1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

"دو بھیسا" (عبدالباسط ذوالفقار)

'اردو کالم' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالباسطذوالفقار, ‏اکتوبر 11, 2017۔

  1. عبدالباسطذوالفقار

    عبدالباسطذوالفقار یونہی ہمسفر

    *دو بھیسا....!*

    (عبدالباسط ذوالفقار)

    امریکی صدر کے اعلانات کے ساتھ ہی امریکا کی خود غرضی و مفاد پرستی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ منافقت چوں کہ امریکا کا وطیرہ ہے اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ محب وطن دانشور حکمرانوں کو اس طرف توجہ دلاتے رہے ہیں کہ امریکا آج تک کسی بھی دوست کے ساتھ مخلص نہیں رہا، یہ منافق ہے، دوغلہ پن اس کی بنیادوں میں شامل ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کی بعض پالیساں نہ بدل سکیں اور وہ امریکا کو دوست ہی خیال کرتے رہے کہ یہ ہمارے تعاون کا، ہماری بے لوث خدمت کا ضرور صلہ دے گا۔ اگرچہ پاکستان کو کچھ نہ دے سکا سوائے دہشگردی کے ناسور کے...

    امریکا کے لیے پاکستان میں ہر سطح پر ناپسندیدگی موجود ہے جس کا اظہار مختلف مواقع پر سامنے آچکا ہے۔ امریکا کے الزامات نے قوم کو متحد کر دیا۔ خیبر سے کراچی تک جو یکجہتی نظر آئی قابل داد ہے۔ پورا ملک امریکا مخالف نعروں سے گونج اٹھا۔ جو مظاہرے یا احتجاج ہوئے ان سے امریکا کے خلاف حد درجہ نفرت جھلک رہی تھی۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمرانوں سے اس بات کا مطالبہ کیا جائے پالیساں تبدیل کریں۔ امریکا سے راستے جدا کریں۔ جس آگ میں اس نے ہمیں جھونکا ہوا ہے اس سے نکل آئیں۔

    دوسری جانب قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کا کہنا تھا کہ امریکا کو "ڈومور" کے جواب میں "نومور" کہنے کا وقت آگیا ہے۔ اس کے علاؤہ دیگر سیاسی و مذہبی قائدین کی طرف سے جو اعلانات سامنے آئے وہ بھی قابل تحسین ہیں۔ سپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ "امریکا نے قربانیوں کا اعتراف نہ کر کے سوچنے پر مجبور کیا۔'' دیر آید درست آید کہ امریکا کے متعلق ہمارے حکمرانوں کو سوچنے کا موقع تو نصیب ہوا۔

    خوش قسمتی ہے کہ امریکا نے بروقت اپنی منافقت ظاہر کر دی اور بزبان خود اقرار کر لیا، وگرنہ تو امریکا کا وطیرہ یہ ہے کہ دوست حکمران کو مفادات کے لیے استعمال کیا، مفادات پورے ہوئے تو منہ موڑ دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا نے آج تک حکمران دوستوں کے ساتھ دوستی تب تک رکھی جب تک اسے لگتا ہے کہ یہ لوگ کام کے ہیں۔ امریکا پراجیکٹ ٹو پراجیکٹ پر ایمان رکھتا ہے۔ یاد رہے امریکی اپنی خارجہ پالیسی کو "ڈسپوزل ڈپلومیسی" کہتے ہیں اور ان کا فلسفہ یہ ہے کہ "خریدو٬ استعمال کرو٬ پھینک دو"

    وہ لوگ بلیڈ کند ہونے سے پہلے بیوی بدل دیتے ہیں دوستوں کو ٹشو پیپر سے زیادہ کی اہمیت کیوں دیں گے؟ مگر امریکا کے حکمران دوست سمجھتے ہیں کہ امریکا ان سے کام لے رہا ہے، ان کا دوست ہے آخر میں صلہ دے گا۔ مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔ "اناساس تاسیوسو" امریکی ایجنٹ امریکی ایماء پر نکاراگوا میں کیمونزم کے خلاف کھڑا ہوا، امریکی جنگ لڑتا رہا۔ 1979ء میں جب اس کے لیے حالات مشکل ہوگئے تو وہ ملک سے بھاگ کھڑا ہوا۔ ملک سے باہر قدم رکھتے ہی امریکہ کی آنکھیں پھر گئیں۔ وہ امریکا آنا چاہتا تھا مگر امریکہ نے اجازت نہ دی۔ وہ جنگلوں، غاروں میں چھپ کر رہنے لگا۔ 1980ء میں وفات پائی تو چند دوستوں کے سوا اس کے پاس کوئی نہ تھا آج لوگ اس کا نام تک نہیں جانتے۔

    چلی کے آمر "جنرل اگارتے اگستو پنوشے" نے امریکی مدد سے جنرل ایلنڈو کی حکومت پر شب خون مارا، اقتدار میں آتے ہی عوام کے خلاف آپریشن شروع کر دیا، 17برس اقتدار کی مسند پر قابض رہا، اس دوران ہزاروں شہریوں کو امریکی حکم پر قتل کیا، امریکا کی ناپسندیدہ تنظیموں پر پابندی لگائی۔ 1990ء میں عوام اس کے خلاف اٹھے تو وہ لندن بھاگ گیا۔ لندن پولیس نے گرفتار کیا ۔ امریکہ کی لاکھ منتوں کے باوجود اس نے نہ کوئی سفارش کی نہ ہی مدد کے لیے آگے بڑھا۔ بالآخر 2003ء میں ہارٹ اٹیک موت کا سبب بنا۔

    اسی طرح انگولا کا بانی سردار "جوناس سیومتی" انگولا میں امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہا، جب کمزور ہوا تو اس کی پشت پر سے امریکی ہاتھ آٹھ گیا۔ "جنرل نوریگا" پانامہ میں امریکی تھپکی سے آن کا آلہ کار بنا لڑتا رہا، جب تسلی نہ ہوئی تو امریکہ نے پانامہ پر حملہ کر دیا۔ جنرل نوریگا گرفتار ہوا۔ امریکی خواہش پر اسے 40سال قید با مشقت کی سزا صلہ کے طور پر ملی۔

    "فرڈیننڈ مارکوس" 22برس تک فلپائن میں لڑتا رہا۔ آخر 1986ء میں امریکہ نے ہی اس کی حکومت ختم کر دی۔ امریکا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ آج تک اس کی پالیسی نہیں بدلی وہ اپنے اولین فلسفہ قائم ہے۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ مغرب ڈوبنے کا مقام ہے، جو بھی مغرب کی پیروی کرے گا وہ ڈوب جائے گا۔ امریکی وفاداری کھل کر سامنے آچکی ہے اب ضروری ہے کہ حکمران اچھے اور برے دوستوں کا تعین کر لیں۔

    #عبدالباسط ذوالفقار
     
    سیدعلی رضوی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں