی ہی رقم اور دے دوں گا تمھیں
    سات لاکھ چیتل کا سن کر وہ چکرا گیا اور بولا نہیں بس میرا تو چند ہزار سے گزارا ہو جائے گا
    مگر امیر خسرو نے زبردستی اس کو سات لاکھ چیتل دیئے اور ساتھ میں سپاہی اور تحریر دے دی تا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے اور پھر امیر خسرو اس حالت میں خانقاہ مرشد میں داخل ہوئے کہ جوتے اپنی دستار میں لپیٹ رکھے تھے اور سر پر رکھے بڑھے چلے آ رہے تھے اور زارو قطار رو رہے تھے
    حضرت نظام الدین اولیاء نے مسکراتے ہوئے پوچھا
    خسرو ہمارے لیئے کیا لائے ہو؟
    امیر نے جواب دیا سیدی آپ کے نعلین لایا ہوں
    کتنے میں خریدے؟حضرت نظام الدین اولیاء نے استفسار کیا؟
    سات لاکھ چیتل امیر نے جوابا" عرض کی
    بہت ارزاں لائے ہو۔ محبوب الہیٰ مسکراتے ہوئے بولے جی سیدی سات لاکھ چیتل تو بہت کم ہیں اگر وہ سید زادہ میری جان بھی مانگتا تو جان دے کر نعلینِ مرشد حاصل کر لیتا
    یہ تھی ان کی اپنے مرشد سے محبت اور حضرت نظام الدین اولیاء کا مقام معرفت جس کی وجہ سے ان کو محبوبِ الہیٰ کہا جاتا ہے
    دراصل یہ واقعہ میرے ذہن میں تب آیا جب میں نے یہ شعر پڑھا
    جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاک حضور
    تو پھر ہم کہیں گے ہاں تاجدار ہم بھی ہیں
    جب حضرت نظام الدین اولیاء کے نعلین کی اتنی قیمت اور وقعت ہے۔
    تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین پاک تو شہنشاہوں کے جوتوں سے بھی بالاتر ہیں

    خان آصف کی کتاب اللہ کے سفیر میں سے ایک خوبصورت اقتباس
     
  2. جوگی

    جوگی منتظم Staff Member

    بہت زبردست ، اعلیٰ اور سدا بہار حکایت ہے.....
    زمانہ طالب علمی میں میرے پسندیدہ ترین استاد جناب محمد حنیف صاحب نے ایک بار سنائی تھی.
    تب سے یہ ذہن کی سلیٹ پر نقش ہے.
    جزاک اللہ اس قدر اعلیٰ پوسٹنگ کیلئے
     
  3. جوگی

    جوگی منتظم Staff Member

    اور یہی وہ جانثار مرید ہیں جن کی شان میں حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا
    اگر شریعت کی اجازت ہوتی تو میں امیر خسرو کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن ہونا پسند کرتا....

    اور یہی امیر خسرو کی بے مثال مرشد سے والہانہ محبت ہے جسے مرزا غالب نے خاص طور پر اللہ کی عطا کا نام دیا.

    ملے دو مرشدوں کو قدرت ِحق سے ہیں دو طالب
    نظام الدین کو خسرو ، سراج الدین کو غالب
     
  4. بینا

    بینا مدیر Staff Member

    بے شک @غالب........ کیا بات ہے ایسی عظیم الشان ہستیوں کی جو فنا فی الشیخ ، فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر فنا فی اللہ ہو کر تاریخ میں امر ہوگئیں......... سبحان اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں