1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

شیر کا شکار از ابن صفی

'گوشہ ءِ ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از یاسر حسنین, ‏اکتوبر 16, 2017۔

  1. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    شیر کا شکار
    ابن صفی
    کمپوزنگ : یاسر حسنین

    یہ اُن دنوں کی بات ہے جب زیادہ تر ادبی رسائل دم توڑ رہے تھے۔چند سال پہلے جاسوسی ناولوں کی وبا آئی تھی اور ان کی آبادکاری کا تقریباً نصف حصہ موت کی گود میں جا سویا تھا۔ جو باقی بچے تھے جیسے تیسے زندگی گزار رہے تھے کے بعد اچانک اُنہیں ”ڈائجسٹ“ ہونا شروع کیا۔ یہ بیماری نتیجہ تھی علمی، ادبی، سائنسی، ثقافتی بدہضمی کا۔ اس بیماری کی ابتدا ”شکاریات“ کے تشنج سے ہوتی ہے۔ رسالے پر کبھی کبھی شکاریات کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ اسے پوری طرح ”ڈائجسٹ“ ہو جاتا ہے۔
    ہمارے رسالے کا بھی یہی حشر ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ لہٰذا ایک دن ایڈیٹر صاحب آپے سے باہر ہوکر بولے۔ ”شکاریات کے بغیر رسالے کا زندہ رہنا ناممکن ہے۔“
    میں نے کہا۔” عالی جناب۔ تو پھر ہم کسی شکِاری سے بات چیت کریں“
    ”یار کیوں بچوں کی سی بات کرتے ہو۔ “وہ جھنجلا کر بولے۔ ” شکاریوں کو لکھنا کب آتا ہے“
    ”ارے صاحب وہ فوَارہ ڈائجسٹ ہے“
    ”بس، بس فضول باتیں نہ کرو۔“انہوں نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔” وہ سب منجھے ہوئے لکھنے والے ہیں۔ پہلے لکھنے کی مشق کرتے ہیں پھر شکار کھیلتے ہیں۔!“
    مجھے غصہ آ گیا اور میں نے کہا” میں بھی لکھنے کی اتنی مشق بہم پہنچا چکا ہوں کہ شکار کھیلے بغیر ہی لکھ سکتا ہوں۔“
    ” صاحبزادے ہو۔ کہیں نا کہیں ایسی ٹھوکریں کھاؤگے کہ بس۔۔۔ ابھی پچھلے ہی دنوں غبارہ ڈائجسٹ میں کسی نے شیر کو چھچھوندر نگلتے دکھایا تھا اور تحقیق فرمائی تھی کہ چھچھوندر نگل لینے کے بعد شیر اندھا ہوجاتا ہے۔ پھر اسے جیسے چاہو مارلو۔“
    میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ” اللہ میں بڑی شان و قدرت ہے۔ جیسے ہاتھی کو چیونٹی سے زیر کر کرادیتا ہے۔ اسی طرح شیرکو چھچھوندر۔۔۔“
    دھاڑ کر بولے۔” اے تم بھی اسی قبیل کے مصنف ہو کیا؟“
     
    Last edited by a moderator: ‏اکتوبر 16, 2017
  2. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    میں نے کہا۔ ”جی، میں نہیں سمجھا !“
    وہ مجھے خونخوار نظروں سے گھورتے رہے۔ پھر سگریٹ سلگائی، کرسی کی پشت گاہ سے ٹک کر دو تین کش لیے۔ تب جا کر ان کی تیوریاں ٹھیک ہوئیں اور انہوں نے نرم لہجے میں کہا۔” برخوردار! تجربے کے بغیر کچھ لکھنا فضول ہے۔۔۔ ایسے میں ٹھوکریں کھاتا ہے۔ اب دیکھو مس جین ڈولنگر ہیں نا۔ جنگلوں میں ماری ماری پھرتی ہیں اور پھرجب مضمون لکھتی ہیں۔ تو بس۔“
    یہاں انہوں نے خاموش ہوکر اتنی زور سے دانت بھینچے کہ جبڑوں کی وریدیں ابھر آئیں۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔ ”ٹھہرو، میں تمہیں دکھاتا ہوں۔“
    انہوں نے میز کی دراز کھینچ کر چھوٹے سائز کا فائل کور نکالا اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے ۔”دیکھو ۔“
    میں نے فائل کھولا۔ مس جین ڈولنگر کی بے شمار تصاویر تھیں جو کسی اخبار سے کاٹ کر نکالی گئی تھیں۔ واقعی ایسی ہی تصویریں تھیں کہ بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
    ”دیکھا!“ کچھ دیر بعد ان کی آواز پر چونک پڑا۔ ورنہ میں تو چونکنے پر بھی تیار نہیں تھا۔
    ” ادھر لاؤ۔ “انہوں نے فائل۔۔۔ میرے ہاتھوں سے جھپٹ کر دوبارہ دراز میں مقفل کردیا۔
    ” کک۔کیا۔ آپ ان تصویروں میں سے کچھ تصویریں مجھے نہیں دے سکتے؟ “ میں نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہا۔
    ” جی نہیں!“ ان کے لہجے میں فیصلہ پن تھا۔
    میں نے ٹھنڈی سانس لی۔ پھر جیسے مجھے ہوش آ گیا اور میں نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ پوچھا۔ ”مگر جناب مضامین۔ ان کے مضامین کہاں ہیں؟“
    بے پروائی سے بولے۔” پتہ نہیں۔“ اور جلدی جلدی سگریٹ کے کش لینے لگے۔ تھوڑی دیر تک ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے رہے۔ پھر میں نے کہا
    ”لیکن جناب۔۔۔ قصہ تھا شیر کے شکار کا۔“
    ”ہاں، کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ایسے مضامین لکھو، شکاریات ساتھ تمہاری تصویروں کے بھی فائل مین ٹین کیے جاسکیں۔“
    ” یہ میں لنگوٹی میں تو ہرگز تصویر نہ کھنچواؤں گا۔“ مجھے غصہ آ گیا
    ” فکر نہ کرو رائفل بھی تو ہوگی، ہاتھ میں۔“
    ” ہاں یہ بات ہے، تو؟“ میں نے گویا سِپر ڈال دی۔
    لیکن وہ انگلی اٹھا کر بولے۔” تجربہ شرط ہے۔ تجربے کے بغیر۔۔۔“
    ”جی۔۔۔ نہیں۔۔۔“ میں بوکھلا کر بولا۔” تو کیا مجھے شیر کا شکار بھی کھیلنا پڑے گا؟“
    “بالکل۔ بالکل۔” وہ میز پر ہاتھ مار کر بولے۔” عنقریب کلیم کا روپیہ ملنے والا ہے۔ میں تمہارے لئے شکار ارینج کر دوں گا۔ بھئی یہاں مغربی ممالک کے رسائل ایسی اسکیموں پر ہزاروں روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ تب کہیں جاکر کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
     
  3. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    ” مگر دیکھیے تو۔“ میں نے تھوک نگل کر کہا۔ ” مجھے کئی درجن پتلونیں سلوانی پڑیں گی۔ تب کہیں جاکر ایک آدھ کامیابی نصیب ہوگی۔“
    جھنجلا کر بولے۔ ”ایک بار کہہ دیا کہ کلیم کا روپیہ۔۔۔“
    ” جی، بہت اچھا۔۔۔ بہت بہتر ۔۔۔“ میں نے بوکھلا کر انہیں جملہ پورا نہ کرنے دیا۔
    انہوں نے دونوں ٹانگیں اٹھا کر میز پر پھیلا دیں اور اونگھنے لگے۔ غالباً وہ کلیم کے روپے کے دوسرے مصارف پر بھی غور کرنے لگے تھے۔
    میں اس معاملے میں ان سے کمزور نہیں تھا۔ اگر وہ کلیم کے روپوں کے خواب دیکھ سکتے تھے تو میرے پاس میں دس روپے والا ایک عدد پرائز بانڈ تھا۔ میں نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ اور ان بیس ہزار روپوں کے بارے میں سوچنے لگا جو اگلے قراندازی میں میرے نام نکلنے والے تھے۔ بیس ہزار۔ ایک اچھی اور دودھ دیتی بھینس پانچ سو میں آتی ہے۔ لہذا دس ہزار میں بیس بھینسیں آئیں گی۔ اگر فی بھینس دس سیر دودھ بھی رکھ لیا جائے توبیس بھینسوں سے دوسو سیر دودھ روزانہ حاصل ہوگا۔ اس طرح ایک روپے فی سیر کے حساب سے دوسو روپے یومیہ ہاتھ آئیں گے۔بھینسیں زیادہ سے زیادہ سو روپے یومیہ کھا جائیں گی، اور سو روپے یومیہ کی بچت ہوگی۔ چھتیس ہزار روپے سالانہ کی یافت۔ میرے اخراجات زیادہ سے زیادہ چھ ہزار روپے سالانہ ہونگے ۔۔۔ تیس ہزار روپے سالانہ کی بچت۔۔۔۔ اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔ اس طرح میں پانچ سال کے اندر فلم پروڈیوسر بن سکوں گا۔ اپنے سرمائے سے فلمیں بنا سکوں گا اور بیٹے ایڈیٹر صاحب! تم اس وقت تک سبزی فروش بن چکے ہو گے یا کسی فٹ پاتھ پر پرانے رسائل، دو دو آنے کی صدائیں لگا رہے ہو گے۔ ہاہا۔۔۔۔ کیا رکھا ہے، ادب وَدب میں۔ ادیب ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ ”ڈیری فارمنگ“ کی جائے۔ ادیب تو نہ دین کا، نہ دنیا کا۔ ہر سال سینکڑوں دودھ والے حج بھی کر آتے ہیں اور شاندار کوٹھیاں بنواتے ہیں دین بھی کماتے ہیں اور دنیا بھی۔۔۔ اور یہ۔۔۔ شیر کا شکار۔۔۔۔ کئی درجن پتلونیں۔۔۔۔ شیر۔۔۔۔ شیر۔۔۔۔ مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی۔
    اور پھر وہ وقت بھی آ ہی گیا جب دنیا بھر کے اخباروں میں ماہنامہ” وفاقی ادب“ کی طرف سے اشتہار شائع ہوا۔
    ” ساری دنیا کے باشندوں سے درخواست ہے کہ اگر کہیں کوئی لاگو اور آدم خور قسم کا شیر موجود ہو تو ماہنامہ ”وفاقی ادب“ کے مدیرِ معان حضرت ہدہد سلیمانی کو فوراً مطلع فرمائیں۔۔۔۔“​
    اشتہار شائع ہونے کے تیسرے ہی دن سے اطلاعات موصول ہونے لگیں۔
    ایڈیٹر صاحب نے فرمایا۔ ”رخت سفر باندھو میاں ہدہد سلیمانی!“
    میں نے کانپتے ہوئے کہا۔” یہ تو سوچئے۔۔۔ اگر سچ مچ شیر آگیا تو کیا ہوگا “
    انہوں نے فوراً ہی مس جین ڈولنگر کی ایک خاص الخاص تصویر نکال کر میرے حوالے کی اور بولے۔”جب بھی خوف معلوم ہو، نکال کر دیکھ لینا۔ شرم بھی آجائے گی اور طبیعت کو سرور بھی حاصل ہوگا۔“
    بہرحال پروگرام کے مطابق پہلا شیر اپنے ہی ملک میں مارنا قرار پایا تھا۔
    بذریعہ ہوائی جہاز مشرقی صوبے میں پہنچا۔ جہاں اسے اطلاع ملی تھی۔ جائے واردات پر پہنچ کر متحیر ہی ہو جانا پڑا۔ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے ریڈیو سیٹ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ ایک آدمی جو اپنا ریڈیو سیٹ زمین میں دفن کر رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں ٹائٹل دیکھ کر اچھل پڑا اور بے حد خوش ہو کر بولا۔” آپ وہی شکاری ہیں نا جس نے اشتہار دیا تھا۔“
    اثبات میں جواب سن کر اس نے اور زیادہ خوشی ظاہر کی۔ کہنے لگا۔” صاحب، اگر آپ نے اس شیر کو مار لیا تو ساری دنیا میں نام ہو جائے گا، آپ کا۔“
    ”ہاں ٹھیک ہے۔“ میں نے کہا۔” لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ وہ اب تک کتنی وارداتیں کر چکا ہے؟“
    ”پندرہ۔۔۔!“
    ”اوہ۔۔۔“ میں نے پر تشویش لہجے میں پوچھا۔” کیا سب مر گئے؟“
    ”وہ جنہیں شیر نے۔۔۔“
    ”آپ غلط سمجھے۔۔۔۔“ وہ چھینبی ہوئی ہنسی کے ساتھ بولا۔” اس نے کسی آدمی یا جانور پر حملہ نہیں کیا۔ وہ تو صرف ریڈیو سیٹ اٹھا لے جاتا ہے۔“
    ” تم نشے میں تو نہیں ہو“ مجھے غصہ آ گیا۔
    ” کسی اور سے پوچھ لیجیے جاکر۔“ اس نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔ اور پھر مٹی کھودنے لگا۔ عجیب خبطی سے سابقہ پڑا ہے۔۔۔میں نے سوچا اور آگے بڑھ گیا۔ پھر وہ سب ہی خبطی ثابت ہوئے کیونکہ انہوں نے اس بیان کی تردید نہیں کی تھی۔ میں نے کہا۔” یا خدا ابھی سے سسپنس شروع ہوگیا۔ شیر اور ریڈیو۔ ۔۔سنسنی۔۔۔۔ حیرت انگیز۔۔۔۔ آخر ریڈیو کیوں؟ یہ کون ہے۔۔۔۔ کیا واقعی شیر ہے یا کوئی سرکاری جاسوس جو شیر کی کھال اوڑھ کر بغیر لائسنس کے ریڈیو چھین لے جاتا ہے۔
     
  4. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    میں حیرت اور سنسنی کے سمندر میں غوتے لگاتا ہوا، ڈاک بنگلے تک آیا۔ بستی کی بے کار اور اوباش لوگوں کا جم غفیر میرے پیچھےتھا۔
    رات بڑی بےچینی سے گزری۔۔۔۔ میں نے سوچا تھا کہ دو ایک دن آرام کرنے کے بعد کوشش کروں گا کہ بات دراصل یہ ہے، میں سوچ رہا تھا کہ ریڈیو اڑا لے جانے والا شیر معمولی ذہانت والا نہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ شکاری کی موجودگی کی اطلاع پا کر چپ چاپ اس گردونواح سے کھسک ہی جائے۔ اور اس طرح میں کسی خطرے کا مقابلہ کیے بغیر اپنا مضمون مکمل کر لوں۔ آخر میں بس اتنا ہی لکھ دینا کافی ہوگا کہ اس شیر کو مارنا ہی آسان کام نہیں کیوں کہ وہ کوئی بدروح ہے جو شیر کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور ریڈیو سیٹ جھٹک لے جاتی ہے۔ جس کی بیڑیاں جلد ایگزہاسٹ ہونے والی نہ ہوں۔ پس ثابت یہ ہوا کہ ریڈیو کی کمرشل سروس جانوروں اور بدروحوں میں بھی مقبول ہو رہی ہے۔
    بہرحال، میں یہی سب سوچتا اور اونگھتا رہا۔ پھر دفعتاً اپنے ٹرانسسٹر ریڈیو سیٹ کا خیال آیا جو میز پر رکھا ہوا تھا۔ میں نے اونگھنا ملتوی کرکے اسے احتیاط سے صندوق میں ہی رکھ دینا مناسب سمجھا۔
    دوسرے دن بستی والے ایک پاڑہ لے کر آئے اور مجھے اطلاع دی کہ مچان بھی بن کر تیار ہو گئی ہے۔ میں نے کہا۔” میاں عقل کے ناخن لو۔ وہ خون کا پیاسا نہیں ہے کہ تم پاڑا لے کر آئے ہو ۔کہیں سے بڑے سائز والے ریڈیو گرام کا انتظام کرو۔ جیسے وہ آسانی سے اٹھا نہ سکے۔ پس جس وقت وہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوگا، اطمینان سے گولی مار دوں گا۔“
    انہوں نے یہ اطلاع بھی دی تھی کی پچھلی رات بھی اس نے ایک آدمی کے مکان میں گھس کر اس کا ریڈیو ریڈیوسیٹ تلاش کیا تھا اور ناکام رہنے پر اس کے خاندان والوں کو گندی گندی گالیاں دی تھیں۔ پھر طرح طرح کی دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا تھا۔
    ” گالیاں دی تھیں؟ شیر نے۔۔۔۔!“ میں نے خوف زدہ انداز میں چیخ کر پوچھا۔
    ”جی جناب!“ اطلاع دینے والے نے کہا۔” اسی لئے آپ کو تکلیف دی ہے۔ورنہ شکاری تو بہت مل جاتے ہیں۔“
    ”میں بالکل نہیں سمجھا ،بھائی صاحب!“ میں نے بوکھلا کر کہا۔
    کہنے لگے۔” آپ سلیمانی ہیں نا۔ وہ جو ہوتا ہے نقشِ سلیمانی اس سے بھی بلائیں بھاگ جاتی ہیں۔ ہم نے کہا، آپ ہی ٹھیک رہیں گے۔“
    میں کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔” تم سے زبردست غلطی سرزد ہوئی ہے۔ ارے میاں، میرا ادبی نام ہدہد‫ ‫ سلیمانی ہے۔ ورنہ خاکسار کو بندے علی خاں کہتے ہیں۔ نقش سلیمانی اور چیز ہے۔“‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬
    ” کچھ بھی ہو پیچھا چھڑائیے اس سے ہمارا۔“ جواب ملا۔
    مجھے سخت غصہ آرہا تھا، ان نامعقولوں پر۔” ارے کم بختو رائفل گولی اگلتی ہے۔ تعویذ نہیں برساتی۔ یہ کس جنجال میں پھنسا؟“
    لیکن اب تو آ ہی پھنسا تھا۔۔۔۔! کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔
    ” یارو آج تک کسی نے اس شیر کو دیکھا بھی ہے؟“ میں نے ان سے سوال کیا۔ کئی آدمیوں نے اثبات میں جواب دیا۔
    میں نے سوچا اگر وہ واقعی شیر ہے سویہ ریڈیو والی بات قطعی بکواس۔۔۔۔! شیر کی آڑ میں کوئی آدمی ریڈیو سیٹوں پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے۔ خیر، دیکھا جائے گا۔ چلو ان لوگوں پر تھوڑا رعب ہی پڑے گا جو مجھے کسی دوسری دنیا کی سمجھ کر عقیدت مندانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے ان سے مزید بحث کرنا مناسب نہ سمجھتے ہوئے رائفل سنبھالی۔ پتلونوں کا گٹھڑ بغل میں دابا اور جنگل کی طرف چل پڑا۔کئی آدمی پاڑے کو ہاتھ سے ہوئے،میرے پیچھے چلے آرہے تھے۔
    شیر کے پنجوں کے نشانات ی ڈھونڈنے کی مہم وہ لوگ پچھلے ہی دن سر کر چکے تھے اور اسی کے مطابق ایک جگہ مچان بھی بنا ڈالی تھی ۔۔۔یہاں ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔خیال تھا شیر لنچ کے بعد یہاں پانی پینے آتا ہے۔میں نے ان گدھوں سے کہا تو پھر یہاں پاڑہ باندھنے کی کیا ضرورت ہے۔لنچ کے بعد وہ صرف سوئیٹ ڈش پسند کرے گا۔
    ”جاؤ۔جا کر حلوا پکوا لاؤ۔“ میں نے ان میں سے سب سے عقلمند آدمی سے کہا۔
    اس نے کہا۔”صاحب! شکر بہت مہنگی ہوگئی ہے۔ کہیے تو زرمبادلہ کا حلوہ پکوا لاؤں؟“
    میں نے کہا۔”کچھ بھی کرو۔ لنچ بعد وہ پاڑے کی طرف ہرگز راغب نہ ہوگا۔ ویسے میں پاڑا بھی بندھوائے دیتا ہوں۔ تم خود ہی دیکھ لو گے۔“
    اس نے مجھے مشورہ دیا کے پہلے پاڑے ہی والی تدبیر آزما لی جائے۔ ناکام رہی تو پھر حلوا بھی پکوا دیا جائے گا۔ میں نے سوچا کون احمقوں سے مغز پچی کرے۔ چلو یوں ہی سہی۔
    انہوں نے پاڑا تالاب کے کنارے ایک درخت سے باندھ دیا اور خود ہانکا کرنے چلے گئے۔ میں مچان پر جا چڑھا۔
    ہانکا کرنے والوں کا شور بہت دور سے سنائی دے رہا تھا۔ میں شیر کا منتظر رہا۔ گٹھڑ میں سے ایک پتلون کھینچ کر سامنے رکھ لی تھی۔ پاڑا تالاب کے کنارے کھڑا اطمینان سے جگالی کر رہا تھا۔
    کچھ دیر بعد دور سے شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی۔ میں نے رائفل ہاتھ سے رکھ کر پتلون سنبھال لی۔
     
  5. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ شیر بھی آگیا۔ بڑی شان سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا کلاب کی طرف آ رہا تھا۔ پتلون بھی میرے ہاتھ سے چھوٹ پڑی۔ پاڑے کی بری حالت تھی۔دفعتاً ہلکے سے قہقہے کےساتھ اس نے کہا۔” برخودار پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں لنچ کر چکا ہوں۔ شکاری صاحب چغد معلوم ہوتے ہیں۔تمہیں خواہ مخواہ تکلیف دی۔“
    اپنے لئے لفظ ”چغد“ سن کر میں غصے سے پاگل ہو گیا اور یہ بھی بھول گیا کے کچھ دیر پہلے بےحد خائف تھا۔
    میں نے اپنا سینہ ٹھونک کر کہا۔” میں ادیب ہوں۔“
    پھر میں نے محسوس کیا کہ وہ میری طرف مڑ کر حقارت سے مسکرایا ہے۔
    اس نے کہا۔” تب تم چغد سے بھی سینئر ہو۔ یعنی اُلو۔“
    میں نے رائفل سنبھالتے ہوئے اسے للکارا۔” زبان سنبھال کر بات کر۔“
    وہ ہنسنے لگا۔ ‫دیر تک ہنستا رہا۔ پھر بولا۔” رکھ دو۔ رائفل رکھ دو۔ کیوں ایک گولی ضائع کرو گے۔ ٹرانسسٹر ریڈیو سیٹ ہو تو نکالو۔ میں ابھی تمہارے سامنے یہیں دم توڑ دوں گا۔ “‬‬‬‬‬
    ”کیا بکواس ہے؟“ میں نے چیخ کر کہا۔
    ” یقین کرو ۔میرے دوست۔” وہ بے حد سنجیدہ بلو گلوکیر آواز میں بولا۔” کلامِ اِقبال کی قوالی سن کر میں زندہ نہیں بچوں گا۔ دراصل خود کشی ہی کی نیت سے میں بستی والوں کے ٹرانسسٹر سیٹ اٹھا لاتا ہوں۔ ایک دن اتفاق سے اسی وقت میں نے ریڈیو کھولا۔ کہیں سے کلامِ اِقبال کی قوالی ہو رہی تھی۔ میری حالت بگڑنے لگی۔ بس مرنے ہی والا تھا کہ کمبخت بیٹریاں ایگزاسٹ ہوگئیں۔ ریڈیو بند ہوگیا اور میں نہ مر سکا۔ آدمی تو کیا، اس ملک میں جانوروں کو بھی زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں۔ جہاں اقبال جیسا عظیم المرتبت شاعر قوالوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔کیا بتاؤں دل کی کیا حالت ہوتی ہے،جب اس ملکوتی کلام پر بے ہنگم اور بھدی موسیقی کے بغدے چلتے ہیں۔آخر اس عظیم شاعر کو کس گناہ کی پاداش میں قوالوں کے حوالے کر دیا گیاہے۔ قیام پاکستان سے قبل تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ شاید نظریہ پاکستان پیش کرنے کی سزا ہے۔“
    ۔۔۔ پھروہ شیر دفعتاً نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اور میرے کانوں سے ڈھولک اور ہارمونیم کا شور ٹکرانے لگا۔کچھ ایسی اذیت ہوئی کہ بے ساختہ اچھل پڑا۔آنکھیں مل کر دیکھا تو ایڈیٹر صاحب سامنے بیٹھے ہوئے جھومتے نظر آئے۔ریڈیو پوری آواز سے کھلا ہوا تھا اور شبِ جمعہ ہونے کی وجہ سے قوالی جاری تھی۔۔۔۔قوال صاحب فرما رہے تھے
    خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
    کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں​
    سچ کہتا ہوں، میرا بھی یہی جی چاہا کہ خود کشی کر لوں۔ اب یہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے اقوال حضرت کلام اقبال پر اصلاح بھی فرمانے لگے۔
    میں نے ریڈیو کی طرف ہاتھ اٹھا کر ایڈیٹر صاحب سے پوچھا۔” یہ کیا بک رہا ہے۔“
    جھومتے ہوئے بولے۔” پتا نہیں۔۔۔۔ ویسے میں پسند نہیں کرتا کہ میرے کام کرنے والا کوئی آدمی کرسی پر ہی سونا شروع کردے۔“
    ”میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہ صحیح شعر پڑھ رہا ہے۔“ میں نے غصیلی آواز میں پوچھا۔
    ” مجھے اشعر شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم میری بات کا جواب دو۔“
    ” دیتا ہوں، جواب!“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ہاتھ بڑھا کر ایڈیٹر صاحب کا گریبان پکڑ لیا اور ایک ہی جھٹکے میں وہ بھی اُٹھتے چلے آئے۔
    اب ان کی گردن میری گرفت میں تھی میں دانت بھنچے رہا تھا۔۔۔۔
    ” شیر کے شکار سے پہلے تم جیسے مٹی کے شعروں کا شکار ہونا چاہیے جو ادب کے سچے خادم بھی ہیں اور جنہیں کلام اقبال کی قوالی پر حال بھی آتا ہے۔“
    وہ غل مچاتے رہے لیکن میں نے انہیں اس وقت تک نہیں چھوڑا، جب تک کہ ان کا دم نہیں نکل گیا۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
     
  6. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

  7. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

  8. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    بہت ہی اچھی تحریر ہے
    اس تحریر کو یونہی فورم پر شیئر کرنے کا شکریہ
     
    یاسر حسنین نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں