1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

دین، عالم اور دلیل ۔ اقتباس از مُصحَف

'نثر' میں موضوعات آغاز کردہ از تجمل حسین, ‏جولائی 12, 2016۔

  1. اقتباس​
    نام ناول: مُصحَف
    نام مصنف: نمرہ احمد

    ڈاکٹر سرور لیکچر شروع کرچکے تھے۔ پورا ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔ دور دور تک پنک اسکارف میں ڈھکے سر دکھائی دے رہے تھے۔ اسٹیج کے قریب چیئرز پہ اسٹاف موجود تھا۔ فرشتے بھی وہیں ایک کرسی پہ بیٹھی، ڈائری پہ تیز تیز لیکچر نوٹ کررہی تھی۔ اسے نوٹس لیتے دیکھ کر وہ خود بھی چونک کر ڈاکٹر سرور کی طرف متوجہ ہوئی، جو روسٹرم پہ کھڑے تھے۔ سر پہ جناح کیپ، سفید داڑھی، شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس وہ خاصے منجھے ہوئے اسکالر تھے۔ وہ اکثر ان کو ٹی وی پہ دیکھتی رہتی تھی۔
    اپنی سوچوں کو جھٹک کر وہ بغور لیکچر سننے لگی۔

    ”بعض لوگ قرآن پڑھ کر بھٹکتے ہیں، واقعی ایسا ہوتا ہے۔“ وہ اپنے مخصوص انداز میں کہہ رہے تھے۔ ”اس لئے بہتر ہے کہ قرآن کسی اچھے غیر متعصب عالم سے زندگی میں ایک دفعہ ضرور پڑھ لینا چاہئے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کا ”دامن“ پکڑنا ضروری ہے۔ نہیں، بلکہ کسی غیر متعصب تفسیر کو پڑھ کر بھی کسی حد تک قرآن کی سمجھ بوجھ پیدا کی جاسکتی ہے۔ قرآن کو پڑھ کر ہم ہر آیت کے اپنے حالات کے مطابق کئی مطالب نکالیں، وہ مطلب نکالنا غلط نہیں ہے، مگر ظاہر کو باطن سے تشبیہ دینا قطعاً غلط ہے۔ مثلاً بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا جو حکم اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے دیا تھا، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس واقعہ سے ہم یہ سبق تو نکال سکتے ہیں کہ کثرتِ سوال سے حکم مشتبہ ہوجاتے ہیں، مگر اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا کہ وہاں ”گائے“ سے مراد ایک صحابیہ ہیں۔ نعوذ باللہ بعض لوگوں نے واقعتاً یہاں ”گائے“ سے مراد ایک صحابیہ کو لیا ہے۔ ایک اور مثال، سورۃ حجر کی آخری آیات میں ہے کہ اپنے رب کی عباد کرو، یہاں تک کہ تمہارے پاس یقین آجائے۔

    اب یہاں ”یقین“ سے مراد ”موت“ ہے۔ یعنی موت آنے تک عبادت کرتے رہو۔ مگر بعض لوگ یہاں ”یقین“ سے مراد belief لے کر اپنی عبادت کو کافی سمجھ کر بس کردیتے ہیں کہ جی، ہمیں اپنی عبادت پہ یقین آگیا ہے تو سب عبادتیں بس ختم۔“

    ’سورۃ حجر کہاں تھی بھلا؟‘ اس نے آہستہ سے اپنا چھوٹا قرآن کھولا اور صفحے پلٹنے لگی۔ سورۃ حجر ملی تو اس نے اس کی آخری آیات کھولیں۔ آیت وہی تھی، جو وہ کہہ رہے تھے۔ مگر آخری تین الفاظ عربی میں ”حتی یاتی الیقین“ تھے۔ (حتیٰ کہ یقین آجائے)۔
    ”یقین۔۔۔؟“ اس نے “الیقین“ پر انگلی پھیری، پھر الجھ کر ڈاکٹر سرور کو دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔

    ”یہاں پہ یقین سے مراد یقین نہیں بلکہ موت ہے۔ سو اس طرح کے الفاظ کا مَن چاہا مطلب نکالنا انسان کو بھٹکا سکتا ہے۔ اینی کوئسچن؟“ انہوں نے رک کر ایک نگاہ ہال پہ ڈالی۔

    محمل نے ہاتھ فضا میں بلند کیا۔
    ”یس؟“ انہوں نے سر کے اشارے سے اجازت دی۔ وہ ہاتھ میں قرآن پکڑے اپنی نشست سے اُٹھی۔
    ”سر! مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ میرے پاس بغیر ترجمے والا مُصحف ہے۔ اس میں مذکورہ آیت میں واقعتاً ”یقین“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سو اس کا مطلب ”موت“ کیسے ہوا؟ دونوں الفاظ میں خاصا فرق ہے۔“

    ”اس کا مطلب موت ایسے ہے کہ۔۔۔“ وہ ذرا دیر کو رُکے اور بغور اسے دیکھا۔ ”میں نے اس کا مطلب موت نکالا ہے۔“

    ”جی سر! میرا یہی سوال ہے کہ کیسے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟“

    ”دلیل یہ ہے کہ میں نے، یعنی ڈاکٹر سرور مرزا نے اس کا مطلب موت لیا ہے۔ میں اس ملک کا سب سے بڑا اسلامک اسکالر ہوں۔ آپ میرے کریڈنشلز اٹھاکر دیکھیں، میری ڈگریز دیکھیں۔ کیا میری بات بطور ایک ٹھوس دلیل کے کافی نہیں؟“

    ”سر! آپ کی بات یقیناً اہم ہے، مگر قرآن کا بعض اس کے بعض کی تفسیر کرتا ہے، حدیث بھی یہ کرتی ہے۔ کیا قرآن یا حدیث میں کہیں یہ ذکرہے کہ یہاں ”یقین“ سے مراد ”موت“ ہے؟“ وہ بہت شائستگی و لحاظ سے مؤدب سی پوچھ رہی تھی۔

    ڈاکٹر سرور کے چہرے پہ واضح ناگواری اُبھری۔ ”یعنی کہ اگر میں آپ کو اس مطلب کی دلیل نہ دوں تو اسے محض میری بات سمجھ کر آپ جھٹلادیں گی؟ یعنی آپ کو میری بات کے اوپر مزید کوئی دلیل چاہئے؟“

    ”جی!“ اس نے ہولے سے سر ہلادیا۔
    پورے ہال میں ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ لڑکیاں قدرے پریشان ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔

    ”یعنی آپ ایک دینی اسکالر کو چیلنج کررہی ہیں؟“

    ”سر! میں بہت ادب سے صرف دلیل مانگ رہی ہوں“

    ”اگر اس کی دلیل قرآن و حدیث میں نہ ہو، تو کیا آپ ”یقین“ کا مطلب ”موت“ تسلیم کرلیں گی؟“

    ”نہیں سر! کبھی نہیں۔“

    ”ہوں۔“ ڈاکٹر سرور نے گہری سانس لے کر ہال پہ ایک نظر دوڑائی۔ ”کیا کوئی اور بھی ہے جو اپنی عمر سے زیادہ طویل تجربے کے حامل ایک اسکالر کو چیلنج کرے؟ کسی اور کو بھی دلیل چاہئے؟“

    بہت سے سر نفی میں ہل گئے۔ وہ اکیلی کھڑی تھی۔
    ”یعنی تین سو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کو دلیل چاہئے؟ یہی پڑھا رہے ہیں آپ لوگ اس مسجد میں؟ کون ہیں آپ کی کلاس انچارج؟“
    میڈم مصباح کھڑی ہوگئیں۔

    ”کیا آپ اس ناکام کلاس رپورٹ کی ذمہ داری لیتی ہیں؟ ون آؤٹ آف تھری ہنڈرڈ کی؟“

    ”جی سر!“ میڈم مصباح کا سر قدرے جھک گیا۔ ڈاکٹر سرور نے محمل کو دیکھا۔
    ”کیا آپ کو ابھی بھی دلیل چاہئے؟“

    ”جی سر!“

    وہ کچھ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتے رہے، پھر ہلکے سے مسکرائے۔
    ”المدثر، آیت 13۔17 میں یقین کا لفظ موت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ وہاں سے ہم دلیل لیتے ہیں کہ یہاں بھی یقین سے مراد موت ہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مرعوب ہوئے بغیر ادب کے دائرے میں رہ کر مجھ سے دلیل مانگی، اور مجھے افسوس ہے کہ صرف ایک بچی نے یہ جرأت کی، باقی سب خاموش رہیں۔ دو سو ننانوے لڑکیوں میں یقیناً ابھی یہ کمی موجود ہے جو کہ ایک قرآن کلاس کی ناکام کارکردگی کا ثبوت ہے۔ کیا کوئی شخص ڈگریوں کا پلندہ لے کر آپ کے سامنے آئے، خود کو سب سے بڑا مذہبی اسکالر بتائے تو آپ اس کی بات کو بطور دلیل مان لیں گے؟ کیا آپ کو پہلے دن ہی نہیں بتایا گیا تھا کہ دلیل صرف قرآن یا حدیث ہوتی ہے؟ کسی عالم کی بات دلیل نہیں ہوتی، پھر؟“

    بہت سے گلابی اسکارف میں لپٹے سر جھک گئے۔ محمل سرخرو سی اپنی نشست پہ بیٹھی تھی۔ ڈاکٹر سرور اور بھی بہت کچھ کہہ رہے تھے، مگر وہ سورۃ المدثر کھول کر اس آیت کو کاؤنٹر چیک کررہی تھی۔

    ( سورۃ المدثر کی 13۔17 تک کا ترجمہ ڈاکٹر سرور کی تصدیق کررہا تھا)
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زبیر

    زبیر منتظم Staff Member

    زبردست۔۔
    بہت اچھی شئیرنگ ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اقتباس پورا پڑھنے کے بعد کسی ادھورے پن کا احساس نہیں ہوتا ایک کہانی مکمل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
     
    تجمل حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عماد عاشق

    عماد عاشق یونہی ہمسفر

    کمال جناب۔ بہت اعلیٰ ۔ زبردست۔ آپ نے تو جیسے میرے منہ کی بات چھین لی۔ بہت روز سے اس موضوع پر قلم اٹھانا چاہ رہا تھا لیکن وقت کی کمی کے باعث ایسا نہ کرسکا اور آپ سبقت لے گئے ۔ ماشاءاللہ جناب ۔
    میں کلی طور پر اتفاق کرتا ہوں کہ دلیل ہی ہے جو انسانی نسل میں علم و فن کی بڑھوتری کا کام کرتی ہے۔ تمام بحث کی بنیاد اگر دلیل و منطق نہیں تو بحث کرنے کا کوئی منطقی مقصد نہیں۔
     
    تجمل حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. پسندیدگی کا شکریہ زبیر بھیا! درست کہا آپ نے واقعی یہ ایک مکمل کہانی ہی محسوس ہوتی ہے۔ اقتباس لیتے وقت مجھے تھوڑی سی پریشانی تھی کہ کہیں تشنگی محسوس نہ ہو لیکن بعد میں جب صرف اقتباس پڑھا تو مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوا۔ یہ نمرہ احمد کے ناول کی خصوصیت ہے۔ :)
    خوشی ہوئی کہ آپ کو اقتباس پسند آیا۔ نمرہ احمد کا قلم ماشاءاللہ نہایت روانی سے چلتا ہے اور قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ خاص طور پر ناول مُصحَف تو مجھے پسند آیا ہے اب تیسری بار پڑھ رہا ہوں لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آتی ہے۔ ہر بار قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا شوق بڑھتا ہے۔ اللہ کے رنگ میں رنگنے کا شوق بڑھتا ہے۔
    پہلی بار جب ناول پڑھا تھا تو میں بہت حیران ہوا تھا کہ ایک عالم دین ہو کر دلیل طلب کرنے والے کے ساتھ کس سخت انداز میں بات کررہا ہے لیکن جیسے ہی آخر پر پہنچا بے اختیار چہرے پر مسکراہٹ آگئی کہ یہ تو ”محمل اور اس کی ساتھی طالبات“ کا امتحان تھا جس میں صرف وہی اکیلی ہی پاس ہوئی۔ :)
     
    عماد عاشق نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں