1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

حادثات کے بعد ہماری اولین ذمہ داری کیا ہونی چاہیے؟

'طب و صحت' میں موضوعات آغاز کردہ از حامدسلطان, ‏نومبر 14, 2016۔

  1. حامدسلطان

    حامدسلطان یونہی ہمسفر

    سردی کا موسم شروع ہوتے ہی دھند چھا جانے کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دو، تین روز میں ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد حادثات کی خبریں آچکی ہیں۔ موجودہ صورت حال یا کسی بھی حادثے میں سب سے اہم کام متاثرہ افراد کی مدد اور زندگی بچانا ہوتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کسی کے سامنے کوئی حادثہ ہوجائے تو ہمیں فوری طور پر مدد کیسے کرنی ہے؟ یہ بات یاد رکھیں کہ کسی کی مدد کرنا انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور بطور مسلمان یہ ہمارا فرض بنتا ہے۔ کیوں کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے کسی ایک جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اسی طرح حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآل وسلم میں ارشاد ہے کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ کی مدد بھی اس کے شامل حال رہتی ہے۔

    حادثات، بم دھماکوں، قدرتی آفات میں متاثرہ لوگوں کو بچانے کے لئے نظم و ضبط کو برقرار رکھنا اولین کام ہے۔ بھگدڑ مچ جانے سے نقصان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اپنی اور دوسروں کی حفاظت کا سب سے پہلے اہتمام کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدد کے چکر میں آپ ایسے غافل ہوجائیں کہ خود کسی مصیبت کا شکار ہوجائیں۔ مثلاً پیچھے سے آنے والی کسی گاڑی کی زد میں آجانا۔ حادثے کی صورت میں آپ ان نکات پر توجہ کرکے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

    حادثے کی جگہ پر موجود افراد میں زیادہ تر تماشا دیکھنے والے ہوتے ہیں ان لوگوں میں فوراً کام تقسیم کریں۔
    سب سے پہلے پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کو ٹکرانے سے بچانے کے لئے کوئی سگنل دیں یا کسی کو کھڑا کردیں جو باقی لوگوں کو خبردار کر سکے۔
    کوشش کریں کہ ٹریفک جام نہ ہو۔ اگر گاڑیوں کے نکلنے کے لئے کوئی راستہ نہیں بن سکتا ہے تو اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہجوم اور تماشائیوں کے باعث امدادی ٹیموں کو وہاں تک پہنچنے اور کام میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑنا ہے، حادثے کی جگہ ہجوم نہ ہونے دیں۔
    فوری مدد کیلئے آپ کے موبائل میں ریسکیو کرنے والے اداروں، فائر بریگیڈ اور مختلف ایمبولینس سروسز والوں کے نمبر محفوظ ہونے چاہیے تاکہ بروقت مدد کے لئے سب سے پہلے ان سے رابطہ کیا جاسکے۔ اسی طرح سرکاری اسپتالوں اور میڈیا کو اطلاع دیں۔ میڈیا میں خبر نشر ہونے سے فوری طور پر اسپتالوں میں ایمرجنسی انتظامات شروع اور مدد کرنے والے افراد جائے حادثہ پر پہنچ جائیں گے۔
    اگر کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں کسی سے رابطہ نہیں ہو رہا تو عالمی اصولوں کے مطابق اورنج رنگ کا دھواں، زمین پر SOS لکھنا یا کراس x کا نشان بھی مدد طلب کرنے کے سگنل کے طور پر رائج ہے۔ ان میں سے کوئی ایسی کوشش کریں کہ لوگوں کی توجہ آپ کی جانب ہوجائے۔
    رات کا وقت ہے تو ٹارچ کو بار بار بند کرنے اور کھولنے سے بھی اشارہ دیا جاسکتا ہے۔ آج کل جدید موبائل فونز میں فلیش لائٹ کے
    کا آپشن ہوتا ہے۔SOS اندر​
    جب تک مدد نہ آجائے موقع پر موجود افراد زخمیوں کی جان بچانے کے لئے اقدامات کریں۔ کسی کی موت واقع ہونے کے اسباب میں سے آکسیجن جسم میں نہ پہنچنا، خون کا بہہ جانا یا شدید درد شامل ہے۔ زخمی کے پاس جا کر اس کی حالت کا اندازہ لگائیں۔ اگر زخمی بے ہوش ہے تو یہ معلوم کریں کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہوگیا ہے۔ چہرے کے قریب ہو کر اس کا تنفس چیک کریں۔ گلے میں نرخرے کے دائیں جانب جبڑے کے نیچے تین انگلیاں رکھ کر نبض چیک کریں۔ ہاتھ یا پاﺅں کی نسبت یہاں نبض کی دھڑکن باآسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔ اگر متاثرہ شخص زندگی کی بازی ہار چکا ہے تو اس کے منہ کو کپڑے سے ڈھک دیں اور زندہ بچ جانے والوں کی جانب توجہ دیں۔
    اگر زخمی مریض ہوش میں نہیں ہے تو اسے ہوش میں لائیں اگر اس کے منہ میں کوئی ایسی چیز ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہو تو وہ نکال دیں۔ اگر زبان کٹ گئی ہے تو اسے منہ سے نکال دیں۔ مریض کو ایسے لٹائیں کہ وہ دوبارہ گر نہ جائے۔ بے ہوش مریض کو ہوش میں لانے کے لیے سی پی آر کریں۔ آسان زبان میں اپنے منہ کو مریض کے منہ کے ساتھ لگائیں اپنا سانس مریض کے پھیپھڑوں میں بھریں اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر نیچے رکھ کر ہتھیلی کے دباﺅ سے سینے کو تیز تیز دبائیں۔ یہ عمل تقریباً ایک منٹ میں 100 بار کی رفتار سے ہو۔ زور سے دبائیں لیکن خیال رہے کہ ایسے میں آپ زخمی کی پسلیاں نہ توڑ دیں۔ منہ کے ذریعے سانس بھرنے اور سینے کو دبانے کا عمل بار بار دہرائیں۔ حتیٰ کہ مریض کا سانس بحال ہوجائے۔
    ہر گاڑی رکھنے والے فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ فرسٹ ایڈ باکس اپنے پاس ضرور رکھے، جو ہر وقت گاڑی میں موجود ہو۔ فرسٹ ایڈباکس کی موجودگی اس کے لئے اور دوسروں کے لئے فائدہ مند ہوگی۔
    فوری طور پر کسی کپڑے وغیرہ کی پٹی باندھ کر خون کو بہنے سے بچائیں۔ زخمی کے لئے اگر ممکن ہے تو اسے اس طرح بٹھائیں یا لٹادیں کہ اس کا متاثرہ حصہ دل کی سطح سے اوپر اٹھا ہوا ہو۔ یوں خون کے بہاﺅ کا لیول سطح اونچی ہوجانے کی وجہ سے کم ہوجائے گا۔
    اگر زخم بڑا ہے اور کوئی چیز باندھنے کے لئے نہیں تو ڈوری، رسی وغیرہ لے کر زخم سے پیچھے کا حصہ سختی سے باندھ دیں۔ ایسا بازو یا ٹانگ وغیرہ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ یوں خون رک جائے گا مگر 40، 50 منٹ سے زیادہ یوں باندھے رکھنا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ زیادہ دیر ایسے رکھنے سے وہ حصہ کاٹنے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ ایسی صورت میں کوشش کریں کہ اگر اسپتال پہنچنے میں زیادہ دیر ہے تو تھوڑی دیر کے لئے زخم کی رسی ہلکی سی کھول دیں۔
    ٹوٹی ہوئی ہڈی کو کوئی سیدھی چیز مثلاً لکڑی، کوئی راڈ وغیرہ رکھ کر باندھ دیں۔ ایسا کرنے سے اس کی ہڈی ایمبولینس میں منتقل کرنے کے دوران محفوظ رہے گی اور جڑنے کے قابل رہے گی۔
    نقاہت کو دور کرنے کے لئے مریض کو پانی میں نمک ملا کر پلائیں یا ممکن ہو تو کسی ترش پھل کا رس اس کے منہ میں ٹپکا دیں۔ یہ عمل اس کے خون کی کمی فوراً پوری کردے گا۔ اگر ڈرپ لگانے کا تجربہ رکھنے والا کوئی موجود ہے یا کسی گاڑی یا ایمبولینس میں ڈرپ موجود ہے تو اسپتال روانہ کرنے سے قبل مریض کو Ringer’s Solution لگا دیں۔ یاد رہے یہ کام صرف اس انتظار کے دورانیے میں کرنے کے ہیں جب تک ایمبولینس یا کوئی گاڑی زخمی کو لے کر اسپتال روانہ نہ ہوجائے۔ وہاں ابتدائی طبی امداد دی جاسکتی ہے۔ زخمی کا علاج اسپتال میں ہی ممکن ہے۔
    مریض کو ڈاکٹر یا اسپتال تک منتقل کرنا اہم کام ہے۔ بڑے حادثے کی صورت میں جہاں زیادہ زخمی ہوئے ہیں کوشش کریں پہلے ان مریضوں کو منتقل کریں جن کی زندگی خطرے میں ہے۔ کوشش کریں زخمی کو اسٹریچر پر لٹانے میں احتیاط کی جائے اکثر زخمی ایمبولینس میں ڈالتے وقت یا اتارتے وقت کوئی خطرناک چوٹ لگنے سے فوت ہوجاتے ہیں۔
    اگر زخمی اکیلا ہے تو اسپتال پہنچانے کے بعد اس کے اہل خانہ کا نمبر کسی طرح حاصل کرکے اس پر اطلاع کردیں کہ زخمی کو فلاں جگہ منتقل کیا ہے۔
    دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو اپنی عوام کو ان کاموں کی تربیت دیتے ہیں۔ شہریوں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر ایسی تربیت حاصل کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے حادثات کی صورت میں بھی فوری مدد ملنے کے باعث نقصانات کی شرح کم ہو جاتی ہے۔

    ماخذ :- روزنامہ ایکسپریس
     
    عمراعظم اور زبیر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عمراعظم

    عمراعظم یونہی ایڈیٹر Staff Member

    گراں قدر معلومات فراہم کرنے کا شکریہ جناب @حامدسلطان صاحب۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سلطان حسین

    سلطان حسین یونہی ہمسفر

    چھوٹی سی بات
    سلطان حسین

    وہ تاریخ چھوڑ گئے ہم ''تاریک'' چھوڑ رہے ہیں

    وہ ایک بااختیار بادشاہ تھاملک کے پورے خزانے پر اس کا اختیار تھا لیکن اس کے باوجود خزانے سے وہ ایک پیسہ نہیں لے رہا تھا اس کے گھر کی گزر اوقات مال غنیمت پر ہوتی یا اپنے کسی کام کی اجرت پر ہوتی گھر میں تنگی ترشی رہتی جس کی وجہ سے ان کی بیوی کو ہر وقت تنگی کی شکایت رہتی ایک دن اس نے اپنے شوہر سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ''مصر اور شام کا علاقہ آپ کے زیرنگین ہے اور گھر کا یہ عالم ہے کہ اس میں آسودگی کا نام و نشان تک نہیں''بادشادہ نے اپنی ملکہ کی بات تحمل سے سنی جب ملکہ کی بات ختم ہوئی توجواب دیا ''بیگم خزانہ رعایاکا ہے اور مجھے اس کی چوکیداری پر متعین کیا گیا ہے میں اس خزانے کا مالک نہیں اس کا نگراںاور محافظ ہوںکیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہاری خوشی اور گھر کی آسودگی کے لیے خیانت اور بدیانتی کرکے اپنے لیے جہنم میں ٹھکانہ بنالوں؟''بادشادہ کی بیوی کو اپنے شوہر کے اس جواب سے بڑی شرمندگی ہوئی اور وہ دیر تک ندامت سے آنسو بہاتی رہی ۔اس بادشادہ کی یہ بات اور ان کے اس کردار کو تاریخ نے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلیا آج بھی جب دنیا تاریخ دیکھتی ہے تو ان کے اس کردار کو خراج تحسین پیش کرتی ہے یہ بادشاہ کون تھا آپ اگر تھوڑا ذہن پر زور دیں توآپ کوان کا نام آپ کے ذہن میں آجائے گا یاد آیا نہیں توچلیں ہم آپ کا زیادہ امتحان نہیں لیتے بتائے دیتے ہیں یہ بادشادہ نورالدین زنگی تھاوہ فروری 1118 میں پیدا ہوئے 1146 میں اپنے بادشاہ باپ عماد الدین زنگی کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے ان کا مکمل نام المالک العادل نور الدین ابو القاسم محمود ابن عماد الدین زنگی تھا اس نے 15مئی 1174 تک 28 سال مصرو شام پربلاشرکت غیرے حکومت کی حشاشین نے اسے زہر دیاجس سے ان کے گلے میں سوزش پیدا ہو گئی جو ان کی موت کا باعث بنی انتقال کے وقت ان کی عمر 58سال تھی اس بادشاہ نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیافتوحات اور کارناموں کے علاوہ ان کے رفاہ عامہ اور فلاحی کام بھی بہت زیادہ ہیںنور الدین صرف ایک فاتح نہیں بلکہ ایک شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھا۔ اس نے سلطنت میں مدرسوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیاتھا۔ ان کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھے انہوں نے بیت المال کا روپیہ کبھی اپنی ذات پر خرچ نہیںکیا۔ مال غنیمت سے اس نے چند دکانیں خرید لیں تھیں جن کے کرائے سے وہ اپنا خرچ پورا کرتا تھا۔ اس بادشاہ نے اپنے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کئے بلکہ بیت المال کا پیسہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کیا۔ دمشق میں اس نے ایک شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیا میں مثال نہ تھی اس میں مریضوں کو دوا بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے کا رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔ نور الدین نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردئیے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتا اور اس کی تفتیش کرتا تھاان کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ: میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا۔وہ ایک وسیع خطے کے حکمران تھے اس قدر وسیع سلطنت کے خزانے میںزر وجوہرات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے اتنے بڑے ملک پر ایک بادشاہ حکمران ہو تو اس کااپنا ایک جاو جلال ہوتاہے ایسے ملک کے باشادہ سے کوئی یہ پوچھنے کی بھی جرات نہیںکرسکتا ہے کہ وہ خزانے کواپنے مصرف میں نہیں لاسکتا۔وہ خیانت اور بدیانتی سے ڈرتا تھا اور بادشادہ ہونے کے باوجود ان کی قناحت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی گزر اوقات کے لیے خود اپنے ہاتھ سے کام کرکے پیسے کماتا تھا خزانے سے کوئی وظیفہ نہیں لیتا تھا حالانکہ اسے یہ حق حاصل تھا اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ان مثالوں کو جب ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنا دامن تہی دست نظر آتا ہے جو کردار ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا ہے اور ان کا جو کردار رہا ہے ہم میں اس کا ذرا بھر بھی نظر نہیں آرہا ہمارے اسلاف کے چھوڑے ہوئے کردار اور ان کی مثالوں پر ہم نہیں بلکہ اس پر آج کے زمانے میں مغرب عمل کر رہا ہے ہم اگر اسلامی دنیا کی بجائے صرف اپنے ملک پر ہی ایک نظر ڈالیں تو1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ان ستر سالوں میں کسی ایک بھی حکمران کی مثال ہم نہیں دے سکتے نہ ہی کسی حکمران کے کردار کو مثالی قرار دے سکتے ہیں سواء قائداعظم کے ۔مسلمانوںکے لیے اسلام کے نام پر قائم اس ملک میں ہمارے حکمرانوں نے اسلام کے کسی ایک بھی اصول پر عمل نہیں کیا جو بھی آیا اس نے جائز و ناجائز ہر طریقے سے صرف اپنے اقتدار کو دوام دیا' اپنے اثاثے بنائے اور اپنے مفادات کا خیال کیا کسی نے اسلام کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا کسی نے قوم پرستی کا پروپیگنڈا کرکے اپنا الو سیدھا کیا کوئی سوشلزم کی آڑ لے کے آگے بڑھا کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا فریب دے کر اپنا مطلب نکالاغرض جو بھی آیا کسی نے جاگیر میں اضافہ کیا کسی نے کارخانوں کی چین بناڈالی کوئی بیرون ملک فلیٹ خریدنے میں لگارہا کسی نے سرئے محل اپنے نام کرلیے 'کسی نے آف شور کمپنیاں بنا ڈالیں اور کوئی پانامہ لیکس کا شکار ہوگیاکوئی ملائیشیا میں ہوٹل بنا رہا ہے کسی نے دبئی میں ٹاور بنا لیے کوئی بنگلہ دیش میں فیکٹریاں بنا رہا ہے 'کسی نے بھارت میں کارخانے کھول لیے جو باقی رہ گئے انہوں نے سوئس بینکوں کو بھرنا شروع کر دیادعوے سب ملک و قوم کی خدمت کے کرتے ہیں لیکن وہ صرف اپنی ہی خدمت کرتے ہیںوہ ہم پر اقتدار کے لیے پیدا ہوئے ہیں ہم ان کی غلامی کے لیے (اور شاہد وولٹیئر نے ہماری جیسی قوم کے لیے ہی یہ کہا ہے کہ ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہے جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں )ہم شاہد وولٹیئرکے انہی بے وقوفوں میں شامل ہیںاسی لیے ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کے جلسوں اور دھرنوں کی رونق بڑھانے کے لیے اور زندہ باداور مردوہ باد میں لگے ہوئے ہیںہر پانچ سال بعد ہم عہد کرتے ہیں کہ کرپٹ حکمرانوں سے اس بار نجات حاصل کریں گے لیکن پھر انہی کرپٹ حکمرانوں کا ساتھ بھی دیتے ہیں انہیں کامیاب کرکے اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور جب وہ ہم پر مسلط ہوتے ہیں پھر فریاد بھی کرنے لگتے ہیںدنیا چاند پر پہنچ گئی اور اب مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے لوگ مریخ پر جانے کے لیے ابھی سے ''بکنگ '' کررہے ہیں جبکہ ہم آج بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور ہمارے حکمران ہمیں2018 تک ان اندھیروں سے نکالنے کی ''خوشخبری'' سنا رہے ہیں جس کو ہمارے حکمران خوشخبری قرار دے رہے ہیں اس پر ہمیں ماتم کرنا چاہیے تھا لیکن ہم پھر بھی خوش ہوررہے ہیں بغلیں بجا رہے ہیں اندھیروں سے نکلنے کی امید پر آس لگائے بیٹھے ہیں ۔کام کرنے والوں نے پوری دنیا کو ایک چھوٹی سی گھڑی میں بند کر دیا لیکن ہم آج بھی صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں 'بیمار ہوجائیں تو علاج کے لیے ترستے ہیں 'ہسپتال جاتے ہیں تو سہولیات کے لیے ترستے ہیں'ہم آج بھی کٹارہ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جہاں رہتے ہیں وہاں گندگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں 'شعور نام کی شے نہیں ہم میں ۔ حکمران تعلیم عام کرنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عملاََ وہ اس کے برعکس اقدامات اٹھاتے ہیں تاکہ لوگوں میں شعور بیدار نہ ہو کیونکہ اگر لوگوں میں شعور بیدار ہوا تو پھر ان کی چودھراہٹ کہاں رہے گی 'ان کے در پر حاضری کون دے گا انہیں عام لوگوں کی تعلیم سے کیا غرض کیونکہ ان کے بچے لندن اور امریکہ میں پڑھتے ہیں عام لوگوں کو تعلیم کے ذریعے شعور دیکر وہ لوگوں کو حقیرسمجھ کر غرور و تکبر کس طرح کریں گے آج ہم جمہوریت کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے اعمال سارے بادشاہوں اور شہنشاہوںوالے ہیں اور انہی بادشاہوں اور شہنشاہوں کے سارے رشتہ دار وزارتوں اور اہم حکومتی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیںانہی کے لیے سارے حکومتی وسائل مختص ہوتے ہیں اسی لیے فاروق قیصر کہتے ہیں ''یہ وطن تمہارا ہے تم ہو سیاستدان اس کے۔جاگیر تمہاری ہے تم ہو پاسباں اس کے۔ اس زمین کے نقشے پہ قبضہ بھی تمہارا ہے ۔جو بینک نے معاف کیا وہ قرضہ بھی تمہارا ہے ۔یہ عوام تو بے بس ہیں تم غلام انہیں سمجھو۔جاگیر عطا کی ہے انگریز نے یہ تم کو ۔اس طرف خوشحالی ہے تم ہو درمیاں اس کے''۔آج اس ملک کی یہ حالت ہے کہ حکمرانوں کی وجہ سے ہمارے سارے سیاستدان کرپٹ اور اس کا ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہے آج اس ملک میں نام نہاد مولوی لڑائیاںکررہے ہیں اور فرقے بنا رہے ہیں ۔جاہل دین سکھا رہے ہیں غیر ملکی جاسوس مسجدوں پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہم بڑی معصومیت سے انہیںاپنا رہبر سمجھ رہے ہیں پوپ اسٹارز تبلیغ کررہے ہیں۔کھلاڑی سیاست کررہے ہیں وکیل پولیس کو پھینٹی لگا رہے ہیں ماڈلز اسمگلنگ کررہی ہیں اور اسمگلرعمرے کررہے ہیں فوج ملک چلا رہی ہے اور حکمران اور سیاستدان کاروبار چلا رہے ہیں اور عوام بے چارے حسرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں ہمارے اسلاف ہمارے لیے اپنے کردار کی تاریخ چھوڑ رہے تھے اور ہمارے حکمران سیاستدان اور رہنمائی کا دعوی کرنے والوں کے علاوہ نام نہاد مذہبی پیشوا خود تاریخ بنا رہے ہیںبلکہ تاریخ کو تاریک کررہے ہیں وہ جو تاریخ بنا رہے ہیں شاہد ہی آئندہ نسلیں انہیں خراج تحسین پیش کریںبلکہ شنید ہے کہ وہ اس موجودہ نسل کو ہی گالیاں دیںاگر ہم نے ان گالیوں سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔
     
    حامدسلطان اور عمراعظم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عمراعظم

    عمراعظم یونہی ایڈیٹر Staff Member

    السلام و علیکم ! جناب سلطان حسین صاحب۔
    آپ کی تحریر یقینا" بڑی متاثر کُن اور پُر اثر ہے۔اب ہم اپنے اسلاف کے کارناموں کو صرف اپنی بے حسی، بے عملی اور بے شرمی کو چھپانے کے لئے ہی استعمال کرتے ہیں ۔ میں آپ کی تمام باتوں سے کُلی طور پر متفق ہوں ۔ان جذبات اور احساسات کا اظہار صرف اپنے مُلک اور قوم سے والہانہ محبت سے سرشار سوختہ دل ہی کر سکتا ہے۔ اللہ ہم پر اپنا رحم فرمائے۔آمین
    آپ سے درخوست ہے کہ اپنا مکمل تعارف کروائیں نیز یہ بھی کہ اپنی تحریروں سے اس فورم سے آگہی اور شعور کے جہاد میں حصہ لیتے رہیں۔ جزاک اللہ خیر۔
     
    عزیزامین اور حامدسلطان .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں