1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

"بیتے لمحات" (عبدالباسط ذوالفقار)

'گوشہ ءِ ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالباسطذوالفقار, ‏اکتوبر 11, 2017۔

  1. عبدالباسطذوالفقار

    عبدالباسطذوالفقار یونہی ہمسفر

    *"بیتے لمحات"*

    *(عبدالباسط ذوالفقار)*
    8اکتوبر2005 کے تناظر میں لکھی گئی تحریر..

    وہ ایک ایک کا نام پکار کر، کلاس سے باہر نکال کر قطار میں کھڑا کر رہے تھے۔ لمبی قطار میں لڑکے، لڑکیاں سر جھکائے کھڑے تھے۔ جب سب مجرم باہر آکھڑے ہوئے تو سر جمال علوی باہر آئے اور سب کو خوب ڈانٹ پلائی بلکہ کہنا چاہیے خوب لتاڑا۔ سر جھکے ہوئے تھے کچھ مزید جھک گئے، کچھ بچے کھسیانی ہنسی ہنسنے لگے، مگر میں تو شرم سے پانی پانی ہورہا تھا۔
    "ایک نقطے نے محرم سےمجرم بنا دیاتھا"
    آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ بروقت فیس نہیں جمع کرا سکا تھا، مگر سر نے میری ایک نہ سنی اور لاسٹ وارننگ دے کر سکول گیٹ سے باہر کر دیا۔ "سوکھی کے ساتھ گیلی بھی جلتی ہے٬" آج سمجھ میں آیا تھا۔ دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا کہ کانوں میں آواز پڑی"جاؤ اور جا کر ابھی ہی فیس لا کر جمع کرواؤ جس کی فیس بقایا ہو گی قسے امتحانی ہال میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی

    سب طلبہ و طالبات نے اپنی اپنی راہ چل دیے۔ غائب دماغی سے چلتے ہوئے خلاف معمول میں آج سڑک والے راستے کو چھوڑ کر براستہ ندی آگیا تھا اور مجھے خبر تک نہ ہوئی تھی۔ اس راستے سے آنا خود کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی بات تھی۔ چونکہ اس راستے پر کتوں کے چاک و چوبند دستے آنے والے کے استقبال کے لیے ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ اور جب تک آنے والے کو دوڑا دوڑا کر تگنی کا ناچ نہ نچا لیتے، جان بخشی مشکل تھی۔

    میں نے اپنے ناتواں کندھوں پر کتابوں کا بورا بھی اٹھا رکھا رکھا تھا۔ سو سر پر پاؤں رکھ کے بھاگنا محال تھا۔ خیر اب آگیا تھا تو چلتا رہا مگر آگے کا منظر ہی عجیب تھا۔ آج کتے مجھے دوڑانے کی بجائےخود ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ اور میری طرف بھونکنے کی بجائے کسی دوسری ہی سمت دیکھ کے بھونک رہے تھے۔ بہت عجیب لگا کہ وہ کتے جو قصابوں کی دکانوں کی دہلیز پہ بیٹھے نظر آتے تھے آج وہ بھی اس بھاگ دوڑ میں شریک تھے۔ آگے بڑھا تو مختلف پرندوں کی آوازوں میں کوؤں کی کائیں کائیں نمایاں تھی۔

    میں سوچنے لگا کہ یہاں تو صرف چڑیا ، مینا، فاختہ، کوئل، طوطے اور کبوتر کی آوازیں سنائی دیتی تھی۔ کوے تو ان درختوں سے فرار اختیار کر چکے تھے۔ وہ تو گھروں کی منڈیروں اور بالکونیوں پر بیٹھ کر عورتوں کی باتیں سنتےاور چھینا جھپٹی کرتے دکھائی دیتے تھے۔ آج یہاں کیسے....؟ اور وہ درخت جن پر ہر وقت پرندوں کے جھرمٹ رہتے، آج خالی خولی نظر آرہے تھے۔ مجھے یہ سب دیکھ کر کچھ خطرے کا احساس تو ہوا، مگر سر جھٹک کر چلتا رہا۔ جب بازار کے قریب پہنچا تو اچانک کوئی عجیب سی آواز سنائی دی جو اس سے پہلے نہیں سنی تھی۔

    اس وقت میں ایک گلی سے گزر رہا تھا۔ وہاں تین، تین،چار، چار منزلہ مکانات سر اٹھائے کھڑے تھے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے سب کھلونوں کی طرح ہلنے لگے۔ کسی کی گرل اکھڑ کر زمیں پے آرہی تھی تو کسی کی چھت، کسی بلڈنگ کی چادریں اڑ رہی ہیں تو کسی کے دروازے، کھڑکیاں۔ حیرت کی شدت یا کیا تھا کہ میں سُن ایک جگہ کھڑا رہ گیا تھا۔

    وہ لمحے قیامت کے لمحے تھے۔ چند ہی سیکنڈوں میں قیامت کا شور مچ گیا تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کے جو دیکھا تو جو عمارت ابھی چند منٹ پہلے صحیح سلامت تھی، وہاں عمارت تو نہیں البتہ گردوغبار سے چیخ وپکار کی آوازیں آرہی تھیں۔ کہیں کسی بلڈنگ کی اپرلی منزل سے پانی کی طرح خون کی بوندیں ٹپک رہی تھیں تو کہیں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ روڈ پر بڑی بڑی گاڑیاں یوں ہل رہی تھیں جیسے ہوا سے کوئی پردہ ہلتا ہے۔ میری یہ حالت تھی کہ "بدن کاٹو تو لہو نہیں" جسم میں سے سکت ختم کہ اب گرا کہ تب گرا۔ گلا خشک، آنسو بہہ رہے، آواز بند، لب سلے ہوئے، جاؤں تو جاؤں کہاں ؟

    آگے کنواں پیچھے کھائی والی کیفیت تھی۔ قیامت کا سماں تھا۔ زمین تھی کہ تھرتھراہٹ سے تھکتی نہیں تھی۔ سڑک پر سر ہی سر نظر آرہےتھے۔ ہر کوئی اپنی ہی جگہ پے کھڑا چلا رہا تھا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جائے تو جائے کہاں؟اچانک سائرن کی تیز آوازیں فضاؤں میں گونجنے لگتیں۔ گاڑی کوئی گزرتی تو اپنے پیچھے خون کا نشان چھوڑ جاتی۔ حکومتی اداروں نے کام شروع کر دیا تھا۔ لاشوں اور زخمیوں کو طبی امداد کیلئے ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا۔ کچھ لوگ بارخ قبلہ کھڑے اذانیں دے رہے تھے۔ اور کچھ لوگ کھڑے عجیب سے انداز سے اپنے پائنچوں کو جھاڑ رہے تھے۔

    میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ بہت سے سوال تھےجن کے جواب نہیں تھے۔ بے وقت کی اذانیں کیوں دی جارہی ہیں؟ لوگ پائنچے کیوں جھاڑے جا رہے ہیں؟ ہر طرف افراتفری، دھواں، اندھیرا، گردوغبار٬ چیخ و پکار، آہ و بکا کیوں ہے؟ کیاقیامت آگئی؟ کیا ان پرندوں کو خبر ہوگئ تھی...کہ عذاب آنے والا ہے..؟ بہرکیف! میں گرتا پڑتا اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گیا۔ والد محترم کے پاس پہنچا اور بھائی کو دیکھ کے ان سے چپک گیا۔ میرے گلے میں پھنسے کانٹے اور پھانس نکل چکا تھا۔ میں دھاڑیں مار مار کے رونا شروع ہوا۔ کبھی چھوٹی بہنوں کی فکر کھاتی تو کبھی بوڑھی اماں کی یاد آتی۔ کبھی امی جان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا تو کبھی وہ خون میں لتھڑے لوگ نظر آنے لگتے۔

    میں قیامت دیکھ چکا تھا یا اب بھی دیکھ رہا تھا۔ عجب خوف طاری تھا۔مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ میں بھاگنا چاہتا تھا مگر قدم جکڑے ہوئے تھے۔ کسی عمارت کے پاس سے گزرتا تو یوں لگتا یہ ابھی مجھ پر گرتی ہے۔ یہ بجلی کی تاریں ابھی مجھے اچک لیں گی، زمین پھٹے گی اور مجھے نگل لیگی۔ سب کچھ بچا کچا بھی ملیامیٹ ہونے والا ہے۔ اسی وحشت کے عالم میں دو بندے مجھے بازوؤں سے پکڑے گھر لے جارہے تھے۔ راستے میں تین چار خواجہ سرا بیٹھے دیکھے جو آہ وزای میں مشغول تھے۔ کر رہے تھے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ ہیجڑے ہاتھ الٹے کر کے بددعا دیں تو بددعا لگ جاتی ہے۔ اس وقت وہ ہاتھ سیدھے کیئے دعا مانگ رہے تھے۔ آنسوؤں کا ریلہ تھا جو ان کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا۔ میں نے اس دن دیکھا کہ زلزلے نے بلند و بالا عمارتوں، فلک بوس پلازوں کو تباہ کر دیا تھا اور بڑے بڑوں کے غرور کو خاک میں ملا کر آن واحد میں زمین چٹا دی تھی۔

    اللہ اللہ کر کے ہم لوگ گھر پہنچے تو اب باقی ماندہ رشتہ داروں کی فکر ہوئی کہ نجانے وہ کس حال میں ہوں گے؟ ہم سب بخیریت تھے اور کھیتوں میں منتقل ہو چکے تھے۔ ٹیلی فون خراب ہو چکا تھا اس وقت موبائل بہت کم ہی لوگوں کے پاس ہوتا تھا۔ اڑوس پڑوس کی خبریں آتی رہیں اور زلزلے کے جھٹکے بھی یکے بعد دیگرے آتے رہے ۔ شام کو کہیں جا کے ٹیلی فون لائن بحال ہوئی تو عزیز و اقارب کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ کہیں کوئی زخمی تھا تو کوئی اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ کہیں کسی کی لاش ابھی تک ملبے تلے دبی تھی تو کوئی ابھی تک گم تھا اور تلاش جاری تھی۔

    مجموعی اعتبار سے بحمداللہ خیریت رہی تھی۔ کوٹھی بنگلوں والے اور کچے مکانوں والےکھلے میدانوں میں جمع ہوگئے تھے۔ سب پر عقدہ وا ہوگیا تھا کہ کوٹھی بنگلے والا ہو یا پھرکچے جھونپڑے والا سب نے ایک دن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے یوں ہی بارگاہ رب العزت میں جمع ہونا ہے۔

    مساجد اور خیر کے مراکز آباد ہو گئے تھے۔ لوگ آذان کی آواز پے کچھے چلے آتے تھے،
    کچھ دن یہی سلسلہ چلتا رہا، مساجد آباد رہیں، پھر آہستہ آہستہ لوگ دور ہوتے گئے۔ انسان غافل ہے، جوں جوں دن گزرتے گئے دوبارہ ان پر غفلت کے بادل٬ سایہ کرتے رہے اور لوگ غفلت کی چادر اوڑھ کے اللہ تعالیٰ کو بھول بھال کے اسی پرانی ڈگر پر چل پڑے۔ اور دنیاوی آسائش و آرام کی کوششوں میں جت گئے، اب مسجدوں میں پہلے جیسا جم غفیر تو نہیں ہوتا تھا۔ البتہ کچھ لوگ اب باقاعدگی سے آنا شروع ہوگئے تھے۔ زلزلے کے جھٹکے اب بھی آتے رہتے تھے۔ رات کسی پہر، تو دن میں کسی پل، یاد دہانی ضرور کرائی جاتی تھی۔

    مجھے لگتا تھا اب لوگ زلزلے کے جھٹکوں سے مانوس ہو گئے۔ پہلے پہل جب زلزلےکا زرا سا جھٹکا ہوتا تو لوگ بھاگم بھاگ کھلی فضا کا رخ کرتے، مگر اب ایسا نہیں تھا اب ڈر ختم ہو گیا تھا۔ ان ایام میں بھی ہم پنج وقتہ نماز کیلئے دادا جان کی معیت میں مسجد جاتے تھے۔ اور ہمارے ڈر کو ختم کرنے کیلئے دادا جان بار بار شہادت کی موت کو یاد کرتے اور ساتھ یہ بھی بتاتے کہ نماز میں بھی کوئی آسمانی آفت کی وجہ سے مر گیا تو وہ شہید ہوگا اورجنت میں جائے گا۔ یہ اسلئیے بتاتے تھے کہ ہم نماز میں ذرا سی کوئی آواز سنتے تو بھاگ جاتے تھے اور دادا جان غصہ فرماتے کہ نماز کے ساتھ مزاق کرتے ہو، بے ادبی ہوتی ہے وغیرہ۔ سو اب ہم نماز سے کم ازکم نہیں بھاگتے تھے۔ ایک ذہن سا بن گیا تھا کہ اگر نماز میں موت آبھی گئی تو شہید ہوں گے، اللہ تعالیٰ راضی ہوں گے۔

    یوں ہی دن گزرتے گئے۔ ایک دن مغرب یا کہ عشاء کی نماز میں نمازیوں کی دو صفیں تھیں، ہم بھی جماعت میں شریک تھےاور اتفاقاً میں دادا جان کی بغل میں تھا سجدے میں گئے ہی تھے کہ زلزلہ آیا اور اس بار اتنا شدید تھا کہ پہلے دن کی یاد تازہ ہوگئی۔ اب سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کروں تو کیا کروں؟ ڈر سے جان نکلی جارہی تھی۔ بھاگا اگر تو میری نماز میں خلل تو آئے گا ہی دادا جان کی نماز بھی خراب ہوگی اور ڈانٹ الگ پڑے گی۔ سو ڈٹا رہا اور سجدہ اتنا طویل ہو گیا تھا کہ امام صاحب اٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ لوگ متواترکھانس بھی رہے تھے کہ شاید امام صاحب بھول گئے......آخر صبر کا پیمانہ لبریز ہوا٬ سر اٹھا کے دیکھا تو پہلی صف میں کھڑے آٹھ دس بوڑھوں کے علاوہ سب لوگ غائب تھے۔

    زلزلے کا جھٹکا ہوتے ہی سب بھاگ نکلے تھے اور جو لوگ بچے تھے وہ بھی امام صاحب کی وجہ سے کہ امام صاحب نہیں گئے ہم کیوں نماز توڑ کے جائیں؟؟ مگرامام صاحب تو پہلے ہی نکل گئے تھے اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی تھی۔ بہرحال
    دادا جان میرے نہ بھاگنے پہ بہت خوش ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں۔

    "8 اکتوبر 2005 " رمضان المبارک کا مہینہ ایسا عبرت انگیز ثابت ہوا کہ اب بھی کسی وقت یاد آجائے یا کوئی زلزلہ کا نام لے لے تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بے ساختہ دل تشکر آمیز ہو کر،زبان ذکر خداوندی میں مشغول ہو کر خدا کا شکر بجا لاتی ہے کہ "اللہ تعالیٰ نے میری٬ میرے اہل وعیال کی حفاظت فرمائی"،
    تب ہی مجھے زلزلے کا پتا چلا کہ زلزلہ کیا ہوتا ہے؟ یا زلزلے کیوں آتے ہیں۔ اس سے پہلے تو میں سمجھتا تھا کہ کہیں بھینس کے کروٹ بدلنے سے زمین ہلتی ہے اور زلزلے آتے ہیں۔

    جبکہ یہ تو اللہ پاک کی طرف سے اشارے ہیں۔ جنہیں ہم اشرف المخلوقات تو نہیں سمجھتے، مگر بے زبان چرند پرند سمجھ جاتے ہیں۔ اللہ پاک اپنے اشارے سمجھنے کی توفیق کے ساتھ مصائب و آلام سے حفاظت فرمائیں۔ آمین!*

    اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں