1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

اخلاق کا انعام ۔۔مجیداحمد جائی

'بچوں کی دنیا' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیداحمد جائی(کڑوے بادام), ‏اکتوبر 10, 2017۔

  1. ’’ اخلاق کا انعام‘‘
    تحریر۔۔مجیداحمد جائی(ملتان شریف)
    مجیدا ور سعید گہرے دوست تھے۔دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔دونوں گاؤں کے اسکول میں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ کلاس فیلو بھی تھے مگر دونوں کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔مجیدبااخلاق ،منسار ،ہنس مکھ اوردھیمے دھیمے لہجے میں گفتگو کرتا تھا۔جبکہ سعید اُتنا ہی بد اخلاق،بد مزاج تھا ،لڑائی ،جھگڑاکرنا اُس کا معمول کے کاموں میں تھے۔سعید کہتا تھا میرے پاپا کہتے ہیں کسی سے دب کر نہ رہو،کوئی ایک کہے تم دو سناؤ،اپنا رعب جھاڑتے رہو ،اس طرح تمھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔سبھی تم سے ڈرتے پھرے گے۔
    مجید کہتا تھا میرے والدین نے مجھے خوش اخلاقی کی تعلیم دی ہے۔کہتے ہیں ہر ایک سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ہمیشہ سچ بولو،کوئی مد د مانگے تو فورا اس کی مد د کرو۔مجید،سعید کو سمجھتا رہتا مگر سعید ٹس سے مس نہ ہوتا۔سعید اُس کی باتوں پر کوئی دھیا ن نہیں دیتا تھا بلکہ مذاق اڑاتا رہتا تھا۔
    اُُس روز سر عبدالقادر نے اُردو کے پیریڈ میں بچوں سے ہو م ورک کی کاپیاں لانے کو کہا۔سبھی نے کاپیاں جمع کروا دی ،سوائے مجیدکے۔مجید نے سر عبدالقادر ! کو کہا ،سر! میری کاپی بھر گئی تھی دوسری کاپی نہیں لے سکا ۔مجھے معاف کر دیں۔صبح لازمی ہو م ورک کر کے لاؤں گا۔
    سر عبدالقادر ! خاموش ہو گئے کیونکہ مجید ایک اچھا طالب علم تھا ۔کبھی اُس کی شکایت نہیں ملی تھی۔بہت ہنس مکھ تھا۔سبھی سے مل جل کر رہتا تھا۔دوسرے د ن بھی مجید کاپی نہ لایا تو سر قادر نے محسوس کیا۔وہ کچھ افسردہ ساہے۔ضرور مجید کے ساتھ کوئی پرابلم ہے۔پڑھا ئی بھی ٹھیک نہیں کر رہا ۔ہو نا ہو ۔۔اس کے ساتھ کوئی پرابلم ہے۔
    پیر یڈ ختم ہوا تو سرعبدالقادر نے مجید کو اسٹاف روم میں بلوایا۔پہلے تو مجید پریشان ہوا مگر پھر ہمت کرکے سرعبدالقادر کے پاس چلا گیا۔سر قادر نے بڑے پیار سے مجید سے اُس کی پریشانی پوچھی تو اُس نے ادب سے کہا۔
    سر!میرے والد صاحب کی ملازمت رشوت نہ لینے کی پاداش میں چھوٹ گئی ہے۔میری امی سلائی کر رہی ہیں اورمیں شام کو اخبار بیچتا ہوں۔کل جو پیسے ملے تھے ۔وہ گھر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع میں خرچ ہو گئے۔اب نہ پاپا کے پاس رقم ہے نہ امی کو سلائی کے پیسے ملے ہیں۔سر! میں کل سارا کام کرکے لے آؤں گا۔
    سرعبدالقادر نے مجید کی بات غور سے سننے کے بعد اپنی جیب سے کچھ رقم نکال کر مجید کی طرف بڑھاتے ہو ئے مخاطب ہوا ۔مجید بیٹا بُرا نہیں ماننا۔مجھے اپنے والد کی طرح سمجھو۔اُستاد باپ ہی ہوتا ہے۔اُستا د شعور آگہی کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ان پیسوں سے کاپی خرید لینا۔
    مجید نے بہت انکار کیا مگر سرعبدالقادر کے بار بار اصرار کرنے پر مجید نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پیسے لے لئے اور واپس کلاس روم میں آکر بیٹھ گیا۔
    اُدھر جب مجید سرعبدالقادر کے پاس گیا تو کلاس میں کھلبلی مچ گئی۔سب طُلبہ کہہ رہے تھے یارو مجید کے ساتھ کوئی پرابلم ہے ۔ہمیں اُس کی مدد کرنی چاہیے۔اُنہوں نے پیسے جمع کرنا شروع کر دیئے۔ایک لڑکا اُسی وقت بازار سے کاپی لینے چلا گیا
    مجید واپس کلاس روم میں آکر بیٹھا تو لڑکے نے کاپی اس کے حوالے کی تو مجید حیران رہ گیا۔اُس کی آنکھوں میں آنسو رواں ہو گئے۔چھٹی ہوئی تو سعید نے پوچھا یار !سرعبدالقادر نے اسٹاف روم میں کیوں بلوایا تھا۔؟مجید نے سعید کو سچ سچ بتا دیا۔
    اُسی روز اخبار بیچنے گیا تواُس کے اخبار بہت زیادہ بکے۔گھر پہنچا تو امی خوش خوش نظر آرہی تھی۔ابھی اُس نے آج ملنے والی خوشی ماں کو سنانی تھی ،مگر اُس کی مما پہلے بول پڑی ۔مجیدبیٹا!آج سلائی کے پیسے مل گئے ہیں۔تم صبح کاپی لے لینا۔مما اب مجھے کاپی کی ضرورت نہیں ہے۔کیوں بیٹا؟پھر مجید نے تما م روداد اپنی ماں کو سنا دی۔ابھی صحن میں کھڑے ماں بیٹا باتیں کر رہے تھے کہ مجید کا باپ بھی آگیا۔اُسنے ماں ،بیٹے کی باتیں سن لی تھیں اور اب تینوں خوش ہو رہے تھے۔رب تعالیٰ نے خوب کرم کیا تھا۔مگر ابھی ایک بڑی خوش خبری آنے والی تھی۔تینوں صحن میں ہی کھڑے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔مجید کے پاپا باہر گئے تو سرعبدالقادر آئے ہوئے تھے۔انہوں نے مجید کے والد کو سلام کیا۔پھر مجید کے پاپا سر قادر کو بیٹھک میں لے آئے۔مجید بھی آگیا۔سرعبدا لقادر !مجید کے ابو سے کہنے لگے۔
    مجھے اپنے ابوکی فیکٹری کے لئے ایک ایمان دار آدمی کی ضرورت ہے آپ میرے ساتھ چلیں۔اب آپ ہمارے منیجر کے طور پر کام سر انجام دیں گے۔
    مجیداور اس کے پاپا ایک دوسرے کے منہ دیکھ رہے تھے۔دونوں حیران بھی تھے اور رب تعالیٰ کی کرم نوازی سے خوش بھی ہورہے تھے۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سرقادر کو کیا جواب دیں۔آخر کار اُنہوں نے حامی بھر لی۔یقینی طور پر یہ ان لوگوں کی نیکیاں کام آئی تھی اور خوش اخلاقی کی وجہ تھی جو رب تعالیٰ نے انہیں مشکلات سے نکال کر خوشحال کر دیا تھا۔
    سعید نے مجید کی زبانی واقعات سن کر فیصلہ کیا کہ وہ بھی خود کو بدلے گا۔پھر ایسا ہی ہوا سعید نے خود کو بدل کر دیکھا دیا۔سبھی سے خوش اخلاقی سے پیش آتا اور سچ بولتا تھا،لڑائی جھگڑے اس نے چھوڑ دیئے۔اور یو ں دونوں دوست خوش ہو کر ایک دوسرے کیساتھ رہنے لگے ۔
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    پڑھ کر تبصرہ کروں گا
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    زبردست کہانی ہے
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں