1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

شرک کو سمجھیے-4: (دوسرا حصہ) کیا صرف بت پرستی ہی شرک ہے؟

'مذاہب' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏دسمبر 7, 2017۔

  1. دیوان

    دیوان یونہی ہمسفر

    فرشتوں کو معبود بنایا گیا
    ويوم يحشرهم جميعا ثم يقول للملائكة اهؤلاء اياكم كانوا يعبدون () قالوا سبحانك انت ولينا من دونهم بل كانوا يعبدون الجن اكثرهم بهم مؤمنون (سبا: 40-41)
    ترجمہ:اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے تو پاک ہے (شریکوں سے) تو ہی ہمارا دوست ہے ان کے سوا بلکہ یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے ان پر ایمان رکھتے تھے۔
    مشرکین عرب نے فرشتوں کو معبود بنا لیا تھا جن کو اپنی حاجتوں کے وقت پکارا کرتے تھے۔
    جنوں کو معبود بنایا گیا
    عزی جس کا ذکر سورۃ نجم آیت 19 میں آیا ہے اس کے متعلق آتا ہے کہ وہ جنی تھی جس کی عبادت کی جاتی تھی۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالدؓ بن ولیدکو عزی کا معبد ختم کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے جب اس کے مبعد کو منہدم کیا تو اس میں سے ایک عورت برآمد ہوئی جس کو حضرت خالدؓ نے قتل کرڈالا۔
    اہل عرب کے دو مشہور بت تھے اساف اور نائلہ۔ایک روایت میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو ایک ادھیڑ عمر کی ایک حبشی عورت واویلا کرتی اپنے رخسار نوچتی ہوئی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
    تلک نائلۃ ایست ان تعبد ببلدکم ھذا ابدا (البدایۃ و النھایۃ)
    ترجمہ:یہ نائلہ ہے یہ اس سے ناامید ہوچکی ہے کہ تمہارے اس شہر میں کسی وقت اس کی عبادت ہو۔
    یہ نائلہ بھی عزی کی طرح کوئی پری یا جنی تھی جس کے بت کی مشرکین مکہ عبادت کرتے تھے۔
    حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی عبادت کی گئی
    مشرکین عرب نے کعبۃ اللہ کے اندر بھی بت رکھے ہوئے تھے۔ سنن ابوداؤد کی ایک روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کےبعد جب رسول اللہ ﷺ نے کعبہ اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حکم فرمایا:
    فاخرج صورة ابراهيم وإسمعيل
    ترجمہ: ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کی تصویروں کو باہر نکال دو۔
    قبر کی عبادت کی گئی
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں تصویریں تھیں۔ انھوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے بھی کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی تصویریں بنا دیتے پس یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ)
    اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں یہ دعا فرمائی:
    اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مؤطا امام مالک)
    ترجمہ:اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔
    قرآن پاک میں فرعون کے یہ الفاظ آئے ہیں:
    وقال فرعون ياايها الملا ما علمت لكم من اله غيري (القصص: 38)
    ترجمہ:اور فرعون نے کہا کہ اے اہل دربار میں تمہارا، اپنے سوا کسی کو الہ نہیں جانتا
    ایک اور انداز سے اس کو سمجھیں۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
    واتخذوا من دون الله آلهة لعلهم ينصرون (یس:74)
    ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا (اور) الہ بنا لیے ہیں کہ شاید (وہ) ان کی مدد پہنچیں
    واتخذوا من دون الله آلهة ليكونوا لهم عزا (مریم: 81)
    ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا اور الہ بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں
    یعنی اللہ کے علاوہ وہ جن کو بھی الہ مانتے تھے ان کو وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے۔ پتھر کے بتوں میں ایسی کون سے قوت پوشیدہ تھی جس کی بنیاد پر مشرکین عرب ان سے مدد کی امید باندھتے تھے ان سے عزت کے طلب گار تھے؟ اس سوال کا جواب اس کے علاوہ کیا ہے کہ ان بتوں کے پیچھے شخصیات تھیں۔
    حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ان اقوال کو غور سے پڑھیں:
    ظاہر و باطن دونوں طرح کے شرک کو چھوڑنے والوں میں سے ہوجا۔ بتوں کی پرستش کرنا تو ظاہری شرک ہے اور مخلوق پر بھروسہ رکھنا اور نفع نقصان میں ان پر نگاہ ڈالنا ہے یہ باطن کا شرک ہے۔ (الفتح الربانی مجلس ۳۴)
    فتوح الغیب میں فرماتےہیں:صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا اور خدائے عز وجل کے ساتھ دنیا اور آخرت اور وہاں کی کسی چیز کو اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہے وہ غیر اللہ ہے۔ بس جب تو اس کے سوا اس کے غیر کی طرف مائل ہوا تو بے شک تو نے غیر خدا کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا۔ ( فتوح الغیب وعظ ۷)
    خلاصہ یہ ہے کہ بتوں کی اصل صاحب بت اور تصویروں کی اصل صاحب تصویر تھے۔ عقیدت پتھر کے بتوں یا کاغذی صنم (تصویر) سے نہیں ہوتی ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ مشرکین عرب بھی اصلا بتوں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے پیچھے شخصیات تھیں جن کی عظمت کے آگے وہ جھکتے تھے جن کے متعلق یہ عقیدہ قائم کرلیا گیا تھا کہ یہ اللہ کے اس قدر قریب ہوگئے ہیں کہ ان کے واسطے سے ہم اپنی حاجتوں میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔ یہی سب کچھ آج بھی ہوتا ہے۔ یہ بات تو ایک معمولی سمجھ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک ناتراشیدہ پتھر تو کچھ حیثیت نہ رکھے لیکن جب وہی پتھر تراش دیا جائے تو وہ معبود بن جائے جو سب کچھ کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شرک کی ابتدفرد یا مکان کی عظمت سے شروع ہوتی ہے جو بے لگام ہوجائے تو عبادت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
    (جاری ہے)​
    --------------------------
    پچھلی قسط:
    شرک کو سمجھیے-3: مشرکین عرب رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کیا کہتے تھے، مشرکین عرب کا شرک کیا تھا؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں