1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

عماد عاشق سائبان

'میری تحریریں' میں موضوعات آغاز کردہ از عماد عاشق, ‏اگست 20, 2017۔

  1. عماد عاشق

    عماد عاشق یونہی ہمسفر

    میں نے اس سےبہت جھگڑا کیا۔ بہت برا بھلا کہا اسے۔ پھر میں نے غصے میں آ کر گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور بیگ اٹھا کر کمرے سے نکل پڑی۔ وہ مجھے روکتا رہا لیکن میں نے اس کی ایک نہ سنی۔ گیراج میں دیکھا تو گاڑی تھی نہ ڈرائیور۔ سوچا پیدل ہی چلتی ہوں، سو سڑک پر آ گئی۔ شادی کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ میں کہیں اکیلی جا رہی تھی، ورنہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا تھا، کسی ان دیکھے سائبان کی طرح، کسی مضبوط ڈھال کی طرح۔ سڑک پار کرتے ہوئے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا کرتا تھا۔ راستہ پتھریلا ہوتا تو جب تک مجھے پار نہ گزار دیتا، خود اذیت میں رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہونے سے مجھے تحفظ کا ایسا احساس ہوتا تھا کہ دنیا کی کوئی مشکل مشکل ہی نہ لگتی تھی۔ لیکن آج میں اکیلی تھی۔ جاڑے کی نرم دھوپ، جا کبھی جسم کو بھینی بھینی حدت دیا کرتی تھی، آج میرے وجود کو بھسم کیے جا رہی تھی۔ میں اپنی منزل کی طرف گامزن تھی کہ مجھے ایک دم احساس ہوا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نے آس پاس دیکھا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ جب اپنی منزل کے قریب پہنچی تو ایک بار پھر محسوس ہوا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ اس بار پیچھے دیکھنے پر بھی کوئی نظر نہ آیا۔ لیکن جب میں نے واپس پلٹ کر ایک دم سے دوبارہ دیکھا تو مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ میرا پیچھا کرنے والا کوئی اور نہیں، میرا اپنا جیون ساتھی تھا۔ مجھے پیچھے مڑتا دیکھ کر وہ پھر سے دیوار کی اوٹ میں ہو گیا لیکن تب تک میں اسے دیکھ چکی تھی۔ شاید وہ بھی مجھے اسے دیکھتا ہوا دیکھ چکا تھا، یا شاید نہیں۔ میں جانتی تھی وہ وہاں کیوں تھا۔ لیکن میری انا نے مجھے واپس جانے نہ دیا اور میں اپنی منزل کی طرف گامزن رہی۔ امی کا گھر سب تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا۔

    منزل پر پہنچ کر بیل پر ہاتھ رکھنے ہی والی تھی کہ کسی انجانی سی قوت نےمیرا ہاتھ جامد و ساکت کردیا۔ میرے ذہن میں آندھیاں چلنے لگیں۔ مجھے وہ پہلا وعدہ یاد آیا جو میں نے اپنے جیون ساتھی کے ساتھ کیا تھا کہ ہمارے درمیان کبھی کتنی ہی تلخی کیوں نہ بڑھ جائے، میں کبھی گھر چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ مجھے اپنے شوہر کا وہ کہنا یاد آیا کہ جب دو محبت کرنے والوں کے درمیان میں دیوار آ جائے تو وہ کچھ بھی سنائی دیتا ہے جو کسی نے کہا بھی نہیں ہوتا۔ بہت سوچ کر میں نے بیل نہ بجانے کا فیصلہ کیا اور الٹے قدم واپس ہو لی۔ میری چال میں سبک رفتاری تھی۔ میں جلد سے جلد 'اپنے' گھر واپس پہنچنا چاہتی تھی۔

    گھر میں داخل ہوئی تو مجھے ہر چیز سے اداسی چھلکتی نظر ائی۔ اپنے کمرے میں گئی تو وہاں وہ موجود نہیں تھا۔ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے سٹڈی میں گئی تو وہ کندھے پر چادر ڈالے باہر لان میں دیکھ رہا تھا۔ میں کمرے میں داخل ہوئی اور اسے آواز دی، "احمد"۔

    اس نے مڑ کر دیکھا تو اسے اپنی شریکِ حیات اپنی آنکھوں سے آنسو برساتی نظر آئی۔میرے منہ سے بے اختیار نکلا:

    "احمد مجھے معاف کردو۔ پلیز مجھے معاف کر دو۔ میں نے تم سے کیا ہوا وعدہ بھلا دیا۔" میں نے اپنی تر آنکھوں سے اس کی آنکھوں میں تیرگی دیکھتے ہوئے کہا۔

    وہ چپ رہا۔ اس کا چپ رہنا میرے اندر اذیت کا طوفان برپا کیے ہوئے تھا۔ آخرکار وہ گویا ہوا،

    "حرا، کہاں چلی گئی تھی؟ اتنی سی بات پر بھی کوئی جدا ہو جاتا ہے؟ جانتی ہو کتنی آوازیں دیں میں نے تمہیں؟"

    میرے پاس اس کے سوالات کا کوئی جواب نہ تھا۔

    پھر وہ خود ہی گویا ہوا، "اب آ گئی ہو تو دہلیز پر کیوں کھڑی ہو؟ آؤ ، میری آغوش میں سمٹ جاؤ۔"

    میں بوجھل قدموں سے اس کی جانب بڑھی اور اس نے کسی حسین نگہبان کی طرح مجھے اپنے دامن میں تھام لیا۔ وہ میرا ماتھا چوم کر میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔

    "احمد، ایک بات پوچھوں؟" میں نے بہت ہمت کر کے کہا۔

    "ہاں، بولو۔"

    "آپ میرے پیچھے پیچھے کیوں آ رہے تھے؟" میں اس سوال کا جواب جانتی تھی، لیکن اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی۔

    "ہاہاہا تو تم نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ " اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

    "ہاں ، دیکھ لیا تھا۔ لیکن وجہ تو بتائیں نا۔"

    "بھئی تم ایسے پہلی بار گھر سے اکیلی نکلی تھی، وہ بھی ایسے وقت میں جب سڑکوں پر بالکل رش نہیں ہوتا۔ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو۔۔۔میری تو دنیا ہی لٹ جاتی۔ اسی لیے گیا تھا تمہارے پیچھے۔"

    اس کے جواب نے مجھے پگھلا کر رکھ دیا۔ وہ سارا غصہ جو اب سے کچھ دیر پہلے مجھ پر طاری تھا ، نہ جانے کب کا ہوا ہو چکا تھا اور اب اس کی جگہ اس محبت نے لے لی تھی، جو نہ جانے کب سے میرے دل میں اس کے لیے موجود تھی ۔ میں اس کا جواب سن کر نہ جانے کب تک اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی اور وہ چپ چاپ میرے بال سہلاتا رہا۔


    اپنی ہی تحریر پر احقر کا تبصرہ : بندہ پچھے اینا وی کی تھلے لگنا۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں