1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

سور کا بچہ محبوب از ابن صفی

'گوشہ ءِ ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از یاسر حسنین, ‏دسمبر 27, 2017۔

  1. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر


    سور کا بچہ محبوب
    از
    ابن صفی

    کمپوزنگ : یاسر حسنین​

    لڑکا کچھ بیزار بیزار سا نظر آ رہا تھا لیکن لڑکی بے حد رومینٹک ہورہی تھی اور کیوں نہ ہوتی، بڑی خوبصورت شام تھی اور سمندر کا کنارا تھا۔
    لڑکے پر اس لئے بیزاری مسلط تھی کہ وہ یہاں تفریحاً نہیں آیا تھا۔ اُس کے باپ کی ماہی گیری کی کشتیاں تھیں جن کی دیکھ بھال اُس کی ذمہ داریوں میں شامل تھی... یونیورسٹی میں بی ایس سی کا طالب علم تھا اور لڑکی سے وہیں ملاقات ہوئی تھی... ہم جماعت تھی اس کی۔
    جب لڑکی کو معلوم ہوا کہ وہ بھی ساحل ہی کے قریب والی بستی میں رہتا ہے تو اُسے اُس سے محبت ہوگئی۔ کیونکہ وہ خود بھی وہیں رہتی تھی اور لڑکے کو اس مشہور کہاوت پر یقین آگیا تھا ہے کہ عورت ایک ایسی بیل ہے جو قریب کے درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اِس کے باوجود بھی وہ اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ تو سکتا نہیں تھا۔ لڑکی کی محبت اسے بہرحال برداشت کرنی پڑی تھی...!لڑکا ذرا فلسفی قسم کا تھا! اور لڑکی بے حد رومینٹک... فلموں میں ناکام محبت قسم کی ہیروئنوں کی اداکاری اُسے ہچکیوں سے رونے پر مجبور کر دیتی تھی۔ ہر وقت اپنے ذہن پر غم آلود اداسی مسلط رکھنے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔
    اس وقت وہ اسے بڑے پیار سے دیکھ رہی تھی۔ اور وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کہاں سے نازل ہوگئی۔ کشتیوں کی واپسی کا حساب کتاب کر کے جانے ہی والا تھا کہ وہ ٹپک پڑی۔
    ”ہائے کیسی نرم اور خُنک ہوا ہے!“ وہ سسکاری لے کر بولی۔
    لڑکے کے نتھنے پھڑکے اور وہ ایک عدد چھینک مار کر بولا۔” نزلہ پیدا کرتی ہے ایسی ہوا۔“
    ”مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔“ لڑکی اٹھلائی۔
    ”لہسن کی چٹنی کھاتی ہو گی۔“
    ”چھی... لہسن کی چٹنی...! مجھے تو نفرت ہے لہسن کی بُو سے۔“​
    ”پھر کوئی اور وجہ ہوگی۔“ لڑکا بیزاری سے بولا۔​
     
  2. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    ”اوہ...! وہ اُدھر دیکھو اس چٹان کے اُدھر وہ جو سفید پرندہ بیٹھا ہوا ہے۔“
    ”بگلا ہے!“
    ”کیا محسوس ہو رہا ہے...! “
    ”بھلا میں بگلے کے احساسات کی ترجمانی کس طرح کر سکوں گا۔“
    ”تمہیں کیا محسوس ہو رہا ہے...! “
    ”مجھے...! “ لڑکے نے حیرت سے کہا۔” مجھے کیا محسوس ہوگا...!“
    "ہائے اس کے شفاف پروں کی نرمی مجھے اپنے گالوں پر محسوس ہورہی ہے۔“
    لڑکے نے اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا اور منہ چلا کر رہ گیا۔
    ”سفید پرندے!“ وہ آنکھیں بند کر کے بولی۔” جب سفید پرندہ شام کی دُھندلاہٹوں میں پرواز کرتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے کانوں میں آہستہ آہستہ کہہ رہا ہو۔ اُڑو... تم بھی اُڑو...اُڑو... اُڑتی رہو۔ حتیٰ کے تھک پر گر پڑو۔“
    ”کانوں میں کوئی کہتا ہے!“ لڑکے نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔
    ”ہاں!“ وہ نیم وَا آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔
    ”خدا کے لئے چَھاپَک شاہ کے مزار پر حاضری دو... آسیب جل جائے گا ورنہ ہو سکتا ہے کہ زندگی بھر پریشان رہو۔“
    ”کیا بَک رہے ہو!“
    ”یقین کرو۔ میرے ایک ماہی گیر کی بیوی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ کوئی اس کے کانوں میں کہتا تھا کہ کنویں میں کود پڑو... اور وہ ایک دن سَچ مُچ کود گئی۔“
    ”بڑے بھولے ہو تم...! “ وہ ہنس پڑی۔ ہنستی رہی اور پھر بولی۔” اسی لیے تو تُم پر اتنا پیار آتا ہے۔“
    ”میں تُمہارے پاپا سے کہوں گا۔“
    ”کیا کَہو گے؟ “
    ”یہی کہ تمہیں چھاپک شاہ کے مزار پر لے جائیں۔“
    ”بے وقُوفی کی باتیں مت کرو۔ تُم اِتنا بھی نہیں سَمجھتے! “
    ” کِیا نہیں سمَجھتا...!“
    ”یعنی... کہ تمہیں کَبھی فِطرت کی سَرگوشیاں نہیں سُنائی دیتیں۔“
    ”ارے وہ پھوہڑ... فِطرت...!“
    ”کِیا مَطلب؟“
    ”میری خالَہ کی لَڑکی ہے... گندی، بدسلیقہ، بدزبان۔“
    ”یہاں اُس کا کیا ذِکر...!“
    ”تُم فِطرت ہی کی بات تو کر رہی تھیں... میں تو کبھی آنکھ اُٹھا کر دیکھتا بھی نہیں اُس کی طرف۔“
    ”اُف فوہ...! میں تُمہاری خَالہ زَاد فِطرت کی بات نہیں کر رہی تھی... نیچر... نیچر کی سَرگوشیوں کی بات تھی...“
    ”ارے لَاحَولَ...!“ وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گیا۔
    وہ بھی بُرا سا مُنہ بنا کر دُوسری طرف دیکھنے لگی تھی۔
    ”اَب چَلیں؟“ لڑکے نے تھوڑی دیر بعد پُوچھا۔
    ”نہیں، میں غُروب کا منظر دیکھنا چاہتی ہُوں۔“
    ”پَرسوں بھی تو دیکھ چکی ہو۔“
    ”روز نئی بات ہوتی ہے، نئے احساسات ہوتے ہیں۔ کبھی شَفَق سُرخ ہوتی ہے اور کَبھی اِس میں نیلگوں دَھاریاں بھی شامل ہوتی ہیں۔“
    ”وہ تو ہوتی ہی ہیں۔" لڑکے نے مَری مَری سی آواز میں کہا۔
    ”تُم کِیا محسوس کرتے ہو۔“
    ”بَس یہی کے اَب رَات ہو جائے گی اور دِن بَھر کی تھکن سے نِجات ملِے گی۔“
    ”ہائے رے سادگی!“
    ”پھر اور کیا محسوس کرنا چاہیے؟“ وہ بے بَسی سے بولا۔
    ” مجُھے تو ایسا لگتا ہے جیسے میرا وُجود بھی ان رَنگین دُھندلکوں میں تحلیل ہوجائے گا۔“
    لڑکے کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہلنے لگے۔ لڑکی نے اُسے غور سے دیکھا اور بولی ”یہ کیا بُدبُدا رہے ہو۔“
    ”آیت الکرسی پڑھ رہا ہوں! “
    ”کیوں...؟“
    ”آسیب ہی معلوم ہوتا ہے!“
    لڑکی زور سے ہنسی تھی اور لڑکا ہونّقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگا تھا۔
    ”تمہاری معصومیت پر کبھی پیار آتا ہے... اور کبھی غصہ!“
    ”مجھے کچھ نہیں پتہ چلتا... ویسے تمہاری باتیں عجیب ہوتی ہیں۔“
    ”کیا تمہیں اچھی نہیں لگتیں۔“
    ”اچھی تو لگتی ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتیں!“
    ”اس کے باوجود میں یہ چاہتی ہوں کہ تم ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہو۔“
    ”تم سے جدائی کا تصور بھی میرے لیے موت سے کم نہیں۔“
    لڑکا ٹھنڈی سانس لے کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔
    ”کیا دیکھ رہے ہو؟“
    ”آخر بارش کب ہوگی۔ دن بھر حبس رہتا ہے۔“
    ”ہوجائے گی“۔ لڑکی بُرا سا منہ بنا کر بولی۔
    ”اس بار بڑے جھینگے نہیں مل رہے۔ پتا نہیں کیا بات ہے۔“ لڑکے نے کہا۔
    ”بدبودار باتیں مت کرو۔“
    ”کیا تمہیں جھینگے پسند نہیں ہیں۔“
    ”صرف تلے ہوئے۔ وہ بھی جو چائنیز ریستورانوں میں ملتے ہیں۔“
    ”جھینگوں کا پلاؤ کھایا ہے کبھی۔“
    ”نہیں۔“
    ”بے حد لذیذ ہوتا ہے! امی تو شاندار پکاتی ہیں کہو تو کبھی کھِلواؤں۔“​
     
  3. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    ”تمہاری امی بہت سوئیٹ ہیں۔“
    ”پاپا کا تجربہ اس سے مختلف ہے۔ کہتے ہیں کہ اُن سے زیادہ کڑوی کسیلی عورت اُن کی نظروں سے کبھی نہیں گزری۔“
    ”شوہر بےوقوف ہوتے ہیں۔ انہیں تو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہوتی۔“
    ”تمہارے ڈیڈی تمہاری ممی کے شوہر ہیں۔“
    ”ہوں گے۔ میں کیا جانوں!“
    ”تمہارا بھی کوئی ہوگا۔“
    ”سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ ضروری نہیں کہ شادی بھی کرلوں۔“
    ”تو پھر کیا فائدہ؟“ لڑکے نے مایوسی سے کہا۔
    ”میں عورت ہوں بنئے کی دوکان نہیں کہ تم فائدہ اور نقصان لے بیٹھو!“
    ”اچھا اچھا ٹھیک ہے۔“
    ”کیا ٹھیک ہے۔“
    ”کرتی رہو...محبت۔“
    ”مرتے دم تک کروں گی۔“
    ”یعنی... میں کراچی رہوں گا۔ اور تم لاہور میں بیٹھ کر مجھ سے محبت کرو گی!“
    ”کیوں نہیں۔“
    ”اور میں یہاں کیا کروں گا؟“
    ”جو تمہارا دل چاہے لیکن میرے علاوہ کسی اور سے محبت کی توگولی مار دوں گی... ہائے وہ دیکھو...پانی رنگین لہریئے کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔“
    ”لگ تو رہے ہیں...لیکن....یہ محبت...“
    ”کیوں کیا ہوا اس محبت کو۔“
    ”میری سمجھ میں نہیں آتی۔“
    ”کیوں نہیں آتی۔ آنی چاہیے یہ تو روحوں کا رشتہ ہے۔“
    ”میری سمجھ میں نہیں آتی یہ بات۔“
    ”آ جائے گی جلدی کیا ہے۔“
    ”بی ایس سی کر کے تم لاہور چلی جاؤ گی۔“
    ”اور تمہیں چاہتی رہوں گی۔“
    ” خواہ کچھ ہو...“
    ”خواہ کچھ ہو...لیکن شادی نہ تم سے کروں گی اور نہ کسی اور سے۔“
    ”لیکن میرا کیا ہو گا؟“
    ”تم بھی یہی کرنا۔“
    ”لیکن... یعنی کہ نہ تم سے شادی نہ کسی اور سے...“
    ”اگر تم ایسا کر سکو تو فخر سے میرا سر ہمیشہ اونچا رہے گا۔“
    ”لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے برگشتہ ہو کر کسی اور کو چاہنے لگو۔“
    ”قیامت تک ممکن نہ ہوگا۔“
    ”میں کچھ کچھ محسوس کر رہا ہوں۔“
    ”کیا محسوس کر رہے ہو؟“
    ”جیسے ہم دونوں محض روحیں ہوں صدیوں سے بھٹکتی ہوئی روحیں۔“
    ”ہائے تم ایسی باتیں بھی کر سکتے ہو۔“
    ”اور تم ایک ایسی مدھر تان ہوں جو میری رگوں میں لہو بن کر تیرتی رہتی ہے۔“
    ”ہائے سوئیٹ... سوئیٹ... سوئیٹ...“
    ”لیکن تم نے یہ کہہ کر مجھے اُداس کر دیا ہے کہ مجھ سے شادی نہیں کروگی۔“
    ”ہم زندگی بھر شادی کے بغیر بھی ساتھ رہ سکتے ہیں۔“
    ”وہ کس طرح۔“
    ”دونوں کسی بھی بزنس میں پارٹنرشپ کرلیں گے۔“
    ” انوکھا خیال ہے۔“
    ” چھوڑو یہ باتیں... اس وقت تو سمندر کی سیر کو دل چاہ رہا ہے۔“
    ”آہا تو چلو... ہماری ایک موٹر بوٹ ساحل پر موجود ہے۔“
    ” تم چلاؤ گے۔“
    ”ایکسپرٹ ہوں... بارہ سال کی عمر میں تنہا سمندر میں گھستا رہا ہوں۔“
    ” تو پھر چلو۔ ہم ان لمحات کو امر بنالیں۔“
    وہ اس جگہ پہنچے تھے جہاں موٹر بوٹ لنگر انداز تھی۔ لڑکے نے لنگر اٹھا کر انجن اسٹارٹ کیا اور موٹر جھاگ اڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
    ”ہم دونوں...ہم دونوں...اس لامحدود بیکراں سمندر میں...ہم دونوں...صرف ہم دونوں...“ لڑکی گنگناتی رہی۔
    ”مجھ سے زیادہ کسی کو نہیں چاہتیں۔“لڑکے نے سوال کیا۔
    ”ہرگز نہیں۔ کسی کو بھی نہیں۔ تم میری زندگی پر محیط ہو کر رہ گئےہو۔“
    ”اور مجھے ہمیشہ چاہتے رہو گی۔خواہ کچھ ہو۔“
    ”خواہ کچھ ہو میرے محبوب۔“
    ”یہ تو دادا جان کا نام تھا۔“
    ”اوہ رَبِش...محبوب یعنی جس سے محبت کی جائے...ویسے تمہارے دادا جان کیا کرتے تھے۔“
    ”فوجی تھے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔“
    ”تمہارے باپ فوج میں کیوں نہ گئے۔“
    ”سنا ہے کہ انہیں بھی کسی سے محبت ہو گئی تھی اور وہ شاعری کرنے لگے تھے۔“
    ”آہا تو تمہاری ممی...“
    ”نہیں۔ جس سے محبت کی تھی اس سے شادی نہیں ہو سکی تھی...“
    ”چارمنگ!“ وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی۔
    ”مجھے تو کبھی کبھی اس پر افسوس ہوتا ہے...وہ آج بھی اپنی محبوبہ کو یاد کر کے رو دیتے ہیں۔“
    ”ہائے...کاش تم بھی یہی کرو۔“
    ” مگر ہم تو پارٹنرشپ میں بزنس...“
    ”ہاں...خیر!“ وہ بے دلی سے بولی "سوچیں گے اس پر بھی۔“
    ”مڈل ایسٹ میں اچار اورچٹنی کی بڑی کھپت ہے۔“​
     
  4. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    ” اب بس بھی کرو۔ اسی وقت اچار اور چٹنی بھی لے بیٹھے۔ وہ دیکھو جہاں پانی شفق کی عنابی دھاریوں کو چُھو رہا ہے۔“
    ”لاکھ برس بھی نہیں چُھو سکتا...زمین گول ہے۔“
    ”ایسا محسوس ہوتا ہے۔“
    ”لیکن ہم جاہل تو نہیں ہیں۔ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فریبِ نظر ہے۔“
    ”ہائے تمہارا بھولاپن۔ اتنے پیارے لگتے ہو بے وقوفی کی باتیں کرتے وقت کہ کیا بتاؤں۔“
    ”کیا تم نے پہلی بار محبت کی ہے؟“
    ”بالکل پہلی بار...اس سے پہلے کبھی کسی نے اتنا متاثر نہیں کیا کہ اس سے محبت کرنے لگتی۔ لیکن مجھ سے بُہتوں نے محبت کی ہے۔“
    ”مجھے بتاؤ۔ ایک ایک کا سر توڑ دوں گا۔“
    ”پتا نہیں اب وہ کہاں ہوں گے۔ جب میں میٹرک میں تھی۔ لاہور کی بات ہے۔ پڑوس کے ایک صاحب کریلے سے چِڑھتے تھے۔ میں انہیں اپنی کھڑکی سے کریلا دکھایا کرتی تھی۔ پہلے تو پتھر لے کر دوڑتے تھے۔ پھر محبت کرنے لگے تھے۔“
    ”پھر تم نے کیا کیا؟“
    ”کچھ بھی نہیں۔ جب وہ محبت کرنے لگے تو میں نے کریلا دکھانا چھوڑ دیا...سارا چارم ختم ہو گیا تھا۔“
    ”تمہیں ان کی محبت کا علم کیسے ہوا تھا۔“
    ”خط لکھا تھا میرے نام...“
    ”کیا لکھا تھا؟“
    ”یہی کہ اگر تم نے محبت کا جواب محبت سے دیا تو میں باقاعدہ طورپر کریلا کھانے لگوں گا۔“
    ”پھر کیا ہوا تھا؟“
    ”میں نے لکھ دیا تھا کہ آپ کھائیں یا نہ کھائیں۔ میں آپ سے محبت نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ آپ کا قد چھوٹا ہے... دور سے بچے لگتے ہیں...اور خدا کی قسم میں نے بچہ ہی سمجھ کر آپ کو کریلا دکھایا تھا۔ میرا قصور معاف کیجئے اور بدستور کریلے سے چِڑھتے رہیے۔“
    ”کوئی اور بھی تھا؟“
    ”ہاں۔ ایک مصور تھا جس نے دور سے میری تصویر بنائی تھی۔ جو بالکل میری دادی جان سے مشابہ تھی۔“
    ”اس نے بھی خط لکھا تھا۔“
    ”نہیں زبانی باتیں کی تھیں۔“
    ”کیا کہا تھا۔“
    ”یہی کہ تم میرے فن کی زندگی ہو۔ بکری کی تصویر بنانے کی کوشش کرتا ہوں تو تمہاری بن جاتی ہے۔ میں کیا کروں۔“
    ”پھر تم نے کیا کہا تھا؟“
    ”میں کیا کہتی، چپ چاپ سنتی رہتی تھی۔“
    ”وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا ہوگا۔“
    ”نہیں محلے والوں نے اسے مار پیٹ کر محلے سے نکال دیا تھا۔ دراصل وہ ایسی ہی باتیں کئی لڑکیوں سے کرچکا تھا۔“
    ”تم اس سے بالکل متاثر نہیں ہوئی تھیں۔“
    ”شاید ہو جاتی اگر وہ محلے سے نکالنا نہ دیا جاتا۔“
    ”کیا خاص بات تھی اس میں؟“
    ”قہقہہ لگاتا تو ایسا معلوم ہوتا جیسے دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہو۔“
    ”کیا بات ہوئی۔“
    ”روتے ہوئے مرداچھے لگتے ہیں۔ تمہاری رونی صورت ہی نے تو مجھے اتنا متاثر کیا ہے۔“
    ”ہاں شاید ایسا ہی ہے۔" لڑکے نے ٹھنڈی سانس لی۔
    ”تمہاری یہ مغموم آنکھیں مجھے بڑی پیاری لگتی ہیں۔“
    ”میرے علاوہ اور کوئی ایسا نہیں ملا۔“
    ”نہیں، اتنی مکمل غم کی تصویر میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔“
    ”سارا قصور دھوتر مچھلی کا ہے۔“
    ”کیا مطلب؟“
    ”بچپن ہی سے عادت رہی ہے کہ تنہائی میں دھوتر مچھلی کا سا منہ بنانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔“
    ”کتنا رومینٹک پہلو ہے تمہاری زندگی کا۔“
    ”اچھا!“ لڑکے کے لہجے میں حیرت تھی۔
    ”ساری دنیا میں منفرد ہو۔“
    ”میں نہیں سمجھا۔“
    ”نہ محمد علی کی نہ وحید مراد کی دھوتر مچھلی کی نقل اتارتے تھے۔“
    ”اب کیا کرتا اپنی افتاد طبع کو۔“
    ”اسی لیے تم پر میری جان جاتی ہے۔ ہفت اقلیم کی سلطنت کے بدلے میں بھی تمہیں نہ دوں۔“
    ”اور ہر حال میں مجھ سے محبت کرتی رہو گی۔“
    ” ہر حال میں...بڑے سے بڑا طوفان بھی میری محبت کا رخ نہیں موڑ سکے گا تم دیکھ لینا۔“
    ”خواہ میری وجہ سے تمہاری زندگی ہی کیوں نہ خطرے میں پڑجائے۔“
    ”تمہارے ہاتھوں مر جانا بھی مجھے گوارا ہوگا۔“
    ”لیکن شادی نہیں کروگی۔“
    ”اب سوچ رہی ہوں کہ کر ہی لوں۔“
    ”واہ اتنی جلدی خیال بدل دیا۔“
    ”محض دھوتر مچھلی کی وجہ سے۔“
    ” میں نہیں سمجھا۔“
    ”تنہائی میں تمہیں دھوتر مچھلی کا سا منہ بناتے ہوئے دیکھنے کی خواہش بڑی شدید ہو گئی ہے۔“
    ”واقعی بہت عجیب ہو۔“
    ”جب چھینک آنے سے پہلے منہ بناتے ہو اور چھت کے بعد ناک سُڑکتے ہو تو میرا دل چاہتا ہے کہ تمہیں گود میں اٹھا کر بھاگ جاؤں۔“
    ”لڑکے نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور وہ کہتی رہی تھی۔ ایک بار ایک ایسا آدمی بھی پسند آیا تھا جو آستین سے ناک صاف کیا کرتا تھا لیکن اس نے میری طرف توجہ نہیں دی تھی۔ اس لئے اس سے محبت نہ ہوسکی۔ اچھا بتاؤ تم ہی میری کونسی باتیں پسند ہیں۔“
    ”تم مجھے پوری کی پوری پسند ہو۔“
    ”میری کوئی حرکت جو بہت اچھی لگتی ہو۔“
    ”میں نے اس پر ابھی تک غور ہی نہیں کیا۔“
    ”کب کرو گے۔“
    ”شادی کے بعد۔“
    ”اور اگر میں نے شادی نہ کی تو۔“
    ”تو پارٹنرشپ کے بعد غور کروں گا۔“
    ”سوال یہ ہے کہ تم مجھ سے ایسی باتیں کیوں نہیں کرتے جیسی میں کرتی ہوں۔“
    ”باتوں سے کیا فائدہ؟“
    ”پھر وہی فائدہ...فائدہ...بنئے پن سے مجھے سخت نفرت ہے۔“
    ”اچھا اچھا۔ اب احتیاط برتوں گا۔“
    ”ہائے تمہارا یہی انداز تو مار ڈالتا ہے اور فوراً میری بات مان لیتے ہو... کتنے سویٹ ہو۔ یہ بس میں ہی جانتی ہوں۔ تمہاری امی بھی اس حد تک نہ جانتی ہوں گی جتنا میں جان گئی ہوں۔“
    ”پتہ نہیں ۔“
    ”بس تمہاری لاعلمی ہی تھوڑا سا بور کرتی ہے۔ ارے... اوہ... اب تو اندھیرا پھیلنے لگا ہے۔ چلو واپس چلیں۔“
    ”وہ دیکھو شفق کا رنگ کتنا گہرا ہو گیا ہے۔“ لڑکے نے کہا۔
    ”ہاں ہے تو۔“
    ”اوپر سے بتدریج گہرا ہوتے ہوتے پانی کے قریب سیاہی مائل ہوگیا ہے۔“
    ”میں نے واپس چلنے کو کہا تھا۔“
    ”اور وہ اس چٹان پر بحری عقاب اس طرح پر تول رہا ہے... جیسے رات آغازِ مستان کے پرندے کی طرح اپنے پر تولتی ہے۔ چیختی ہے...“
    ”یہیں سے کشتی موڑلو...!“
    ”عقاب اڑ گیا...کتنا خوبصورت چکر کاٹا ہے چٹان گرد...شاید کہیں اور بسیرا لے گا۔“​
     
  5. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    ”میں کہہ رہی ہوں... واپس چلو۔“
    ”یہاں سے ابد تک ہم دونوں...صرف ہم دونوں...“
    ”واپس چلو...!“وہ زور سے چیخی۔
    ”اوہ اچھا...!“لڑکا چونک کر بولا تھا اور موٹر بوٹ موڑی تھی۔ لیکن وہ ساحل کی طرف جانے کی بجائے پچاس گز کے دائرے میں چکر کاٹنے لگی۔
    ”یہ کیا کر رہے ہو۔“لڑکی نے جھلا کر پوچھا۔
    ”مم...میں...کک...کچھ نہیں۔“لڑکا ہکلا کر رہ گیا۔
    ”پھر ساحل کی طرف کیوں نہیں چلتے۔“
    ”کک... کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے۔“
    ”تو ٹھیک کرو۔“
    ”کک... کر تو... رہا ہوں...“ لڑکے کی آواز سے مایوسی اور گھبراہٹ ظاہر ہو رہی تھی۔
    ”تم تو کہہ رہے تھے کہ ایکسپرٹ ہو۔“
    ”وہ تو ہوں...لیکن...مشینری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا...اب کیا ہوگا۔“
    ”اب کیا ہوگا کہ بچّے... کچھ کرو۔“
    ”ارے... تم کیسی باتیں کر رہی ہو... ابھی تو کہہ رہی تھی کہ تمہارے ساتھ مر جانا بھی گوارا کر لوں گی۔“
    ”بکواس مت کرو۔“وہ حلق پھاڑ کر چیخی۔ "اسے ٹھیک کرو۔“
    ”کیسے کروں... میں تو....!“
    ” موٹر بوٹ اسی طرح چکر کاٹے جا رہی تھی۔ اور وہ بوکھلا بوکھلا کر اسٹیرنگ گھمانے کی کوشش کرتا جا رہا تھا۔ لیکن اسٹیئرنگ جام ہو کر رہ گیا تھا... ”اے خدا ہم سچے محبت کرنے والے ہیں۔“ وہ دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بولا۔
    ”اسے ٹھیک کرو۔“ لڑکی پاگلوں کی طرح چیخی۔
    ”میری سمجھ میں نہیں آتا لیکن تم اس طرح کیوں پیش آرہی ہو۔ اگر ہم غرق بھی ہو گئے تو ہماری رُوحیں ابد تک ساتھ رہیں گی۔ کچھ دیر پہلے ہم ایسی ہی تو باتیں کر رہے تھے۔“
    ”چپ رہو خبیث۔ اسے ٹھیک کرو۔“
    ” تمہارا لہجہ صدمہ پہنچا رہا ہے مجھے۔“
    ”تم جہنم میں جاؤ...اسے ٹھیک کرو۔“
    ”دیکھو اس وقت میری شکل بالکل دھوتر مچھلی کی سی نکل آئی ہے۔“
    ”چپ رہو...سور کے بچے...اسے ٹھیک کرو۔“
    ”تم مجھے گالیاں دے رہی ہو...جبکہ...جبکہ...“
    ”ارے خبیث تجھے ہوا کیا ہے۔ اسے ٹھیک کر۔“
    ”مجھ سے تو ٹھیک نہیں ہو گی۔ میں کچھ نہیں جانتا انجن کے بارے میں۔“
    ”کتے سے پلے خدا تجھے غارت کرے اب ہم غرق ہو جائیں گے۔“
    ”ہاں یہ تو ہے۔“ لڑکے نے بڑے رساں لہجے سے کہا۔ "ٹھیک آٹھ بجے ٹائیڈ آتی ہے۔ میں تو مطمئن ہوں کہ دنیا میں تمہاری جدائی سے بچ گیا۔ دونوں کی روحیں ساتھ رہیں گی۔“
    ”کمینے... کتے... ذلیل... سور کے بچے۔ اسے ٹھیک کر۔“
    اور پھر اس پر ”اسے ٹھیک کر“ کا دورہ پڑ گیا تھا۔ چیختے چیختے بے ہوش ہوکر ایک طرف لڑھک گئی۔
    تب اس لڑکے کے ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی اور پھر اس نے لوہے کا وہ ٹکڑا نکال لیا تھا جو اسٹیئرنگ کی گراری میں پھنسا ہوا تھا.....
    اور اب موٹر بوٹ ساحل کی طرف چلی جا رہی تھی۔ اس نے بےہوش لڑکی کو کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ”سور کا بچہ محبوب“ اور پھر زور سے ہنس پڑا۔
    ٭٭٭٭٭​
     
  6. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

    اگر آپ اسے اپنے پاس ڈاکیومنٹ کی شکل میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر جائیں

    میڈیا فائر لنک
     
  7. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

  8. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

  9. یاسر حسنین

    یاسر حسنین یونہی ہمسفر

اس صفحے کو مشتہر کریں