1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

تحریک کا آغاز۔۔

'مسائل' میں موضوعات آغاز کردہ از عماد عاشق, ‏اپریل 6, 2015۔

  1. صباح

    صباح یونہی ہمسفر

    @رزاق بھائی یہ تو میرے مراسلے کا کمال ہے کہ وہ اب تک
    مختلف زبانیں بدل چکا ہے ورنہ اور کوی مراسلہ ایسا تھری ڈائمشنل ہے:D:p:lf
     
    زبیر، بینا، عمراعظم اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عمراعظم

    عمراعظم یونہی ایڈیٹر Staff Member

    ابتداء میں اب تک کی گفتگو کا احاطہ کرنا چاہوں گا تا کہ میری گذارشات کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
    میرے بھائی @عمادعاشق نے روزمرہ زندگی کے کچھ واقعات سے اتنا اثر لیا کہ انہیں ایک تحریک کی بنیاد رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اُن واقعات میں روزہ کی حالت میں ایک بزرگ کو خواتین کی جانب سے سیٹ دینے سے انکار، ایک لڑکی کا اپنے والد اور بھائیوں سے زدوکوب کرواکر ہسپتال پہنچا دینا۔ ملازمتوں میں خواتین کو ترجیح دینا۔ عماد عاشق صاحب کے ایک جید اُستاد کو ملازمت نہ ملنا۔۔۔۔ تحریک کے اغراض و مقاصد مندرجہ ذیل بیان ہوئے:
    1۔ مردوں کو زیادہ تعداد میں نوکریاں دی جائیں۔
    2۔ شعبہء طب میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ موقع فراہم کئے جائیں۔
    3۔خواتین کو ایسے شعبہ جات میں ملازمت نہ دی جائے جہاں اُن کو نسوانیت داؤ پر لگ جائے۔
    اس کے بعد تبصروں اور تعریف و تنقید کا طوفان اُٹھا۔جس میں کئی مثبت باتیں سامنے آئیں اور کچھ انتہائی نامناسب۔
    --------------------------------------------------------------------
    عماد عاشق بھائی نے اپنی تحریک کی حمایت میں چند ایسی دلیلیں بھی دیں جن پر غور وفکر ضرور کیا جانا چاہیے تھا۔مثلا" اُن کا یہ کہنا کہ ہمارے معاشرے میں مذہبی اور معاشرتی لحاظ سے مرد کواپنے کنبے کا مکلف اور سربراہ بنایا گیا ہے لہذا اُسےاپنی انہی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لئے خواتین سے زیادہ ملازمتوں کی ضرورت رہتی ہے۔
    میں یقینا" اس بات کی حمایت کروں گا۔ البتہ ساتھ ہی یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اُن خواتین کو جو اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ملازمت کی حقدار ٹھہریں انہیں بھی مایوس نہ کیا جائے۔نیز ایسی خواتین کو جو کسی وجہ سے اپنے کنبے کی مکلف بن گئی ہوں اُنہیں ضرور ترجیح دی جائے۔
    یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دنیا میں جتنی بھی قوموں نے ترقی کی اُن میں خواتین کا حصہ تقریبا" مساوی تھا ۔ ایک اور بات جو توجہ کی متقاضی ہے یہ بھی ہے کہ ہم حقوق کے معاملے میں تو مغرب کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں لیکن فرائض کے معاملے میں کبھی مذہب کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کبھی علاقے اور معاشرے کے رسوم و رواج کو نا انصافی کے فروغ کے لئے۔ گویا ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہی بنے رہنا چاہتے ہیں۔
    در حقیقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے ملازمتوں کے مواقعوں میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ وجوہات میں اربابِ اختیار کی بے حسی،سیاست،خود غرضی،جھوٹ ،فریب، لوٹ مار،قانون اور احکاماتِ الٰہی سے رو گردانی شامل ہیں۔ اسی روش کا شاخسانہ ہے کہ کثیر تعداد میں انسان غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایک مخصوص طبقے نے وسائل کو کچھ اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے کہ اُن کے کتوں کی دیکھ بھال پر جتنے اخراجات آتے ہیں اُن سے کئی غریب خاندان با آسانی پل سکتے ہیں۔ایسا اُس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک غریب اُن کے مکرو فریب کا ایندھن بنتا رہے گا۔ غربت اور جہالت ہی ہمارے ملک کے اصل دشمن ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمیں رفتہ رفتہ کاہل اور کام چور بنایا جاتا رہا ہے۔کچھ اللہ کے بندوں کو چھوڑ کر با اختیا ر لوگوں کے بارے میں با آسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے امین وہی ہے جسے خیانت کا موقع نہ ملا ہو۔
    ایسی صورتِ حال میں اصلاح کی ذمہ داری جن لوگوں پر عائد ہوتی ہے اُنہوں نے تو اپنی الگ ہی دنیا بنا لی ہے۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے غالبا" انہی لوگوں کے لئےلکھا تھا "دل میں بغض،پیٹ میں حرام اور طواف پہ طواف۔۔ کعبہ خود چکر میں ہے کہ یہ لوگ کس چکر میں ہیں۔"
    تو کیا دنیا یہاں ختم ہو گئی ہے۔ میرے خیال سے ہمارے مسائل کی کنجی ہمارے اتفاق و اتحاد میں ہے۔ہمیں چاہئے کہ آپس میں دست وگریباں ہونے کی بجائے اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر خواتین ایسی گھریلو صنعتوں میں دلچسپی لیں جہاں وہ اپنے اور اپنی جیسی دوسری بہنوں کے لئے ذرائع معاش مہیا کر سکیں۔ میری گزارش ہے کہ اس نقطہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی تجاویز سے آگاہ فرمائیں کہ کس طرح اس صورتِ حال میں کچھ کر کے ہم اپنی ،اپنے بہن بھائیوں، اپنے معاشرے اور اپنے ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔
    آخر میں کچھ تبصرہ مراسلوں پر:
    ایک صاحب نے خواتین کے تعلیم کے حصول کو غیر ضروری قرار دیا۔۔۔۔۔ عرض ہے کہ رسول اللہﷺ پر پہلی وحی میں ہی علم کے حصول کا حکم،قلم کی اہمیت اور اُن باتوں کو سکھانے کی بات کی گئی تھی جو انسان نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔۔ علم کو زن و مرد،دونوں پر فرض قرار دیا گیا۔ میرے خیال سے تو عورت کا علم حاصل کرنا مرد کے مقابلے میں زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ مر د کو تو اپنے کنبے کا مکلف بنایا گیا ہے جبکہ تعلیم یافتہ عورت ایک باوقار قوم کے وجود کی ضامن ہوتی ہے۔اسی اہمیت کے پیشِ نظر رسول اللہ نے اپنے پاس آئے ہوئے اُن قیدیوں کی آزادی کے لئے یہ شرط رکھی کہ وہ مسلمانوں کو علم سکھائیں۔
    عورتوں کے کام کرنے کے مخالفین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ حضرت خدیجہ ایک تاجر تھیں۔رسول اللہﷺ کو شادی کی پیش کش خود اُنہوں نے کی تھی۔ جنگ خندق میں زخمی ہونے والے مجاہدین کی مرہم پٹی کرنے میں حضرت فاطمہ نے بھی حصہ لیا تھا۔مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیٹیوں تک کا اس حد تک احترام کیا کرتے تھے کہ اُن میں سے کسی کی آمد پر اُٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور اپنے کاندھے سے رومال اُتار کر اُن کے بیٹھنے کے لئےبچھا دیا کرتے تھے۔
    میری بہنوں نے اپنے موقف اور دلائل کے ساتھ مردانہ وار (زنانہ وار کہیں پڑھا نہیں ہے) مقابلہ کیا۔ بینا بہن کا تبصرہ متوازن تھا جبکہ صباح بہن کہیں کہیں جذباتی نظر آئیں لیکن اس بات کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے کہ اُنہوں نے بلآخر @عمادعاشق صا حب سے مکمل اتفاق کا اعلان کیا۔ اس طرح اُنہوں نے وسعتِ قلبی اور وسعتِ نظرکا مظاہرہ کیا۔
    جوگی بھائی،زبیر بھائی،بابا جی اور عبدالرزاق بھائی کے تبصرے بھی خوب تھے۔ خصوصا" عبدالرزاق قادری بھائی کے اُس مضمون نے بہت متاثر کیا جس میں یہ جملہ بڑا با اثر تھا " بچی پیدا بعد میں ہوتی ہے ماتم پہلے شروع ہو جاتا ہے۔"۔
    میری سب سے التجا یہ رہے گی کہ صحت مند تبصرے اور اختلاف ضرور کریں لیکن تلخی اور کدورت کو اپنے درمیان جگہ نہ دیں۔اس بات کو مدِ نظر رکھیں "لوگوں کی مذمت کرنے سے پہلے ہمیں اُنہیں سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ہمیں یہ جاننا چاہیئے کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں ۔کیوں کرتے ہیں۔ یہ بات نکتہ چینی کی بہ نسبت زیادہ مفید اور خوشگوار ہے اور اس سےہمدردی،بُرد باری اور شفقت پیدا ہوتی ہے۔سب کو جاننا سب کو معاف کر دینے کے مترادف ہوتا ہے"
    والسلام۔ طالبِ دعا۔۔ عمراعظم
     
    Last edited: ‏مئی 8, 2015
    نیرنگ خیال، زبیر اور بینا نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عماد عاشق

    عماد عاشق یونہی ہمسفر

    @عمر اعظم بھائی سبحان اللہ۔۔ آپ نے ایک نہایت پیچیدہ مسئلے کو نہایت بردباری، تحمل ، اور سلجھاؤ کے وسیلے سے حل فرمادیا۔ یقیناََ مسائل کا حل افہام و تفہیم اور آپ جیسی فکر کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔
     
    زبیر، بینا اور عمراعظم نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عماد عاشق

    عماد عاشق یونہی ہمسفر

    میں نے اپنی 'تحریک ' کے ابتدائی مراسلے میں شاید اس جانب بھی نشاندہی کی تھی کہ اگر برابر کے حقوق کا مطالبہ ہے تو برابر کے فرائض بھی ادا فرمائے جائیں۔
     
    زبیر، بینا اور عمراعظم نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. عماد عاشق

    عماد عاشق یونہی ہمسفر

    میں @عمر اعظم بھائی کی توجہ ایک اور جانب بھی دلانا چاہوں گا جہاں میر ا مؤقف یہ ہے کہ خواتین کو اُن ملازمتوں سے دور رکھا جائے، جن سے ان کے وجود کو خطرہ ہو، جیسا کہ استقبالیہ ملازمت، اشتہار بازی کی صنعت، وغیرہ ۔
     
    زبیر اور بینا .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. عمراعظم

    عمراعظم یونہی ایڈیٹر Staff Member

    شکریہ عماد عاشق بھائی۔ اللہ اچھی صحت کے ساتھ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔آمین
     
    زبیر، بینا اور عماد عاشق نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. عماد عاشق

    عماد عاشق یونہی ہمسفر

    جزاک اللہ @عمر اعظم
     
    زبیر، عمراعظم اور بینا نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. بینا

    بینا مدیر Staff Member

    عمراعظم بھائی نے بہت خوبصورت بات کی اور ہمیں گفتگو کا بہترین سلیقہ سکھایا ۔
    جزاک اللہ عمر بھائی
     
    عمراعظم اور عماد عاشق .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زبیر

    زبیر منتظم Staff Member

    واقعی عمراعظم بھائی کسی چیز کو دیکھنے کا انداز مختلف لوگوں کابالکل ہی مختلف ہوتا ہے دیکھ کر پرکھنا اور پھر اس پر اس طرح کی گفتگو کرنا ہر ایک کا خاصہ نہیں ہوتا۔۔۔۔وہی الفاظ ہوتے ہیں لیکن لڑی میں کس طرح پرونا ہے ہر کوئی نہیں جانتا۔آج ہمارے بھائی@عماد عاشق کو یہ لڑی شروع کرنے کا پھل مل گیا ہو گا۔
    آپ کی تجویز پر آگے بڑھتے ہیں کہ مسائل کے حل پر بات کرتے ہیں۔ خواتین کن شعبوں میں کام کر سکتی ہیں۔۔۔؟ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ خواتین بہترین ڈیزائنر ہوتی ہیں،ڈیزائن کو کاپی بھی خوب کرتی ہیں میری مرادگاؤں میں کڑھائی وغیرہ کرنے والی خواتین ہیں۔
    اس کو جدت دی جا سکتی ہے۔
    آج کمپیوٹر انٹرنیٹ کے ذریعے اگر انہی ڈیزائنر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گرافکس ڈیزائننگ ویب ڈیزائننگ وغیرہ پر کام کیا جائے تو گھر بیٹھے خواتین ڈالروں کی نہریں گھر کی طرف موڑ سکتی ہیں۔
     
    عمراعظم اور عماد عاشق .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. کامران رفیقی

    کامران رفیقی یونہی ہمسفر

    میں آپکی اس تحریک کی قدر کرتا ھوں اور جو آپکا اس کے پیچھے مقصد ھے اس کی بھی اگر ھم اس کڑی کو پکڑیں جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ھوا تو زیادہ آسانی ھوگی حل کرنے میں! کیونکہ یہ مسئلہ پیدا بھی مردوں کی کمزوری (حرص وھوس )کی وجہ سے ھوا ھے
    اللہ تعالی آپکو اس تحریک میں کامیاب فرمائے مرد و عورت کے عین مقام کے مطابق (آمین)
     
    عماد عاشق اور زبیر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. بینا

    بینا مدیر Staff Member

    تجمل حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. ابھی تک تو صرف اس مراسلے کو ہی پڑھا ہے۔۔۔ تھوڑا وقت نکال کر پڑھتا ہوں۔ :)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں