1. This site uses cookies. By continuing to use this site, you are agreeing to our use of cookies. Learn More.
  2. آپس میں قطع رحمی نہ کرو، یقینا" اللہ تمہارا نگہبان ہے۔یتیموں کا مال لوٹاؤ، اُن کے اچھے مال کو بُرے مال سے تبدیل نہ کرو ۔( القرآن)

  3. شرک کے بعد سب سے بڑا جرم والدین سے سرکشی ہے۔( رسول اللہ ﷺ)

  4. اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو یقین کرو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے۔(خلیل جبران)

ابن نیاز بقلم ابن ریاض

'میرا تعارف' میں موضوعات آغاز کردہ از ابن نیاز, ‏ستمبر 11, 2017۔

  1. ابن نیاز

    ابن نیاز یونہی ہمسفر

    گئے دنوں کا قصہ ہے کہ دو کلاسیکی گلوکار سلامت علی نزاکت علی تھے۔ یہ دونوں بھائی شام چوراسی گھرانے کے تھے اور یک جان دو قالب تھے۔ ان کی بہترین ریکارڈنگ وہ ہیں جو انھوں نے مل کر گائیں۔ بعد ازاں یہ جوڑی ٹوٹ گئی اور اس کے کچھ عرصے بعد نزاکت علی انتقال کے گئے۔

    بھارت کے جب ہم گانے سنتے تو اکثر معروف گانوں کے موسیقار لکشمی کانت پیارے لعل ہوتے۔ ہم انھیں ایک ہی شخصیت سمجھتے تھے اور ان کے طویل نام پر حیران ہوتے تھے۔ یہ راز بعد میں افشا ہوا کہ وہ دو مختلف افراد ہیں مگر مل کر کام کرتے ہیں۔

    یہی عالم اس وقت ابن ریاض اور ابن نیاز کا بھی ہے۔لوگ ہمیں بھائی سمجھتے ہیں۔حالانکہ یہ بات تو واجبی سی سمجھ بوجھ والا بھی جان سکتا کہ اگر ہم سگے بھائی ہوتے تو وہ بھی ابن ریاض ہوتے۔زیادہ ذہین لوگوں کا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا آپ دونوں کزنز ہیں تو جی ہاں یہ بات بالکل درست ہے۔ابن نیاز ہمارے دور کے کزن ہیں۔ زیادہ دور کے نہیں یہی کوئی ساڑھے تین ہزار کلومیٹر دور کے ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ وہ ہمارے اسلامی بھائی ہیں اور ایک معروف قلم کار۔ یہ ایک ایسی دوستی ہےجس پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔

    ابن نیاز کو ہم جب سے جانتے ہیں جب یہ صرف لودھی تھا۔ اپنے نام کے ساتھ لودھی یوں لگاتا ہے کہ جیسے اس کے اجداد جنگ ہارے نہیں بلکہ انھوں نے مغلوں کے چھکے چھڑا دیے ہوں۔اس کو دیکھ کر ہمیں یونس خان یاد آ جاتا ہے کہ وہ صفر پر آئوٹ ہو کر بھی یوں قہقہے لگاتا واپس جاتا ہے کہ جیسے سینکڑا سکور کر کے جا رہا ہو۔ آپس کی بات ہے کہ اپنے پیارے ملک میں جینے کا یہی طریقہ رائج ہے۔ابن نیاز اگر چاہتا تو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو کیش کروا کر سیاست میں بھی نام پیدا کر سکتا تھا مگر اس کی طبیعت اس سے نفور ہے۔

    سالوں پہلے کا قصہ ہے کہ ہماری ایک فورم پر بات چیت ہوئی۔ ان صاحب کو بھی علم و ادب سے لگائو تھا ۔اس کے علاوہ ہم دونوں ایک دوسرے کے اکلوتے قاری تھے۔ ہم لکھتے اور ابن نیاز پڑھتا اور سر دھنتا(اپنا ہمارا نہیں) پھر وہ لکھتا اور ہم حساب چکا دیتے یوں ہماری آپس میں جلد ہی گاڑھی چھننے لگی ۔ بعد مین پتہ چلا کہ خود بہت بے ادب ہے۔ کتاب پڑھنے کا اسے جنون ہے۔ اتنی فضول اور بیزارکن کتابیں یوں مزے لے لے کر پڑھتا ہے جیسے کہ چھوٹے بچے من پسند کھلونے سے کھیلتے ہوئے محظوظ ہوتے ہیں۔ مگر ادب پر اس کی گرفت اور معلومات قابل رشک ہیں۔ جب یہ کسی مضمون یا افسانے پر تبصرہ کرتا ہے تو کوزے کو دریا میں بند کر دیتا ہے۔کیونکہ کوزے میں دریا بند کرنا کسی مائی کے لال کے بس کی بات نہیں۔
    ہم اسلام آباد میں رہتے تھے اور وہ اسی شہر میں برسرروزگارہے۔ باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ہم سے پتا لیا اور بغیر بتائے ہمارے گھر پر آ پہنچا اور فون کر کے پوچھا کہ کہاں ہو؟ہم نے سچ بولا کہ گھر ہیں تو کہنے لگا کہ دروازے پر آئو۔ موت، مصیبت اور ابن نیاز کسی وقت بھی نازل ہو سکتے ہیں۔ مرتے کیا نہ کرتے ہم باہر گئے اور مصافحہ کیا۔۔اندر لائے اور گفتگو شروع ہوئی۔۔ کچھ ہی دیر میں بیزاری پر شوق غالب آ گیا کیونکہ ابن نیاز کی گفتگو میں معلومات اور دلیل کے ساتھ ساتھ خلوص کی کمی نہیں۔ اس کے بعد ہم نے اس سے وٹے سٹے کا تعلق بنا لیا۔ کبھی وہ ہمیں اپنے دفتر بلا لیتا کبھی ہم اس کے دفتر چلے جاتے۔یہ تعلق پاکستان سے آنے تک برقرار رہا۔ اس کے بعد اب ہم فیس بک اور سکائپ کے ذریعے اک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔

    کالم نگاری کا سفر بھی ہم دونوں کا ایک ساتھ شروع ہوا اور اس ناچیز کے مشورے پر ہی لودھی ابن نیاز ہوا۔ہماری سی سی پی(کالمسٹ کونسل آف پاکستان) کی فیس کے پیسے بھی ابن نیاز نے ہی دیے جو کہ اب واپس کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں۔ ہمارا اور ابن نیاز کا ممبر شپ کارڈ بھی ایک ہی دن جاری ہوا۔ ان دنوں ہماری آنکھ میں تکلیف تھی جس کا احوال پھر کبھی۔ ایسے میں ہم نے اپنی وحشت میں لودھی کے رکنیت والے کارڈ پر لوگوں کے تبصروں پر شکریہ کہنا شروع کر دیا اور خود کو مبارک باد دے دی۔ مگر
    اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

    اب بھی ابن نیاز کے کالموں کے اکثر لنک ہمیں دیے جاتے ہیں۔ ہم ان پر یہ ظاہر کر کے کہ یہ ہمارا کالم نہیں ہے دل آزاری کے مرتکب نہیں ہوتے۔ الٹا ہم ان صاحبان کا شکریہ ادا کرتے ہیں مگرساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ پذیرائی کا شکریہ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ امید ہے کہ اگر ابن نیاز کو بھی ہمارے کالموں کا لنک کوئی نادانستگی میں بھیج دے تو وہ بھی اسی وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں گے۔

    ہمارے اور ابن نیاز کے درمیان ایک ان کہا معاہدہ ہے کہ من ترا حاجی بگوئم تو مرا حاجی بگو۔ ہم نے ایک دوسرے کی تعریف ہی کرنی ہے خواہ ہم کتنی ہی فضول تحریر کیوں نہ لکھیں۔ جوںہی ان کا کوئی کالم ہماری نظر سےگزرے ہم نا صرف اظہار پسندیدگی کرتے ہیں بلکہ اپنے الفاظ میں ابن نیاز کی مدح بھی کرتے ہیں۔ کس مہارت سے موضوع کو قلم بند کیا ہے۔انداز بیان کیا خوبصورت ہے اور کیا خوب آپ نے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے۔ابن نیاز کا بھی یہی معمول ہے۔ابن ریاض موجودہ دور کا ابن انشا ہے۔ خوبصورت مزاح۔ لکھتے رہو اور ہمیں محظوظ کرتے رہو۔

    پہلے ہم ایک دوسرے کے کالموں کی تعریف کرتے تھے۔ اب ہم نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ابن نیاز کی مدح میں پورا کالم لکھ دیا۔ اور ان کا شمار اب ان نایاب لوگوں میں کروا دیا کہ جن کی ثنا ان کی زندگی میں ہوئی ورنہ ہمارے پیارے ملک میں یہ کام بعد از مرگ کیا جاتا ہے۔ اب ابن نیاز سے بھی ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری اس کاوش کا مثبت جواب دیں گے اور ہمیں اگر اپنے کسی اگلے کالم میں مزاح کے نئے اسلوب کا بانی یا مزاح نگاری کا اقبال یا غالب قرار دیں تو آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں( ہم البتہ خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتے)۔ اسے بس ایک کالم سمجھیے گا اور یہ جانئے گا کہ دوست نے دوست کا قرض اتار کے حق دوستی ادا کیا ہے۔
     
    زبیر اور علی مجتبیٰ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    زبردست تحریر ہے
    ابن ریاض صاحب نے طنز کے ساتھ کتنی خوبصورتی سے ابن نیاز بھائی کا تعارف پیش کیا ہے
    ابن ریاض صاحب اور ابن نیاز بھائی دونوں زبردست کالم نگار ہیں
     
    Last edited: ‏ستمبر 12, 2017
    Pakistani نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زبیر

    زبیر منتظم Staff Member

    تحریر تو مزے دار رہی لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی ،
    یہ تحریر @ابن ریاض کی ہے جو انہوں نے @ابن نیاز کے بارے میں لکھی لیکن اس کو یہاں @ابن نیاز نے شائع کیا اور اس کو اگر اس کے عنوان کے ساتھ غور سے پڑھا جائے تو ہی قصہ سمجھ آتا ہے۔ اگر ابن ریاض نے خود شائع کی ہوتی پھر تو معاملہ سادہ تھا۔۔
    @ابن نیاز کسی نے اگر تحریر بغیر پڑھے تبصرہ کیا تو آپ آسانی سے پہچان لیں گے کہ یہ بندہ صرف تبصرہ کر رہا ہے تحریر نہیں پڑھی ۔۔
    خوش رہیں ہمارے ہمسفر بنے رہیں ۔
     
    Pakistani اور علی مجتبیٰ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ابن نیاز

    ابن نیاز یونہی ہمسفر

    بات آپ کی درست ہے کہ یہ تحریر ابن ریاض کی ہے۔ میں نے اس لیے شیئر کی ہے کہ یہ میرا تعارف تھا۔ تو تعارف والے سیکشن میں اور تو کچھ نہ سوجھا، یہی پوسٹ کر دی۔
    یہ بات درست ہے کہ تحریر پڑھے بغیر جو تبصرے ہوتے ہیں، وہ کچھ اسی طرح ہوتے ہیں کہ بہت خوب، بہترین، زبردست وغیرہ۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس نے پڑھی ہے اور کس نے نہیں۔
     
    زبیر اور Pakistani .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. Pakistani

    Pakistani یونہی ہمسفر

    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ابن ریاض

    ابن ریاض یونہی ہمسفر

    1. بہت ہی خوب جناب
     
    زبیر اور علی مجتبیٰ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    جی لیکن یہ تو آپ کی تحریر ہے نا
     
    زبیر نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زبیر

    زبیر منتظم Staff Member

    یونہی تک کیسے پہنچے اور یونہی کو کیسا پایا؟
     
  9. ابن نیاز

    ابن نیاز یونہی ہمسفر

    علی مجتبٰی نے دعوت طعام دی.
    یہاں پہنچا تو طعام کی ط غائب ہو چکی تھی. بس عام رہ گئی تھی..
    لیکن دعوت تو دعوت ہوتی ہے، عام ہو یا طعام ہو...
    اسلیے ٹھکرائی نہ جا سکی.
    اس کو کیسا پایا؟
    ابھی تو ابتداء ہے.. اللہ ترقی سے نوازے، آمین.
     
    علی مجتبیٰ نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. علی مجتبیٰ

    علی مجتبیٰ مدیر Staff Member

    آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں